ہوالشافی۔۔۔۔۔۔بی پی، انجائنا، شوگر ، موٹاپا ۔

2019 ,جولائی 22



اس آرٹیکل کے پہلے حصے میں بتایا تھا، انجائنا کا کس طرح معاملہ ہوا۔ انجیو گرافی کرانی پڑی۔ گھر شفٹ ہونے پر دوستوں اور خیرخواہوں کی طرف سے ”مفید اور مفت“ مشورے دینے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ڈاکٹر عظمت رحمن میوہسپتال اور جنرل ہسپتال کے ایم ایس رہے۔ وہ بھی قریبی عزیزوں کی طرح تشویش میں نظر آئے۔ دو مرتبہ گھر آئے اور فون بھی کرتے رہے۔ میجر نذیر نے کارڈیالوجسٹ کرنل احمد سے فون کرا کے تسلی دلائی۔ انہوں کرنل امتیاز چودھری سے اپنے ریفرنس سے ملنے کو کہا۔ ڈاکٹر عظمت ایک ماہر اور معروف کارڈیالوجسٹ کے پاس لے جانے پر زور دیتے رہے۔ کہا صرف دو ہزار فیس ہے۔ کسی بھی ڈاکٹر کی طرف سے بڑی فیس کا سن کر تو گویا ایک جسم میں ارتعاش اور دماغ م یں اشتعال پیدا ہو جاتا ہے۔ گلی محلوں میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی سو پچاس روپے فیس لیتے ہیں۔ میری پوتی اجر کو بخار ہوتا تو ہوش نہ رہتی جھٹکے لگتے قریب جناح ہسپتال ہے وہاں لے جاتے تو افاقہ ہو جاتا۔ یہ ڈیڑھ سال کی بچی ہے، ایک ”ماہر“ ڈاکٹر نے ریڑھ کی ہڈی مواد لے کر ٹیسٹ کا مشورہ دیا مگر یہ غیر ضروری تھا۔ ایک ماہر ڈ اکٹر کو 4 ہزار فیس دے کر چیک کرایا۔ ڈاکٹر اتنی بڑی فیس کیوں دو ہزار بھی کیوں، ہزار بھی زیادہ ہے۔ کلینک کے اخراجات اور خاندان کی روٹی چلانے جوگی فیس کا جواز ہے۔ بڑی فیس لینا مسیحائی نہیں پیشہ قصائی سے جو گدائی سے بدتر ہے۔ ایم بی بی ایس کرنے کے لیے بچے کا محنتی اور ذہین ہونا ضروری ہے۔ میٹرک اور ایف ایس سی میں میرٹ پر آنے کی دعائیں کی جاتی ہیں۔ انسانیت کی خدمت کے سوا دوسرا کوئی مقصد ہی نہیں کا عزم ارادہ ۔ کئی مائیں بچوں کو ڈاکٹر بنانے کی خواہش کی بجاآوری کے لیے پیروں کے پاس اور مزارات جاتی پر بھی جاتی ہیں۔ کرکٹ یا کسی ٹیم میں آنے کے لیے نوجوان اور ان کے والدین بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ ملازمت کے حصول کے لیے بھی یہی عموماً ہوتا ہے اور پھر جب منزل حاصل ہو جاتی ہے پھر تو کون اور میں کون!! کھلاڑی دھڑے بندی کرتے اور کئی جوئے کی لت میں پڑ جاتے ہیں۔ ملازمت پیشہ کیا کچھ نہیں کرتے۔ آئین و قانون کو بھی نہیں بخشتے رعونت عموماً ساتویں آسمان پر ہوتی ہے جب خدا کا کوڑا پڑتا ہے تو جیلیں مقدر ہوتی ہیں۔ رسوائی کی حد نہیں رہتی بڑی مشورہ فیسیں لینے والے ڈاکٹروں کو اپنے پیٹی بھائی ڈاکٹر جمعہ کا انجام بھی یاد نہیں۔ ایک نوجوان زخمی ان کے کلینک پر لایا گیا، ڈاکٹر صاحب نے فیس طلب کی، اور فیس کی ادائیگی کے بغیر زخمی کو دیکھنے سے انکار کر دیا۔ اس زخمی سجیلے نوجوان کو ازراہ انسانیت و ہمدردی راہ گیر اٹھا کر لائے تھے۔ اس دوران ایک ملازم نے آ کر بتایا جناب وہ آپ کا اکلوتا بیٹا ہے جو آپکی تاخیر کی وجہ سے مر چکا ہے۔ یہ اس ڈاکٹر سے قدرت کا بدترین انتقام تھا۔ اس صدمے میں ڈاکٹر جمعہ ایک ہفتے میں کومے میں رہنے کے بعد اپنے بیٹے کے پاس چلا گیا۔ تاہم سلام ہے ایسے ڈاکٹرز اور پروفیسرز کو جو آج بھی صرف دو سو فیس لیتے ہیں مگر وہ بھی بھوکے نہیں رہتے۔ 
میرا ہسپتال کا زیادہ تلخ تجربہ نہیں ہے تاہم ہسپتال اور ضلع کچہری کوئی بھی خوشی سے نہیں جاتا۔ وہاں اگر کوئی آپ کی بات توجہ سے سن لے بہی بڑی بات ہے۔ آئی سی یو اور وارڈ میں سٹاف جو زیادہ تر خواتین پر مشتمل ہے اسکا رویہ مریضوں کے ساتھ ہمدردانہ ، ڈاکٹر بھی ذمہ دار اور پروفیشنل نظر آئے۔ سینئر ڈاکٹر وقفے سے آتے ،مریضوں سے بات کرتے ،بیماری کی نوعیت دریافت کرکے فائل پراندراج کر دیتے۔ انجیو گرافی سے قبل ایک نوجوان ڈاکٹر نے کہا، شاید آپ کی انجیو گرافی نہ ہو کیونکہ ذیابیطس دس سال بعد گردوں پر اثر کرتی ہے‘ تاہم دوسرے راﺅنڈ میں اس ڈاکٹر نے بتایا کہ زیادہ مسئلہ نہیں ہے، انجیو گرافی ہو سکتی ہے۔ گردوں پر شوگر کے اثر انداز ہونے کی بات سے جو تشویش لاحق ہوئی‘ وہ کسی حد تک کم ہو گئی۔ انجیو گرافی میں سنگین مسئلہ تو سامنے نہیں آیا یا میںسنگین نہیں سمجھ رہا تھا، تاہم دل کا مرض ضرور دریافت ہو گیا ۔میرے اعتراف یا انکار سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں تھا۔ میں اس کا سبب شوگر کو سمجھتا ہوں‘ تاہم ایکو رپورٹ میں دل کی کارکردگی 60 سال کی عمر میں آئیڈیل بتائی گئی۔ نوجوان کی 60 فیصد ہوتی ہے اورایکو میں میرے دل کی 50 فیصد تھی، ڈاکٹرز کے بقول سیر کام آ گئی۔ مجھے انجیو گرافی کے حوالے سے کچھ معلومات ضرور تھیں‘ تاہم سی ٹی انجیو کے بارے میں بعد میں یو ٹیوب اور گوگل پر کچھ ویڈیو اور تحریریں دیکھ کر معلوم ہوا۔ اس میں تار جسم میں ڈالے بغیر دل کی کارکردگی اور بلاکیج کا پتہ چل جاتاہے۔ پاکستان میں یہ موجود ہے۔ دس منٹ میں کام تمام ،مریض کا نہیں مرض کے ٹیسٹ کا ہوجاتا ہے۔مریض تکلیف سے بچ جاتا اور خرچہ بھی زیادہ نہیں ہوتامگر انجیو پلاسٹی کیلئے تار والا طریقہ ہی استعمال ہوتا ہے۔
انجیو گرافی کے حوالے سے ڈاکٹر کہتے ہیں‘اس کا کوئی سائیڈ ایفکٹ نہیں،یہ بے ضرر ہے۔ میں ذاتی تجربے کی بنا اس سے متفق نہیں ہوں۔ ایک وین کے ذریعے دل تک تار پچیس منٹ تک گھمائی جائے اور کوئی فرق نہ پڑے؟ اس عمل کے دوران اموات بھی ہو چکی ہیں۔ ڈاکٹر نے کبھی ٹیکہ لگاتے یا میڈیسن دیتے ہوئے کسی فارم پر دستخط نہیں کرائے۔ آپریشن اور انجیو گرافی سے پہلے مریض کے ورثاءسے بین السطور کہتے ہیں ”نقصان“ کی صورت میں ہمارا ذمہ اوش پوش۔
