2018 ,جولائی 15
قیام پاکتان
لاہور (سید اسامہ اقبال) قرارداد پاکستان مسلم لیگ نے 23 مارچ 1940ء کے اجلاس لاہور میں منظور کی تھی۔ اس وقت سے اسلامی سیاست کا رخ بدلا اور مسلمانوں نے ملی جلی حکومت بنانے کا خیال ترک کرکے اپنی الگ مستقل حکومت کے لیے جدوجہد شروع کی۔14اگست 1947ء کو انگریزی حکومت کا دور ختم ہو گیا اور متحدہ ہندوستان کی جگہ دو آزاد حکومتیں وجود میں آگئیں۔ ایک پاکستان، دوسری ہندوستان، حد بندی کے کمیشن نے 17 اگست کو اپنا فیصلہ سنایا اور کم از کم ایسی سات تحصیلیں ہندوستان کے حوالے کردیں جن میں مسلمانوں کی تعداد سب قوموں سے زیادہ تھی اور ان کی حدیں مغربی پاکستان سے ملی ہوئی تھیں۔ اس غلط فیصلے اور بعض مفسد گروہوں کی فتنہ انگیزی سے قتل و غارت کا ایک ایسا افسوس ناک دور شروع ہوگیا جس نے آزادی کی شادمانیوں کو آنسوئوں اور آہوں میں تبدیل کردیا۔ ل
اکھوں انسانوں کو ان کے آبائی وطن سے اٹھا کر پاکستان کی طرف دھکیل دیا گیا۔ تاکہ اس نئی حکومت کی مشکلات زیادہ سے زیادہ بڑھ جائیں، اس غم نے قائد اعظم کی صحت برباد کردی۔ تاہم جو قدم اٹھ چکا تھا، اس کا پیچھے ہٹنا غیر ممکن تھا۔ قائد اعظم کی ہمت اور عام پاکستانیوں کے صبر و استقامت سے تمام مشکلوں پر قابو پالیا گیا اور وہ جمہوری ریاست ایک روشن حقیقت بن گئی جو اس دنیا کی سب سے بڑی اسلامی حکومت ہے۔
میسور کی لڑائی
ٹیپو سلطان(1163-1213ھ -1752-1799ء) کے والد حیدر علی نے بارھویں صدی ہجری کے اواخر اٹھارھویں صدی عیسوی کے اوائل میں جنوبی ہند میں ایک بڑی سلطنت قائم کرلی تھی، جن کا صدرمقام سرنگاپٹم تھا اور سلطنت میسور کے نام سے مشہور تھی۔ حیدر علی پہلا شخص تھا جس نے بھانپ لیا تھا کہ جو فرنگی، تاجروں کے بھیس میں ہندوستان آئے ہیں اور انہوں نے ملکی معاملات میں دخل دینا شروع کردیا ہے، اگر انہیں قدم جمالینے کا پورا موقع مل گیا تو پورے ملک کے لیے ایک خطرناک خطرہ بن جائیں گے۔ حیدر علی فرنگیوں کے خطر کو مٹادینے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ وہ لڑرہا تھا کہ خدا کی طرف سے بلاوا آگیا اور وہ اپنے جگر بند کے لیے دو ورثے چھوڑ کر رخصت ہوگیا۔ ایک تاج و تخت اور دوسرا فرنگیوں کے خطرے کا انسداد۔ ٹیپو سلطان نے دونوں ورثے جواں مردی سے سنبھالے۔ تاج و تخت کی حفاظت اور فرنگیوں کی شکست وریخت میں کوشش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ یہاں تک کہ اپنی قیمتی جان بھی اس بازی میں لگادی۔فرنگیوں سے اسے دو زبردست لڑائیں پیش آئیں۔ اگر انہیں مرہٹوں اور نظام کی امداد نہ ملتی تو سلطان یقیناً ان کے اقتدار کا کاتا روپود بکھیر کر رکھ دیتا، لیکن دونوں مرتبہ مرہٹوں اور نظام نے نہ صرف سلطان سے، بلکہ ملک کے بہترین مقاصد سے غداری کی۔ آخری لڑائی میں فرنگیوں، مرہٹوں اور نظام نے سلطان کے مرکز حکومت کا محاصرہ کرلیا۔ 4 مئی 1799ء کو شیر دل مجاہد نے میسور کی سلطنت اور ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑتے ہوئے شہادت پائی۔ مرہٹوں اور نظام نے جن فرنگیوں کو مدد دے کر ٹیپو سلطان کو شہید کرایا تھا،انہیں کے ہاتھوںوہ خود بھی برباد ہوئے اور قدرت نے بدلے کا جو قانون مقرر کررکھا ہے وہ پورا ہوکر رہا۔
فتح مکہ
صلح حدیبیہ کو تقریباً دو سال گزر چکے تھے، اس کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو قبیلے چاہیں مسلمانوں کے ساتھ مل جائیں اور جو چاہیں قریش کے ساتھی بن جائیں، انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو صلح کرنے والے فریقوں کو حاصل ہیں۔مکہ معظمہ کے پاس دو قبیلے آباد تھے جن میں باہم لڑائی تھی۔ ان میں سے ایک مسلمانوں سے مل گیا اور دوسرا قریش کا ساتھی بن گیا۔ اچانک قریش کے ساتھی قبیلے نے مسلمانوں کے ساتھی قبیلے پر حملہ کردیا۔ قریش نے بھی اپنے ساتھیوں کو مدد دی، اور مسلمانوں کے ساتھیوں پر سخت ظلم کیا، یہاں تک کہ حرم میں بھی انہیں امان نہ ملی، جہاں کسی پر انگلی تک نہ اٹھائی جاسکتی تھی۔ یہ دردناک خبر مدینہ منور پہنچی تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے سامنے فیصلے کی تین صورتیں پیش کیں:
