لاہور کے قدیم نقشہ جات پر نگاہ دوڑائی جائے تو پرانے شہر کے اردگرد باغات کا ایک وسیع سلسلہ نظر آتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ فیصل شہر کے ساتھ موجود باغ تجاوزات کی نذر ہوگیا اس کی باقیات سرکلرروڈ کے ساتھ کہیں کہیں موجود ہیں شاہی قلعہ کے قریب بادامی باغ اسی منظر کو چار چاند لگاتا تھا۔ سکھوں کی حکومت تک یہ باقاعدہ گراونڈ کی حیثیت اختیار کر گیا۔ سکھ افواج اس گراونڈ میں جنگی مشقیں کرتیں رفتہ رفتہ یہ جگہ سرکاری پریڈ گاہ بن گئی یہاں گھڑ دوڑ کے مقابلے ہوئے نیزہ بازی کا مظاہر کیا جاتا او رکشتیاں لڑی جاتی۔ سکھوں کے بعد حکومت انگریزوں کے پاس پہنچی تو انہوں نے اس گراونڈ میں گھاس پھوس لگا کر اسے پارک کی شکل دے دی اور اسے گورنرلارڈ منٹو کے نام پر ”منٹو پارک“ سے موسوم کر دیا۔
انگریزی عہد میں یہ پارک فوجیوں کے زیر استعمال رہا اہم مواقع پر یہاں فوجی پریڈ بھی ہوتی اور بوقت ضرورت فوج پڑاو بھی کرتی تھی۔ البتہ عام دنوں میں منٹو پارک لوگوں کے لیے سیر و تفریح کے لیے کام آتا تھا شہر کے قریب ترین ہونے کی وجہ سے عوام میں اس کی بے پناہ مقبولیت تھی وایسے بھی اس وقت تک لاہور کے باقی باغات ابھی وجود میں نہیں آئے تھے۔ جو چند ایک باغات بنے تھے وہ صرف انگریز حکمرانوں اور امراءکے لیے مختص تھے ان میں گول باغ اور لارنس گارڈن نمایاں تھے ان دونوں باغات میں حکمران طبقے کی تفرح طبع کا سامان مہیا کیا گیا تھا جن میں بینڈ کا مظاہرہ اور رقص کی محفلیں شامل تھیں۔ عام شہریوں کی تفریح، کھیلوں اور تقریبات کے لیے منٹو پارک نمایاں مقام تھا مدتوں سے اہل لاہور آخری چہار شنبہ کے موقع پر منٹو پارک سیر کے لیے آتے ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے عرس داتا صاحب پر بھی میلہ اس گراونڈ میں لگتا ہے۔ ہر سال اکتوبر کے مہینے میں ہندو منٹو پارک میں ایک ہفتہ تک دسہرہ کا تہوار مناتے اس موقع پر وہ راون کے بڑے بڑے پتلے نذر آتش کرتے اور جشن منایا کرتے تھے۔ بیساکھی کے موقع پر بھنگڑوں اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کے لیے منٹو پارک ایک مشہور مقام ہوا کرتا تھا موسم بہار میں پتنگ بازی کے لیے ہر مذہب کے لوگ منٹو پارک میں ہی آتے تھے۔ گو بسنت کا مخصوص تہوار سکھ گورومانگٹ ہندو سمادھی حقیقت رائے اور مسلمان مادھو لعل حسین پر مناتے مگر عمومی طور پر پتنگ اڑانے کے لیے وہ منٹو پارک کا ہی رخ کرتے تھے۔
جس زمانے میں انگریز حکومت کے خلاف تحریکوں کا آغاز ہوا تو کانگریس اور دیگر جماعتیں منٹو پارک اور اس کے آس پاس جلسے منعقد کیا کرتی تھیں۔ منٹو پارک کو ملک گیر شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب یہاں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت مسلمانوں کے محبوب قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمائی اور یہ تاریخی تقریب ثابت ہوئی۔