انجیوگرافی کے بعد کافی دن شدید کمزوری رہی۔ شاید یہ بخار کی وجہ سے ہو۔ تاہم ایک ہفتے بعد کمر میں دائیں جانب کولہے کے اوپر بیک سائیڈ میں گردے والی جگہ پر دباﺅ اور کھچاﺅ محسوس ہونے لگا۔ پانچ چھ سال قبل بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ میں نے اس وقت اور اب بھی گردے میں مسئلہ سمجھا۔ اُن دنوں پانی زیادہ پینے لگا اور اب بھی‘ جس سے افاقہ ہوا مگر فکر مندی تھی۔ ایک روز تو اس دباﺅ کی شدت اتنی بڑھی ،میں نے حفظ ماتقدم کے طورپر جیب میں پین کلر بروفن رکھ لی۔ ڈاکٹر کے پاس گیا تو انہوں نے کہا ،گردے میں انجیو گرافی کی وجہ سے یہ دباﺅ ہے جو خود بخود ختم ہو جائے گا کسی میڈیسن کی ضرورت نہیں اور واقعی دو تین ہفتے میں یہ مسئلہ ختم ہو گیا‘ تاہم اگلے چند روز میں پھر شروع ہو گیا۔ اب میڈیکل سپیشلسٹ سے بات کی، انہوں نے گردے کا ٹیسٹ لکھ دیا جس میں کوئی مسئلہ نہیںآیا۔ ڈاکٹر نے کہا یہ کسی پٹھے میں کھچاﺅ کی وجہ سے دباﺅ ہو سکتا ہے۔ اس ٹینشن سے نجات پر اللہ کا شکر ادا کیا۔
انجیوگرافی کے بعد شاید اس کا اثر ہے۔ سر میں ہر وقت سائیں سائیں ہوتی ہے۔ بلڈ پریشر ادویات کے استعمال کے باوجود ہائی رہنے لگا تھا۔شروع میں چلتے ہوئے محسوس ہوتا ابھی گرا۔ ہائر سٹار شروع میں کیا تو گیا خواب میں چل رہا ہوں، کبھی لگتا جسم پر کنٹرول نہیں ہے۔ انجیوگرافی کے بعد جلدہی پھر سے واک شروع کر دی مگر سلو سپیڈ میں۔ اس دوران بھی لڑکھڑاہٹ سی محسوس ہوتی‘ تاہم دو ماہ بعد پہلے کی طرح ایک سوا گھنٹے کی واک کرتاہوں جس میں کچھ جوگنگ بھی شامل ہے۔
 ڈاکٹروں نے میڈیسن لکھ دی مگر خوراک اور ایکسر سائز وغیرہ کے بارے میں ہدایت نہیں کی۔ ذیابیطس اور دل کے مرض میں تو لائف سٹائل مکمل طورپر تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔میں جس ادویات نہ کھانے کے ”خود ساختہ فلسفے“ پر عمل پیرا تھا‘ ان دنوں اور بعد میں بھی دل کے امراض اور ذیابیطس کے حوالے سے ریسرچ کرتا رہا ،یہ انٹرنیٹ پر گوگل اور یو ٹیوب کے باعث کافی آسان عمل ہے مگر اس میں جہاں کام کی معلومات کا خزانہ ہے‘ وہیں جعلساز اور دھوکہ باز اپنا چورن بیچنے والے بھی سرگرم ہیں۔