مظلوموں کا جو جانی اور مالی نقصان ہوا ہے اس کی تلافی کردی جائے۔
قریش اپنے ساتھی قبیلے کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں۔
یہ اعلان کردیا جائے کہ حدیبیہ کا صلح نامہ باق نہیں رہا۔
ایک جلد باز نے کہہ دیا کہ ہمیں تیسری شرط منظور ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ شریف کی تیاری شروع کردی۔ اب دس ہزار جانباز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ مکہ شریف سے چند میل کے فاصلے پر پڑائو ڈالا گیا۔ دس ہزار آدمی دور تک پھیل گئے اور رات کو الگ الگ آگ روشن کی تو دیکھنے والوں نے یہ سمجھا کہ فوج کوہ و وادی پر چھائی ہوئی ہے۔
قریش کو جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور ان کے ایک سردار ابو سفیان نے دربار نبوی میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا اور اپنی قوم کے لیے امان چاہی، دوسرے روز آپ نے اعلان فرمادیا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے یا اپنے گھر میں بیٹھا رہے یا کعبے میں چلا جائے یا ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے، اسے کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ اس طرح مکہ شریف بغیر جنگ اور خونریزی کے فتح ہوگیا۔
آپ نے اہل مکہ کو جمع کیا۔ ان میں وہ سب لوگ شامل تھے، جن کی تلواریں اور برچھیاں اکیس سال تک مسلمانوں پر برستی رہی تھیں۔
اس موقع پر آپ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ کسی فاتح کی زبان سے نہ پہلے سنا گیا اور نہ بعد میں۔
صلح حدیبیہ
جنگ بدر ہجرت کے دوسرے سال ہوئی تھی۔ ہجرت کے چھٹے سال ذوالقعدہ کے مہینے میں (مارچ 628) حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے کی زیارت کا ارادہ فرمایا، چودہ سو حق پرست آپ کے ہمرکاب تھے۔ اس مہینے میں عربوں کے قدیم دستور کے مطابق سب کو مکہ شریف جانے کی عام اجازت ہوتی تھی اور لڑائیاں بالکل بند کردی جاتی تھی۔ مگر قریش مسلمانوں کی آمد کو برداشت نہ کرسکے اور مقابلے کے لیے تیار ہوگئے۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ شریف سے تھوڑے فاصلے پر حدیبیہ کے مقام پر ڈیرے ڈال دئیے اور کوشش کی کہ صلح سے معاملہ طے ہوجائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بات چیت کے لیے قریش کے پاس بھیجا۔ تھوڑی دیر میں افواہ پھیل گئی کہ قریش نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا ہے۔ یہ گویا جنگ کا اعلانتھا۔ چنانچہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر چودہ سو ساتھیوں سے بیعت لی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ افواہ غلط تھی۔قریش کو مسلمانوں کے ارادہ جنگ کی خبر ملی تو ان پر گھبراہٹ طاری ہوگئی اور انہوں نے صلح کی بات چیت شروع کردی۔ غرض دس سال کے لیے صلح ہوگئی۔ جو شرطیں طے ہوئیں ان میں بظاہر مسلمانوں کا پہلو دبا ہوا تھا۔ مثلاً یہ کہ وہ اس سال واپس چلے جائیں اور اگلے سال آئیں تو کعبے کی زیارت کا موقع دے دیا جائے گا۔ ہتھیار لگا کر نہ آئیں اور تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں۔ مکے سے کوئی شخص پناہ کی غرض سے مدینہ جائے گا تو وہ واپس بھیج دیا جائے گا۔ لیکن کوئی شخص پناہ کی غرض سے مدینے سے مکے آئے گا تو وہ واپس نہ کیا جائے گا۔اس شرطوں پر بعض صحابہ رضی اللہ عنہ کو تعجب ہوا لیکن حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرائط منظور فرمالیں۔ قرآن مجید نے اس صلح کو کھلی ہوئی فتح قرار دیا اور مسلمانوں کو ایک اور قریبی فتح کی خوشخبری دے دی۔
معرکہ بدر
