وقت میں مسافت

2018 ,ستمبر 14



لاہور(فضل حسین اعوان): ماضی کو سکرین پر منتقل کرنا ممکن ہو سکتا ہے، ماضی میں جھانکنا بھی مشکل نہیں۔ مستقبل میں جانا سرِدست ممکن نہیں البتہ روحانی اور وجدانی طور پر مستقبل سے آگاہی ضرور ممکن ہے۔ ٹائم ٹریول یعنی وقت میں مسافت یا وقت میں سفر ہماری سوچ و فکر کے سو در کھولتا ہے۔ ماضی کے حوالے سے یہ واقعہ عقل کو حیران کر دیتا ہے۔ اس واقعے نے جس نوجوان کے ساتھ پیش آیا اس کی زندگی میں تلاطم برپا کردیاتھا۔ ملاحظہ کیجئے:
” ماضی کے تجربے کی وجہ سے میری زندگی ایک طریقے سے تباہ ہو چکی تھی ۔ میںہمہ وقت اسی تجربے کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ شاید اُس وقت میری کہانی پر کوئی یقین نہ کرتا اس لیے میں نے فیصلہ کیاکہ آج اُس تجربے کو دنیا کے ساتھ شیئر کروں۔یہ تب کی بات ہے جب میں 14سال کا تھا۔ میرے بابا کو ایک اچھی نوکری مل گئی تھی جس کی تنخواہ پہلے سے زیادہ تھی۔ ایک ہفتے میں ہم نے اپنا پُرانا گھر بیچ دیا اور شہر میں ایک نئے فلیٹ میں شفٹ ہو گئے۔ جلد ہی میں نے نئے سکول میں داخلہ لے لیا۔ یہ میرے سکول کا پہلا دن تھا۔ میں اپنے اپارٹمنٹ بلڈنگ سے سکول کے لیے نکلاجو میرے فلیٹ سے زیادہ دور نہیں تھا۔ جیسے ہی میں سکول پہنچا میں نے ٹائم ٹیبل نوٹ کیا۔ اس میں دیکھا کہ میری پہلی کلاس میتھ کی ہے جو کمرہ نمبر104میں ہونی تھی۔میں نے سکول کے نقشے کو دیکھا۔ تین چار بار دیکھنے کے بعد بھی مجھے اپنا کلاس نمبر104نہیں مل رہا تھا۔سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا مجھے کہاں جانا چاہیے۔ میں نے نوٹس کیا کہ سکول کی بلڈنگ میں سیدھے ہاتھ کی طرف ایک سیکشن میں کلاس روم کی طرح کے کمرے تھے لیکن ان پر کوئی نمبر نہیں تھا۔دور کہیں اُلٹے ہاتھ جو کمرے تھے ان پر 300سے310تک نمبر تھے۔بلڈنگ کے درمیان جو سیکشن تھے وہ200سے230تک تھے تو میں نے سوچا کہ میرا کلاس روم ضرور سیدھے ہاتھ کی جانب ہی ہونا چاہیے۔زیادہ تر طالب علم نئے نہیں تھے وہ پہلے ہی اپنی کلاسوں میں بیٹھ چکے تھے ۔ میں بار بار نقشے کو دیکھتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ شاید مجھے نقشے کو نہیں دیکھنا چاہیے تھا بلکہ کسی بچے سے پوچھ لینا چاہیے تھا چونکہ میں شرمیلا تھا اس لیے اکیلے ہی چلنے لگا۔ جب میں کوریڈور کے اختتام پر پہنچا تو مجھے ایک پُرانا لکڑی کا ایک بڑا سا دروازہ نظرآیا جو بند تھا۔ میں نے اسے کھولنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں کھلا۔مجھے لگا شاید بلڈنگ کے اس حصے میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے پھر میں نے سوچا شاید انجانے میں کسی نے دروازے کو بند کر دیا ہو ۔