انجیو گرافی کے بعد ایک آنکھ کی بینائی زیادہ ہی متاثر ہو گئی۔ میں نے انجیو گرافی کے بعد گردے والی جگہ کے قریب کھچاﺅ کی بات کی‘ سر میں سائیں سائیں ہونا‘ بینائی کا مسئلہ، یہ ہو سکتا ہے انجیو گرافی کی وجہ سے نہ ہو محض اتفاق ہو۔ اس کے بعدمیں نے دل کے مسئلے اور شوگر کو بھی زیادہ سنجیدگی سے لیا۔ بلڈ پریشر ہائی رہتا تھا۔ اس کیلئے ریسرچ میں پتہ چلا کہ ’ارجن‘ درخت کی چھال مفید ہے۔ چائے میں چٹکی بھر اس کا پاﺅڈر ڈال کر پینا ہوتا ہے۔میں نے یہی کیا ڈیڑھ ماہ میں بی پی لو رہنے پر یہ سلسلہ معطل کرنا پڑااب مجھے بی پی نارمل رکھنے کیلئے انڈے کھانے اور نمک استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ارجن ناپید نہیں عام درخت ہے مگر اس کی پہچان کم ہے۔لاہور میں بیشمار ہیں۔باغ جناح میں بڑے درختوں پر نام لکھے ہیں۔بھاری بھرکم اور طویل،پتے امرود کی مانند،اس درخت کا پھل ڈیڑھ دو انچ لمبا اوپر پرے سے بنے ہوتے ہیں۔پنساری سے آسانی سے اس کی چھال مل جاتی ہے۔ارجن کی تلاش میں دوسرے درختوں کی پہچان اور کچھ کی افادیت سے آگاہی ہوئی۔درختوں ،پودوں اور جڑی بوٹیوں کی صورت میں کائنات میں صحت وتندرستی کا خزانہ بکھرا ہوا ہے۔
ایک اور بڑا مسئلہ میڈیسن کے باعث قبض کا درپیش رہا،اس کیلئے املتاس کی پھلیوں کا گودا بہتر ہے،اس کی ڈیڑھ دو فٹ لمبی پھلی ہوتی ہے،گودے کو پانی میں حل کرکے چھان کر پانی پینے کے دوتین گھنٹے میں پیٹ صاف ہوجاتا ہے،املتاس کا تعارف بھی ارجن کی تلاش کے دوران ہوا۔آنکھ کی بنائی کی بات کی تھی وہ اب بتدریج ”سپیشل چائے“پینے سے بہتر ہورہی ہے۔
شوگر کے حوالے سے ممکنہ حد تک پرہیز کرتا ہوں۔گزشتہ دنوں میں نے کچھ اپنے اوپر تجربات بھی کئے جو قارئین کی معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔چنے اور امرود کے بارے سنا تھا ان میں شوگر نہیں ہوتی۔ مگر یہ تصور میرے تجربات کی حد تک درست ثابت نہیں ہوا،اگر شوگر سے فری کوئی سبزی ہے تو وہ بھنڈی اور مولی ہے۔ ان میں کھیرے کی طرح زیرو گلوکوز ہے۔ امرود میں گلوکوز ہے مگرکافی کم۔ سٹرابری میں نہ ہونے کے برابر جبکہ چنے اور جو میں بھی شوگر پائی جاتی ہے۔گندم کی روٹی میں بے شمار شوگر ہے۔ چاول میں اس سے بھی زیادہ ہے۔بڑے وثوق سے کہا جاتا ہے جامن شوگر کا مجرب تریاق ہے۔یہ بھی سن لیجئے۔تین روز قبل صبح ایک آم دو کیلے ایک روٹی ناشتے میں کھائی اور چائے ،دوپہر کی وہی روٹین تھی شام واک کے بعد شوگر78تھی۔شام کو بھی ہلکا سا کھانا کھایا اگلی صبح فاسٹنگ 85آئی۔جہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے ،رات کے کھانے کے بعد صبح بارہ گھنٹے بعد ناشتے تک کچھ بھی کھانے سے گریز شوگر کو نارمل رکھنے کیلئے مناسب ہے۔جس روز جامن کے تجربے کی بات کررہا ہوں،اس رات بریانی کھالی،اگلی صبح شوگر129تھی،یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا،اس کااندازہ تھا۔اس کے بعد جامنیں کھائیں ، دو گھنٹے بعد 226ریڈنگ آئی،گویا سو کے قریب بڑھ گئی تھی۔جامن کی گٹھلیوں میں شاید بہتری ہو۔