’’اگر گاڈ فادر اور مافیا کہا گیا تو یہ صرف عدالت میں سامنے آنے والے ثبوتوں ہی کی بنا پر نہیں، اس میں کہنے والوں کے مشاہدات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔‘‘ یہ بات اختر علی مونگا نے اپنی گفتگو کی روانی میں بغیر کسی جوش اور اپنی بات میں زور پیدا کرنے کیلئے میز پر ہاتھ مارے بغیر کہی۔ مگر بات ایسی تھی جو نوٹس میں آ گئی اور ہمارے سوال کئے بغیر مگر پرتجسس لہجے میں ان کی طرف دیکھنے پر انہوں نے خود وضاحت کر دی۔ اختر مونگا کسی دور میں ڈپٹی کمشنر رہے اور بعض مشاہدات اور تجربات نے ان پر بھی وہ کچھ واضح کیا جس کا اظہار گاڈ فادر اور مافیا کے طور پر کیا گیا۔ آجکل مونگا صاحب وکالت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے 17 روز کی سماعت میں میاں نواز شریف کی بحالی کا فیصلہ کر دیا تھا۔پوری طرح وکلا کو بھی نہیں سنا گیا۔ فیصلے سے قبل کی رات کو لاہور میں ایک بڑے لیڈر نے یہ کہہ کر جشن کی تیاریوں کا پیغام دے دیا کہ فیصلہ ہمارے حق میں آ رہا ہے۔ کیس کے دوران ایک فاضل جج کے بیٹے کا لاہور میں کرنٹ لگنے سے انتقال ہو گیا مگر سماعت میں وقفہ نہ آیا۔ بعدازاںبنچ کے جج حضرات تعزیت کے لئے لاہور آئے تو اس موقع پر میاں نواز شریف بھی ان سے ملے۔ ان دنوں کسی انگریزی اخبار میں چیک کی خبر بھی چھپی تھی۔‘‘ جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں کوئٹہ رجسٹری کے ججوں کو رفیق تارڑ کے ذریعے نوٹوں کے بیگ بھجوانے کی بہتان طرازی ہوتی رہی ہے اور اب تک کئی جیدتجزیہ نگار اپنی باطل رائے پر قائم ہیں۔ مونگا صاحب کا یہ کہنا کہ 17 روز کی سماعت میں میاں نواز شریف کی بحالی کا فیصلہ کر دیا گیا‘یہ حیران کن تھا۔ پاناما کیس کا فیصلہ پورے دو سو دنوں میں آنے پر طوفان اٹھا ہوا ہے کہ ایسی برق رفتاری اور سرعت کی کیا ضرورت تھی! میں نے نوائے وقت کے ریفرنس سیکشن اور ریکارڈ روم سے فائلیں منگوا کر صورتحال جاننے کی کوشش کی جس میں کچھ یادداشتیں تازہ ہوئیں:۔’’صدر غلام اسحٰق خان نے میاں نواز شریف کی حکومت اور قومی اسمبلی 18 اپریل 1993ء کو توڑی جبکہ صوبائی اسمبلیاں برقرار رکھی گئیں۔ بلخ شیر مزاری نگران وزیراعظم بنائے گئے۔ 18 اپریل جسٹس نسیم حسن شاہ کی بطور چیف جسٹس پاکستان تقرری کا پہلا دن تھا۔ جس عمارت میں کیس کی سماعت ہوئی وہ اس دور میں زیرِ تعمیر تھی۔چیف جسٹس افضل ظلہ نے اس ایک کمرے کا افتتاح کر کے اپنے نام کی افتتاحی تختی لگا دی تھی۔ قومی اسمبلی توڑنے کے بارے میں 18اپریل کے صدارتی حکم کے خلاف برطرف قومی اسمبلی کے سپیکر گوہر ایوب نے آئین کے آرٹیکل 199کے تحت راولپنڈی بنچ کے مسٹر جسٹس اعجاز نثار کی اقامت گاہ پر رات ڈیڑھ بجے رٹ درخواست پیش کی۔ فاضل جج نے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس میاں محبوب احمد سے درخواست کی کہ اہم قانونی و آئینی نکات کے پیش نظر اس کی سماعت کے لئے وسیع تر بنچ تشکیل دیا جائے۔ فاضل چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں پانچ رکنی فل بنچ تشکیل دیا جس میں خود، جسٹس سردار محمد ڈوگر، جسٹس خلیل الرحمن خان، جسٹس ارشاد حسن خان اور جسٹس ملک محمد قیوم شامل تھے۔میاں نواز شریف کی طرف سے سپریم کورٹ جانے پر لاہورہائیکورٹ میں سماعت جاری نہیں رہ سکتی تھی۔اس بنچ نے صرف دو روز 21اپریل اور 3 مئی کوسماعت کی۔ لاہور ہائیکورٹ کے بنچ کو فیصلہ کرنے کا موقع تو نہ مل سکا تاہم اس کیس سے متعلق ایک تاریخی فیصلہ ضرور سامنے آیا۔ وہ ایک وکیل اکبر چیمہ کو توہین عدالت میں ڈیڑھ سال قید اور جرمانے کا فیصلہ تھا۔ اکبر چیمہ نے صدارتی حکم پر زیادہ ہی جذباتی باتیں کیں۔سماعت کے دوران فوج کے سابق سربراہ مرزا اسلم بیگ کیس کا بھی حوالہ دیتے ہوئے فیصلہ پر تنقید کی جس پر فاضل عدالت نے انہیں اسلم بیگ کیس کے عدالتی فیصلہ کی نقل فراہم کی اور کہا کہ وہ اس فیصلہ کو پڑھ کر بیان دیں لیکن اکبر چیمہ نے عدالتی فیصلہ بھی پڑھنے سے انکار کر دیا۔ بنچ نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ اکبر چیمہ کے وکیل اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کی رائے میں محمد اکبر چیمہ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ فاضل عدالت نے محمد اکبر چیمہ کو تین بار چھ چھ ماہ قید اور تین بار پانچ پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا کا حکم سنایااور کہا گیاکہ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں مزید مجموعی طور پر نو ماہ قید کی سزا بھگتنا ہو گی۔ فاضل بنچ نے اپنے حکم میں لکھا کہ تمام سزائیں یکے بعد دیگرے شروع ہوں گی۔ 25اپریل کو میاں نواز شریف نے آئین کے آرٹیکل (3)184 کے تحت براہ راست سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی۔ 26 اپریل کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں گیارہ ججوں پر مشتمل فل کورٹ نے نواز شریف کی درخواست کی سماعت شروع کی۔ اس میں دیگر جج مسٹر جسٹس شفیع الرحمن، مسٹر جسٹس سعد سعود جان، مسٹر جسٹس عبدالقدیر چودھری، مسٹر جسٹس اجمل میاں، مسٹر جسٹس افضل لون، مسٹر جسٹس سجاد علی شاہ، مسٹر جسٹس رفیق تارڑ، مسٹر جسٹس سلیم اختر، مسٹر جسٹس سعیدالزمان صدیقی اور مسٹر جسٹس فضل الٰہی تھے۔ سپریم کورٹ نے 8 مئی کو نواز شریف کی درخواست کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر شروع کی، ان دنوں جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی،اتوار کی چھٹی ہوتی تو سماعت سولہ کے بجائے بارہ دن میں مکمل ہوسکتی تھی۔ سپریم کورٹ میں نواز شریف کی قانونی پیروی کرتے ہوئے خالد انور، یحییٰ بختیار اور اکرم شیخ نے دلائل دئیے۔ وفاق پاکستان کی طرف سے اٹارنی جنرل عزیز اے منشی اور وزیر خارجہ شریف الدین پیرزادہ جبکہ نگران وزیراعظم بلخ شیر مزاری کی جانب سے ایس ایم ظفر پیش ہوتے رہے۔ دوران سماعت فاضل عدالت کے حکم کی روشنی میں میاں نواز شریف نے یقین دہانی کروائی کہ وہ اسمبلی کی بحالی کی صورت میں صدر سے آئینی تعلقات کار قائم رکھیں گے۔سپریم کورٹ نے 16 روز سماعت کے بعد اس تاریخی کیس کا فیصلہ سنایا۔ یوں 38 روز میں اس کیس کا باب بند ہو گیا۔ پہلی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے کہا۔’’جونیجو حکومت کی برطرفی غیر آئینی تھی لیکن اسمبلی بحالی نہ ہو سکی، ہم نہیں چاہتے دوبارہ ایسا ہو۔ نواز شریف کی رٹ پر فیصلہ 15 مئی تک سنایا دیا جائے گا۔ صدر کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ازخود نتیجہ اخذ کر لیں کہ قومی اسمبلی عوام کے اعتماد سے محروم ہو چکی ہے، محض وزیراعظم ناپسند ہونے کی بنیاد پر کارروائی بدنیتی ہے۔ اسی روز اٹارنی جنرل عزیز اے منشی نے کہا تھا سپریم کورٹ کی حیثیت اپیلوں کی سماعت کرنے والی عدالت کی ہے لہٰذا اسے رٹ کی سماعت کا اختیار حاصل نہیں۔اُن دنوں ایک طرف کیس کی سماعت جاری تھی دوسری طرف میاں نواز شریف لائو لشکر لے کر غلام اسحاق خان کے خلاف سڑکوں پر تھے جلسے جلوس ہو رہے تھے،میاں صاحب نے ایک ٹرین مارچ بھی کیا تھا۔۔لال حویلی والے شیخ رشید ان دنوں میاں صاحب کے سب سے بڑے بھونپو اور وزارت سے محروم ہونے پر لال پیلے ہورہے تھے وہ بھی جو منہ میں آتا کہہ رہے تھے۔ میاں صاحب کا اشتعال آج کی طرح سوا نیزے پر تھا۔ 11 مئی کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ’’نواز شریف کے بیانات سے عدالت ڈسٹرب ہو رہی ہے۔ وہ اشتعال انگیز بیانات نہ دیں۔ عوام سے فیصلہ لینے اور مفروضوں پر بات کرنے سے گریز کریں۔‘‘ میاں نواز شریف کی اشتعال انگیزی عدلیہ کے بارے میں ہرگز نہیں تھی۔ اس لئے ان کے وکیل خالد انور نے عدالت کو یقین دلایا کہ نواز شریف سے آئندہ شکایات نہیں ہو گی۔ اس فیصلے میں جسٹس اجمل میاں اور سجاد علی شاہ نے اختلافی نوٹ لکھا کہ 58 ٹو بی مارشل لاء کا سیفٹی والو ہے اسے برقرار رہنا چاہئے۔ ان دونوں حضرات کا تعلق کراچی سے تھا اور یہ وہی سجاد علی شاہ ہیں جن کی عدالت پر حملہ ہوا جس میں طارق عزیز، میاں منیر اور اختر رسول کو سزائیں ہوئیں۔ بھٹوپر محمد احمد قصوری کو قتل کرانے کاالزام تھا۔ ان کو موت کی سزا دے دی گئی مگر جن لوگوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کرایا ان کو کسی نے نہیں پوچھا۔ میاں نواز شریف کی بحالی کیس کے دوران، چیف جسٹس صاحب مولوی تمیزالدین کیس کا حوالہ دے کر جسٹس منیر پر بھی برستے رہے۔ انہی دنوں ڈاکٹر صفدر محمود نے ایک گفتگو میں کہا تھا 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی دستور ساز اسمبلی توڑی تو سرکاری وکیل فیاض علی خان کی معاونت کرتے ہوئے ڈاکٹرنسیم حسن شاہ نے اسمبلی توڑنے کے حق میں دلائل کے انبار لگا کر مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر کو قائل کر لیا تھا۔ نسیم حسن شاہ کے خیالات اور نظریات میں کایا پلٹ تبدیلی کب اور کیسے آئی؟ جس روز فیصلہ سنایا گیا اس ر وز بھی کیس کی سماعت ہوئی۔ چائے کے وقفے کے بعد سماعت سے قبل ایڈووکیٹ آن ریکارڈ چودھری فضل حسین نے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست گزار دی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا ابھی فیصلہ ہوا ہی نہیں آپ نظرثانی کی بات کر رہے ہیں‘ یہ توہین عدالت ہے اس روز 12 بج کر 55 منٹ پر خالد انور نے دلائل ختم کئے تو یحییٰ بختیار نے شروع کر دئیے۔ اس وقت عدالتی کارروائی ختم ہونے میں پانچ منٹ تھے تاہم انہوں نے پندرہ منٹ لئے تو کمرہ عدالت میں موجود معطل کابینہ کے ارکان، سپیکراور وزیراعلیٰ پنجاب بے چینی سے پہلو بدلتے نظر آئے تاہم سماعت مکمل ہونے کے بعد فاضل جج اپنے چیمبر میں گئے اور سوا تین بجے عدالت لگا کر میاں نواز شریف کی بحالی کا 16 دن کی جادوئی سماعت کا فیصلہ سنا دیا۔ کیس کی سماعت کے دوران جناب مجیب الرحمان شامی کا کالم شائع ہوا جس کا آخری پیراگراف ہم صحافت کے طالب علموں کے لئے مشعل راہ نشان منزل ہے۔’’پوری قوم سپریم کورٹ کے فیصلے کی منتظر ہے۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اپنے ساتھیوں سمیت یہاں آتے اور مؤدب بیٹھ کر اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ خدا کے بعد قانون اور انصاف کی عدالت ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔ ہر پاکستانی کو یقین ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے والے بالآخر خالی ہاتھ رہ جائیں گے۔ اس نامکمل کمرے میں تاریخ کی تکمیل ہونے والی ہے۔ پوری قوم کے قد میں اضافہ ہونے والا ہے کہ انصاف کرنے والے اپنا قد ہی نہیں بڑھاتے، پوری قوم کا قد اونچا کر دکھاتے ہیں۔ اُس دور میں میاں نواز شریف عدالت میں مؤدب بیٹھ کر کیا اعلان کرتے تھے اور آج سینہ تان کر کیا کہہ رہے ہیں۔ ’’ہم‘‘ اس وقت ان کے ساتھ تھے اور آج بھی ان کے ساتھ ہیں جو ہم سے بھی زیادہ ان سے واقف ہیں وہ گاڈ فادر اور مافیا کہہ رہے ہیں۔