میں نے اس بار زور سے دھکا مارا تو دروازہ کھل گیا۔ شاید میں نے دروازے کو کچھ زیادہ زور سے دھکامارا تھا جس سے اس کے اندر لگی ہوئیں زنگ آلود کیلیں نکل گئیں۔میں ڈر گیا کہ پہلے ہی دن میں نے ایک بند کئے ہوئے دروازے کو توڑ دیا۔ میں وہاں سے واپس ہونے ہی والا تھا، میں نے دیکھا کلاس روم کی کانچ کی کھڑکیوں پر نمبرز لکھے ہیںاور جس کمرے کے سب سے نزدیک میں تھا وہ کمرہ نمبر100تھا۔ میں نے جھجکتے ہوئے اپنا ٹائم ٹیبل پھر سے چیک کیا تو دیکھا میرا کمرہ نمبر104ہی ہے۔ میں نے آہستہ آہستہ اُس کوری ڈور میں چلنا شروع کیا،کمرہ نمبر101کو دیکھا جو خالی تھا۔102بھی خالی تھا بس اس کے اندر ایک ڈھانچہ تھا جو کلاس کے کونے میں لٹک رہا تھا۔ اتنا ہی مجھے ڈرانے کے لیے کافی تھا۔ جیسے ہی میں نے کمرہ نمبر103کو دیکھا جو خالی تھا، مجھے ایک آدمی کی آواز سنائی دی وہ سامنے سے آ رہا تھا۔ آخر میں کمرہ نمبر104تک پہنچا ۔ اس میں ایک ٹیچر پڑھا رہا تھا،تمام سٹوڈنٹ دھیان سے ٹیچر کی بات سن رہے تھے۔ 
 سٹوڈنٹ پُرانے طرز کی لکڑی کے بنچوں پر بیٹھے تھے ۔مجھے یہ دیکھ کر عجیب سا لگا۔ بچے اب ایسے کپڑے بھی نہیں پہنتے جیسے انہوں نے پہنے ہوئے تھے ۔ٹیچر بھی بوسیدہ سے بلیک بورڈ پرچاک سے کچھ لکھ رہا تھا ۔ میں نے دروازے پر دستک دی لیکن ٹیچر نے دھیان نہیں دیا ۔ میں نے آہستگی سے دروازہ کھولا، کسی طالب علم کا دھیان بھی میری طرف نہیں گیا۔سب ٹیچر کی باتوں کی طرف متوجہ تھے۔میں نے اپنے لیٹ آنے کی معافی مانگی۔ یہ کہتے ہوئے کہ میں گم ہو گیا تھا اس کے بعد ایک خالی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ مجھے لگا میں نے کلاس کو ڈسٹرب کر دیا ہے کچھ سیکنڈز بعد ٹیچر نے دوبارہ پڑھانا شروع کر دیا۔ ٹیچر کا نام مسٹرتلوری تھا۔اس کے بعد ٹیچر نے کچھ سوال بورڈ پر لکھے، طالب علموں کو انہیں حل کرنے کو کہا۔ وہ سوال کچھ عجیب سے تھے۔ سب سے عجیب بات کہ کسی کے پاس بھی کیلکولیٹر نہیں تھا۔جب میں جواب بتانے کے لیے ہاتھ اُٹھا رہا تھا تاکہ ٹیچر پر اچھا تاثر ڈال سکوں کیونکہ میں لیٹ آیا تھا تو ٹیچر مجھے نظر انداز کر کے دوسرے بچوں کوموقع دے رہا تھا۔اس کے بعد کلاس ختم ہو گئی ۔ مجھے لگا جیسے گھنٹوں بیت گئے ہوں۔اب مجھے گھر جانے کی جلدی تھی تاکہ میں شکایت کر سکوں کہ مجھے کس طرح سے کلاس میں نظر انداز کیا گیا ہے۔ 
جیسے ہی میں کلاس سے باہر نکلا مجھے بہت تیز بھوک لگی ۔ اپنی گھڑی پر دیکھا تو پتہ چلا سکول کی چھٹی ہو گئی ہے۔ ایک پورا دن صرف اور صرف میتھ کے لیے، یہ تھوڑا ڈراو¿نا تھا ۔ سکول سے نکل کر بوجھل قدموں سے آہستہ آہستہ فلیٹ کی طرف چلنے لگا۔ جو بھی دن بھرمیرے ساتھ ہوا دماغ میں گھوم رہا تھا، وہ سب کافی عجیب تھا ۔تاہم میں یہ سوچ رہا تھا، شاید یہ سکول نیا ہے اس لیے ایسا لگ رہا ہے۔ دھیرے دھیرے اس سب کی عادت ہو جائے گی۔