جولوگ جامن چنے یا کچھ اور کھانے کا مشورہ دیتے ہیں ان سے پوچھیں وہ سنی سنائی بات کرتے ہیں یا کسی تجربے سے گزرے ہیں۔میتھی دانا،نیم کے پتے ،کئی جڑی بوٹیوں کے مرکب ،شوگر کے خاتمے کیلئے مجرب بتائے جاتے ہیں کئی استعمال بھی کئے مگر متوقع افاقہ نہ ہوا۔کئی اور امراض کی طرح شوگر کے خاتمے کیلئے بھی لوگ دَم اور تعویز گنڈا کراتے ہیں۔ان کیلئے وقفے وقفے سے ٹیسٹ کرانے کا مشورہ ہے۔اگر اس سے بیماری میں افاقہ ہوجائے تو اور کیا چاہیے۔شہد میں گلوکوز نہ ہونے کی کچھ لوگوں کو خوش گمانی ہے اس کا خود تجربہ کریں۔اب بھی کئی دوست مشورہ دیتے ہیں تو عرض کرتا ہوں فاسٹنگ سو سے کم ہے مزید تجربوں کی کیا ضرورت ہے؟۔
ایک موقع پر میں انسولین کے بارے میں سوچ رہا تھا جیسے اس آرٹیکل کے پہلے حصے میں بتاچکا ہوں، ڈاکٹر نے میڈیسن سے انسولین پر آنے کو کہا تھا، میں کوئی معالج تو نہیں‘ تاہم شوگر اگر میڈیسن کے ساتھ 100 یا اس سے کم فاسٹنگ پر رہے تو انسولین کی ضرورت نہیں ۔ شوگر کا یہ لیول خوراک میں ردوبدل کرکے بغیر دوا کے بھی برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ آفس کی ٹائمنگ کے مطابق واک اور کھانے کی روٹین بنانا پڑتی ہے۔ناشتہ صبح نو ساڑھے نو بجے ،درمیانی آدھی روٹی ،ساتھ کوئی سا فروٹ، خربوزہ ،تربوز آڑو وغیرہ ۔دوپہرکو آدھی روٹی،سلاد جس میں بند گوبھی اور کھیرا زیادہ ہوتا ہے۔شام کوگھنٹہ سوا گھنٹہ واک، اس لئے صبح فروٹ کھا لینے سے مسئلہ نہیں ہوتا۔میری زیادہ توجہ فاسٹنگ پر ہے، لہٰذا شام کو کھانا برائے نام ہوتا ہے۔ روٹی سے بھی گریز،چائے صبح وشام سپیشل ہوتی ہے۔گزشتہ تین دن شوگر نوے سے 99 رہی ایک بار 85 تھی۔ شوگر چیک کرنا روز کی روٹین ہے جس سے موٹیویشن رہتی، میں کچھ تجربات بھی کرتا رہا،اب روز چیک کرنے کی ضرورت نہیں۔ 
 فروری کے بعد گھی، آئل وغیرہ سے مکمل پرہیز کیاہے۔ رمضان میں بھی سحری اور افطاری کے دوران ٹھنڈا تو کیا‘ سادہ پانی بھی نہیں پیا۔ صبح دو گلاس نیم گرم پانی پینا روٹین ہے۔ اب قطعاً یہ مشکل نہیں‘ عادت بن گئی۔ ہسپتال دو دن داخل رہنا پڑا‘ اس وقت وزن 90کلوتین ماہ میں 75 کلوپر آگیا جس سے نماز پڑھنے، چلنے پھر واک اور جوگنگ بڑی آسانی ہوگئی۔ وزن کو اسی طرح پر برقرار رکھنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ یہ میں نے اپنے تجربات قارئین کی معلومات کیلئے بیان کردئیے۔ اس سے استفادہ آپ اپنی صحت اور طبیعت کو مد نظر رکھتے ہوئے کرسکتے ہیں مگر معالج سے مشورہ ضروری ہے۔مجھے کوئی مشورہ دینا ہوتوای میل یا نوائے وقت لاہور کے نمبرز پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

متعلقہ خبریں