قیام پاکستان کے بعد جب یہاں قرار داد لاہور کی یادگار کے طور پر مینار پاکستان تعمیر ہوا تو مینار پاکستان کی وجہ سے منٹو پارک نہ صرف تفریحی مقام بن گیا بلکہ بڑے بڑے سرکاری جلسے بھی یہیں منعقد ہونے لگے جنوری 1949ءمیں بلدیہ نے منٹو پارک کا نام بدل کر اقبال پارک رکھ دیا تھا تاہم بڑے بوڑھے اسے ابھی تک منٹو پارک کے نام سے ہی یادکرتے ہیں۔ ایک زمانے تک منٹو پارک پہلوانوں کا بھی مرکز رہا یہاں چھٹی کے دنوں میں کشتیوں کے مقابلے منعقد ہوتے جنہیں دیکھنے کے لیے بیس بیس چالیس چالیس ہزار افراد بھی بعض اوقات منٹو پارک ہی موجود ہوا کرتے تھے یہاں کئی یادگار کشتیاں ہوئیں۔
پہلوانوں کے علاوہ منٹو پارک پتنگ بازوں کا بھی پسندیدہ مقام رہا ہے کھلے گراونڈ میں لمبے پیچ لڑانا اور پتنگ بازی کے مقابلے میں منعقد کرانا اس گراونڈ کی روایت رہی ہے عوام کے اس قدر رجحان اور دلچسپی کے باعث حکومت پنجاب نے منٹو پارک میں سپورٹس کمپلیکس تعمیر کروایا جہاں مختلف کھیلوں کے لیے جمنیزیم بھی موجود ہیں۔ منٹو پارک نے وہ تاریخ ساز لمحہ بھی دیکھا جس کی وجہ سے یہ تاریخ اقوام عالم میں نمایاں مقام حاصل کر گیا۔ 23مارچ 1940ءکا وہ یادگار دن تھا جب آل انڈیا مسلم لیگ کا 24واں اجلاس منعقد ہوا اس موقع پر قرار داد لاہور پیش کی گئی جو وطن عزیز پاکستان کے قیام کا عنوان بنی اس موقع پر منٹو پارک میں ہزاروں لوگ جمع تھے۔ کہنے کو یہ مسلم لیگ کا عام اجلاس معلوم ہوتا تھا مگر اس وقت شاید کسی کو یہ وہم گمان بھی نہیں ہوگا کہ تاریخ کتنا اہم فیصلہ سنا رہی ہے۔ قائد اعظم کے منٹو پارک میں کہے گئے ایک ایک حرف کو سچ ثابت کر دیا تھا۔
موجود ہ اقبال پارک، تقسیم برصغیر سے قبل منٹو پارک کے نام سے مشہور رہا ہے جہاں سابق بھارتی کرکٹ کپتان لالہ امر ناتھ سمیت متعدد کھلاڑی انڈیا کی طرف سے کھیلے گئے ٹیسٹ کھلاڑیوں میں دلاور حسین، محمد نثار، سید وزیر علی، سید نذیر علی، امیر الٰہی، گل محمد اور عبد الحفیظ کاردار نے نام کمایا بعد میں پاکستان کی طرف سے عبد الحفیظ کارداد، فضل محمود، سرفراز احمد، نذر محمد، وقار حسین اور محمود حسن کے علاوہ بہت سے دوسرے کھلاڑیوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا منٹو پارک تقسیم ہند سے قبل اور بعد میں کرکٹ کی نرسری کہلایا۔
سابق گورنر مرحوم لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان کے دور میں کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، اور اتیھلیکٹس کے لیے ایک الگ گراونڈ بنائی گئی اس پارک نے ہر کھیل خصوصاً کرکٹ میں ملک کو نامور کھلاڑی دیئے یہاں کی دنگل گاہ میں بھولا برادران نے بھی نے خاصا نام کمایا ہے اب بھی ہزاروں کی تعداد میں نوجوان اور بچے یہاں کھیلنے آتے ہیں۔