جیسے ہی میں گھر پہنچامیری امی کسی سے فون پر بات کر رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر تعجب تھا لیکن جیسے ہی انہوں نے مجھے دیکھا ان کے چہرے پر غصے کے اثرات نمودار ہونے لگے۔انہوں نے جو انکے ساتھ فون لائن پر تھا، اسے ہولڈ کرنے کو کہااور مجھ سے پوچھا میں سکول کیوں نہیں گیا۔ ان کے سوال پر میں نے انہیں بتایا کہ میں سارا دن کلاس میں ہی تھا۔ لیکن سکول والوں نے امی کو بتایا کہ میں نے کوئی کلاس نہیں لی۔یہاں تک کہ کسی نے مجھے ٹائم ٹیبل لکھنے کے بعد سے دیکھا ہی نہیں تھا۔ میں نے کہا، میں پورا دن مسٹرتلوری کی کلاس میں تھا یہ کلاس کمرہ نمبر104میں ہوئی۔ میری امی نے ساری باتیں فون پر سکول سٹاف کو بتائیں۔ وہ گھبرا سا گئی تھیں۔ انہوں نے فون رکھا اور مجھے بتانا شروع کیا کہ سکول سٹاف سے ان کی کیا بات ہوئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ مسٹر تلوری نے48 سال سے اس سکول میں کوئی کلاس نہیں لی۔کمرہ نمبر104بھی کئی دنوں سے بند ہے بلکہ بلڈنگ کا وہ حصہ بھی قریب40سال سے بند کیا جا چکا ہے ۔ سکول سٹاف کو لگا میں ان کے ساتھ کوئی سنگدلانہ مذاق کر رہا ہوں۔
یہ سب سننے کے بعد میں اس رات انٹر نیٹ پر یہ ڈھونڈنے لگا کہ جو بھی سکول سٹاف نے بتایا ہے کیاوہ سب سچ ہے؟۔مجھے کچھ ہی دیر میں نیوز پیپر کا ایک آرٹیکل ملا جس میں سکول میں ہوئے قاتلانہ حملے کا ذکر تھا۔ایک پاگل آدمی نے اپنی پستول سے پوری کلاس کو قتل کر دیا تھا اور اس نے یہ سب کلاس کا دروازہ بند کر کے کیا تھا۔ اس آرٹیکل کے ساتھ ایک پُرانی تصویر بھی دکھائی گئی تھی جہاں یہ حادثہ ہوا تھا۔ میں نے جیسے ہی تصویر کو غور سے دیکھا مجھے پتہ چل گیا،وہ کلاس اور کوئی نہیں تھی بلکہ کمرہ نمبر104ہی تھا ۔ اس آرٹیکل میں ایک اور تصویر بھی تھی جس میں وہ لوگ شامل تھے جنہیں قتل کیا گیا تھا ۔ میں نے اس تصویر کو دھیان سے دیکھا تو مجھے وہ تمام طالب علم اور مسٹر تلوری نظر آئے جن کے ساتھ میں نے کلاس لی تھی۔میںبہت ڈر گیا اور اس دن کے بعد میں وہاں کبھی نہیں گیا اور اپنا سکول بھی بدل لیا۔
میں اتنے سالوں بعد یہ واقعہ اس لئے شیئر کر رہا ہوں کیونکہ کل ہی مجھے ایک خط ملا، اس خط کے اوپر کوئی ایڈریس نہیں لکھا تھا وہ میرے لیٹربکس سے ہی ملا ۔ وہ کلاس ری یونین میٹنگ کا دعوت نامہ تھا جس پر ٹیچر کے طور پر جس کے دستخط تھے وہ کسی اور کے نہیںمسٹرتلوری کے تھے!
 یہ تعجب خیز ہے کہ کس طرح ایک نوجوان چالیس سال ماضی میں چلا گیا یا اس کے سامنے کس طرح چالیس سال قبل حادثے سے دوچار ہونے سے چند لمحات یا دن قبل کا منظر سامنے آ گیا۔ اس نوجوان کے اس طرح ماضی میں جانے کو ٹائم ٹریول کہا جاسکتا ہے، اسے وقت میں سفر اور وقت میں مسافت بھی کہتے ہیں۔ ماضی کی طرح ٹائم ٹریول مستقبل میں بھی پہنچا سکتا ہے۔ اس پر بہت سی فلمیں بھی بن چکی ہیں جو دین حنیف حقانیت پر مغرب کی طرف سے پیش کی گئی بہت بڑی دلیل ہے۔ آگے چلنے سے قبل یہ واقعہ بھی ملاحظہ فرمالیجئے۔
شُد قبیلے کے لوگ شدید سردی میں برف پوش پہاڑوں سے میدانی علاقوں کا رُخ کرتے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے ان لوگوں کی گزر بسر مال مویشیوں پر تھی۔ سردیوں میں چراگاہیں مویشیوں کے لیے کم پر جاتیں تومیدانی علاقے ان چرواہوں کے لیے آئیڈیل ہوتے۔ وہ عموماََ پنجاب اور راجستھان کا رُخ کرتے ان کو مقامی لوگ خندہ پشانی سے قبول نہیں کرتے تھے۔سکھ تو خصوصی طور پر ان کے لیے مخاصمت کے جذبات رکھتے تھے۔ شُد قبیلے کی کوشش ہوتی کہ ان کی مقامی لوگوں سے مڈبھیڑ نہ ہو۔ ایک مرتبہ سکھ اس مسلمان قبیلے کے پیچھے پڑ گئے تو ان کو خوشگوار موسم کی آمد سے قبل واپسی اختیار کرنا پڑی۔ شُد قبیلہ ڈرپوک ہرگز نہیں تھا ۔اس کی محاذ آرائی سے بچنے کی حتیٰ الوسع کوشش تھی۔وہ اپنے علاقے کی طرف چلتے جا رہے تھے اس دوران موسم بہتر ہونے لگا وہ اپنے علاقے کے قریب پہنچ گئے مگر سکھوں کے حملے کا بدستور خطرہ تھا۔ اس روز پڑاﺅ کے بعد وہ روانہ ہونے لگے تو ایک شخص موسیٰ کو وہیں رہنے کو کہا تاکہ اسے سکھوں کا حملہ آور دستہ نظر آئے تو وہ فوری طور پر اپنے قبیلے کو آگاہ کر دے۔ موسیٰ دن بھر علاقے کی نگرانی کرتا رہا۔ موسیٰ کہتا ہے کہ رات ہونے لگی تو مجھے جانوروں سے خطرہ محسوس ہوا، مجھے کسی بستی کی تلاش تھی مگر اجاڑ بیاباں میں کوئی آبادی نظر نہ آئی۔ اِدھر اُدھر پھرنے کی وجہ سے وہ کافی تھک گیا اور ایک جگہ بیٹھ گیا۔ اچانک اسے کچھ فاصلے پر قبریں نظر آئیں۔ موسیٰ کہتا ہے کہ میں ان قبروں کی طرف چلاگیا قبروں کی بناوٹ سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ مسلمانوں کی ہیں اوران پر کندہ عبارت سے پتہ چلا یہ سلطنتِ عثمانیہ کے ابتدائی دور کی ہیں۔ رات انہیں قبروں کے پاس گزارنے کا فیصلہ کیا۔ قبروںپر موسیٰ زور سے پکارنے لگا”اے پروردگار میری حفاظت کرنا“ اور قبروں کو مخاطب کر کے کہا ”میں تمہارا مہمان ہوں میری حفاظت کرنا“۔ یہ کہہ کر وہ سو گیا ۔ابھی آدھی رات ہی گزری ہو گی کہ اچانک کچھ لوگ آ کر موسی کو جگاکرکہنے لگے موسیٰ تو ہمارا مہمان ہے ، آ ہمارے ساتھ چل۔ موسیٰ کہتا ہے کہ وہ لوگ مجھے اپنے ساتھ لے گئے ۔ انہوں نے سفید لباس پہنا ہوا تھا۔ وہ لوگ آگے اور میں ان کے پیچھے چلنے لگا۔ چلتے چلتے ہم ایک جگہ پر پہنچے جہاں ایک لکڑی کا دروازہ تھا۔ اس دروازے کے کنارے سے روشنی بلبلوں کی صورت میں نکل رہی تھی۔ میں یہ دیکھ کر پریشان ساہو گیا اور باہر ہی رُک گیا لیکن ان لوگوں نے مجھے اپنے ساتھ اس دروازے کے اندر جانے کا کہا۔میں کچھ خوفزدہ سا اس دروازے میں داخل ہو گیا ۔ یہ چھوٹی سی سرنگ تھی ۔ ہم اس غار نما سرنگ سے باہر نکلے تو آگے کا نظارہ بالکل مختلف تھا۔
 وہ عجیب و غریب اور خوبصورت دنیا تھی۔ایسی دنیا کا نظارہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ لگ رہا تھا یہ انسانوں کی دنیا نہیں ہے۔ ان چند لوگوں کے علاوہ جو مجھے وہاں لائے تھے اور بھی لوگ موجود تھے۔ وہ مجھے ایسے گھور رہے تھے جیسے مجھے کہہ رہے ہوں کہ تم یہاں کیوں آئے ہو؟۔ ان میں سے ایک شخص جو میرے ساتھ آیا تھا پکار کر کہا کہ یہ ہمارا مہمان ہے اس لیے ہم اسے یہاں لائے ہیں۔ موسیٰ کہتا ہے کہ انہوں نے مجھے ایک جگہ لے جا کر بٹھا دیا اور کچھ پھل کھانے کو دیے۔ ان کا ذائقہ اتنا اچھا تھا، دنیا کے جتنے پھل بھی میں نے آج تک کھائے تھے ان میں سے کوئی ایک بھی اس جیسا نہ تھا۔ابھی پھل کھا ہی رہا تھا ، انہوں نے ایک اخروٹ کے چھلکے میں مجھے کھانا دیا اور کہا کہ جلدی سے کھانا کھا لو۔میں نے کہا اتنے چھوٹے سے اخروٹ میں کیسے کھانا کھاﺅں۔ انہوں نے کہا ، تم اس کے اندر ہاتھ ڈالو۔ جب میں نے اس میں ہاتھ ڈالا تو حیران رہ گیا پورا ہاتھ اس چھوٹے سے اخروٹ کے چھلکے میں چلا گیا۔ابھی میں نے کھانا کھانا شروع ہی کیا تھا، ان میں سے ایک زور سے پکارا کہ بہت دیر ہو گئی ہے اب موسیٰ کو جلدی سے واپس بھیج دو۔موسیٰ نے جب یہ سنا تو انہیں کہا میں دن بھر کا بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھانے دیجئے لیکن ان لوگوں نے میری ایک نہ سنی اور میرا ہاتھ پکڑ کر باہرجانے کا اشارہ کر دیا۔ جب میں نے دروازے کے باہر قدم رکھا تو میں حیران سا ہو گیا ۔باہر کا منظر ہی کچھ اور تھاکیونکہ جب میں اندر گیا تھا تب بہار کا موسم تھا اور گرمی آنے والی تھی لیکن جب میں باہر آیا تو ساری چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔
ٍ میں یہ دیکھ کر تھوڑا پریشان سا ہو گیا ، گرمیوں کے موسم میں برف باری کہاںسے آگئی ۔ میں جلدی سے اپنے علاقے کی طرف بڑھنے لگا۔ سارا راستہ میں بے چین رہا اور سردی سے کانپتا رہا کیونکہ میں نے جو لباس پہنا ہوا تھا وہ سردی روکنے میں ناکام ہو رہا تھا ۔ موسیٰ 15دن کا سفر کر کے گاﺅں پہنچا تو گاﺅں کے لوگ وہاں سے گرم علاقوں کو جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ موسی کو دیکھ کر سب لوگ حیران ہو گئے اور پوچھنے لگے کہ تم کیسے زندہ ہو ؟ ۔ دس سال کہاں تھے؟۔جب موسیٰ نے یہ سنا تو وہ حیرت میں ڈوب گیا کیونکہ موسیٰ اپنے قبیلے کے لوگوں سے صرف ایک دن الگ رہاتھا پھر یہ ایک دن دس سال کیسے بن گئے۔اس عرصے میں موسیٰ کا ایک بیٹا بھی پیدا ہوا تھا۔ موسیٰ نے یاد کرنے کی کوشش کی تو اس نے ان پر اسرار لوگوں کے ساتھ مشکل سے10منٹ گزارے تھے اور یہ 10منٹ دنیاکے 10سال بن گئے تھے۔شد قبیلے کے لوگ کہتے ہیں، موسیٰ اس وقت بہت ڈر گیا تھا۔وہ جب ہم سے بچھڑا تھا تو ہمیں لگا وہ سکھوں کے ہاتھوں مارا گیا لیکن جیسا اسے ہم نے دس سال پہلے چھوڑا تھا وہ ویسا ہی واپس آیا تھا۔ یہ ہم لوگوں کے لیے بہت حیرت انگیزتھا۔ اس کے بعد موسیٰ قبیلے سے دور ایک گاﺅں کی مسجد میں جا کرمقیم ہو گیا ۔ وہ کسی سے بات نہیں کرتا تھا اور نہ کچھ کھاتا پیتا تھا ۔ اس نے اپنی باقی زندگی مسجد میں گزاری اور وہیں موت سے جا ملا ۔ وہ دس منٹ دنیا کے دس سال کیسے بن گئے؟ بقیہ زندگی اسی جستجو میں رہا۔ وہ مسجد سے باہر ہی نہ آتا تھا اس نے اپنی ساری زندگی رب کے لیے وقف کر دی ۔ کچھ عرصے بعد قبائل کے لوگ ان قبروں کا سراغ لگانے نکلے لیکن انہیں وہاں ایسی قبریں نہیں ملیں جیسی موسیٰ نے بتائی تھیں ۔کہا جاتا ہے کہ بعد میں یہ قبیلہ ازبکستان چلا گیا اور وہیںآباد ہوگیا۔
موسیٰ کا یوں دوسری دنیا کو دیکھنا ٹائم ٹریول تھا یا کچھ اوریہ بھی ایک سوال ہے۔ٹائم ٹریول کے حوالے سے مزیدپراسرار واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن کی کوئی عقلی توجیح و توضیح نہیں ہو سکتی۔ زانیتی نامی ٹرین 106 مسافروں کو لے کر روم سے ایک قریبی پہاڑی مقام کے لیے روانہ ہوئی۔
سفر سے قبل اِس میں موجود مسافر نہیں جانتے تھے کہ ہم ایک ایسے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ۔ ایک ایسا سفر جس کی کوئی منزل نہیں ، دوران سفر یہ ٹرین 1 کلومیٹر لمبی سرنگ میں داخل ہوئی اور پِھر دوبارہ باہر نہ نکل سکی۔ ابتدا میں خیال کیا گیا ، شاید سرنگ کے اندر اسے کوئی حادثہ پیش آگیا ہو۔. جس پر روم کی پولیس اور ریلوے حکام جائے حادثہ پہنچے۔ مشاہدہ کی غرض سے سرنگ کے اندر داخل ہو کر سکتے میں آگئے۔وہاں اِس ٹرین یا اِس کی باقیات کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ ہر آدمی خوفزدہ اور حیران تھا ، یہ کیسے ممکن ہے ایک سرنگ بغیر کوئی نشان چھوڑے پوری ٹرین کو ہی نگل گئی۔ حقائق جاننے کے لیے وسیع پیمانے پر جب تفتیش کا آغاز کیا گیا تو ریلوے انتظامیہ کے پاس دو ایسے آدمی آئے جنہوں نے خود کو اِس ٹرین کے مسافر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہاکہ سرنگ میں داخلے سے قبل ہم نے سرنگ کی داہنی سائڈ پر ایک تیز روشنی دیکھی۔ ہمیں محسوس ہوا کہ شایدکوئی حادثہ ہونے والا ہے سو ہم نے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا دی۔ اِس بیان نے انتظامیہ اور پبلک کو مزید حیران کر دیا۔ جس کے بعد رومن انتظامیہ نے کسی مصلحت کے تحت سرنگ کو دونوں اطراف سے بند کر دیا۔پِھر ایک طویل عرصہ کے بعد 1926 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ نے د±نیا کو ششدر کرکے رکھ دیا۔
اس رپورٹ کے مطابق 1845 میں 104 ایسے آدمی پائے گئے جو بظاہر غیر حاضر دماغی کے مرض کا شکار تھے ،وہ نہیں جانتے تھے ، کون ہیں ؟ کہاں سے آئے ہیں؟ دَر حقیقت ان کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا ہے لیکن ان سب کا ایک ہی بیان تھا جو انہوں نے اٹالین زبان میں دیا،” زانیتی ٹرین کے مسافر ہیں “1911 میں پیش آنے والے حادثے کو 1845 یعنی 66 سال قبل اسی تعداد کے حامل 104 مسافروں کا عین حادثہ کے مطابق بیان ایک حیران کن امر تھا ۔ کیا یہ کوئی متوازی د±نیا تھی جس میں اِس واقعہ کا عکس قبل از وقت ظاہر ہو گیا تھا یا یہ کوئی ٹائم ٹریولر کا شاخسانہ تھا ۔ٹائم ٹریول کے ذریعے ماضی یا مستقبل میں جانے کی باتیں ہوتی ہیں یہ تعجب خبر ٹائم ٹریول سے جس میں ماضی اور مستقبل پیہم ہیں۔ ٹرین سے مسافر حقیقی حادثہ رونما ہونے سے 66 سال پیچھے چلے گئے تھے ۔ یہاں اِس بات نے اس وقت د±نیا کو اور بھی زیادہ حیران کر دیا جب یہ حقیقت سامنے آئی روم سے میکسیکو کا فاصلہ 10 ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے جب کہ ان دونوں ریاستوں کے درمیان کئی بڑے سمندر حائل ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا یہ ممکن ہے ایک ٹرین بغیر کسی پٹڑی کے پانی پر چلتی ہوئی اتنا طویل سفر طے کر سکے ۔اِس وقت کی حکومت اور لوگوں نے کوئی واضح دستاویزی ثبوت نہ ہونے کی بنا پر ان 104 افراد کو ذہنی مریض سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیا تاہم اِس کے باوجود 1845 میں میکسیکو انتظامیہ نے اِس واقعہ کی تفتیش کرتے ہوئے روم سے بھی اِس نوع کے حادثے کی تفصیل طلب کی لیکن چونکہ اِس وقت تک ایسا کوئی حادثہ رونماء ہی نہیں ہوا تھا سو اِس کیس کو بے بنیاد سمجھتے ہوئے بند کرکے ان 104 افراد کو پاگل خانے منتقل کر دیا گیا ۔اس واقعہ کا ایک انتہائی دلچسپ اور طاقتور پہلو موجودہے ۔ جو لوگوں کے ذہن سے آج تک نہیں نکل سکا۔ ان 104 مسافروں میں سے ایک سے سگریٹ باکس برآمد ہوا جس پر نہ صرف ڈن ہل کمپنی کا مونو گرم تھا بلکہ اِس پر 1907 عیسوی کا سال بھی درج تھا۔
ڈن ہل لانچ بھی 1907ءمیں ہوا تھا۔ 1907ءمیں بننے والے سگریٹ کا باکس 1845 میں ایک مسافر سے بر آمد ہوا آج بھی انتظامیہ کے پاس ہے۔ ٹائم ٹریول کو یوں آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کہیں ٹائم کی سپیڈ انتہائی تیز اور کہیں اتنی کم ہو جاتی ہے جسے وقت کے رُک جانے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ نبی کریم معراج پر تشریف لے گئے تو اِس دنیا کا وقت انتہائی تیز جبکہ صاحب معراج کے لئے وقت سست ترین ہو کر طویل عرصہ پر محیط ہو گیا۔ 

 

متعلقہ خبریں