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت شروع کی اور لوگ اندھیرے سے روشنی کی طرف آنے لگے تو قریش نے جنہیں مکہ ہی میں نہیں، پورے عرب میں سرداری اور عزت کا مرتبہ حاصل تھا اس پیغام حق کی مخالفت شروع کردی، وہ زور و قوت سے کام لے کر غریب و مسکین مسلمانوں کو ظلم و جور کا نشانہ بنانے لگے۔ کسی کو دوپہر کی تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر اس کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتے، کسی کے گلے میں رسا باندھ کر بازاروںمیں کھینچتے۔ کسی کو دہکتے ہوئے انگاروں کے فرش پر لیٹ جانے کے لیے مجبور کرتے۔ تیرہ سال تک مسلمانوں نے ہر قسم کی سختیاں صبر کے ساتھ برداشت کرلیں مگر قریش کے طور طریقے میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ خود حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندار کو تین سال تک ایک گھاٹی میں بند رہنا پڑا۔ طائف میں آپ پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ مجبور ہو کر آپ نے ساتھیوں کو مکہ سے مدینہ جانے کی اجازت دے دی۔ جہاں کے باشندے مسلمانوں کی مہمانداری کے لیے تیار تھے، بعد میں آپ بھی وہیں تشیرف لے گئے۔بدر کے مقام پر مسلمانوں اور قریش کے درمیان ایک زبردست لڑائی ہوئی جسے قرآن مجید میں فیصلے کا دن کہا گیا ہے، اس لیے کہ اس دن حق اور باطل، نیکی اور بدی، راستی اور گمراہی، سچی اور جھوٹ کے درمیان قطعی فیصلہ ہوگیا، مسلمان تین سو سے کچھ زیادہ تھے اور قریش ایک ہزار سے کم نہ تھے۔
پھر مسلمانوں کے پاس جنگ کا ساز و سامان بھی بہت کم تھا۔ ادھر قریش کے پاس نہ دولت کی کمی تھی نہ ساز و سامان کی۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مسلمان لڑنا نہیں چاہتے تھے اور انہوں نے لڑائی کے لیے پہل ہرگز نہ کی تھی، البتہ قریش کی دراز دستیوں کا جواب دینے کے لیے ضرور تیار ہوئے۔بدر کی جنگ بھی اس وجہ سے ہوئی کہ قریش نے تجارت میں گراں قدر رقم فراہم کرکے مسلمانوں کے خلاف جنگی تیاریوں کا فیصلہ کرلیا تھا،چنانچہ انہوں نے بہت بڑا تجارت قافلہ شام بھجا۔ مسلمانوں کو اس پر چھاپہ مارنے میں بالکل حق بجانب تھے۔ ابھی دیکھ بھال ہی جاری تھی کہ قافلہ قریش کے سردار نے قاصد کے ذریعے مکہ پیغام بھیج دیا اور قریش کو بلالیا، وہ خوب تیار ہو کر بڑے کروفر کے ساتھ دو سو میل کا فاصلہ طے کرکے بدر پہنچ گئے۔ اگرچہ اس وقت تک قافلہ بچ کر بدر سے آگے نکل گیا تھا اور حملے کا کوئی خطرہ باقی نہ رہا تھا مگر قریش نے فیصلہ کرلیا کہ لڑے بغیر نہ جائیں گے۔ اس طرح جنگ ہوئی تو قریش نے شکست فاش کھائی اور ان کے بڑے بڑے سرداری مارے گئے یا قید ہوگئے۔
بدر کا یہ موقع جو اپنے نتائج کے اعتبار سے بڑی سے بڑی جنگ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے بروز جمعہ، 17 رمضان، 2 ہجری مطابق مارچ 624ء پیش آیا۔
خشکی پر جہاز
مشرقی رومی سلطنت کا مرکز قسطنطنیہ اپنے محل وقوع کے لحاظ سے اتنا مستحکم تھا کہ اسے فتح کرنا ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ سلطان محمد عثمانی نے 1453ء میں اسے مسخر کیا اور فاتح کا پر فخر لقب اس کے نام کا جزو بن گیا۔ مسلمان اس سے پیشتر کم و بیش دس مرتبہ زبردست حملے کرچے تھے۔ وہ شہر کی دیواروں تک بھی پہنچتے رہے اور اپنی مرضی کے مطابق شرطیں بھی منواتے رہے ، لیکن شہر ان کے قبضے میں نہ آیا۔
قسطنطنیہ کے جنوب میں بحیرہ مارمورا واقع ہے، پھر آبنائے باسفورس سے پانی کی ایک شاخ نکل کر چار میل اندر چلی گئی ہے جسے شاخ زریں کہتے ہیں۔ اس طرح قدرت نے اس کی تین طرفوں میں حفاظت کے ایسے انتظامات کردئیے تھے کہ انہیں توڑنا آسان نہ تھا۔ خشکی کی طرف سے حملہ ہوسکتا تھا، لیکن ادھر یکے بعد دیگرے تین فصیلیں کھڑی کردی گئی تھیں، زبردست بیڑے کے ساتھ حملہ ممکن تھا، مگر اہل قسطنطنیہ نے شاخ زریں کے دہانے پر مضبوط فولادی زنجیریں اس ترکیب سے باندھ دی تھیں کہ کوئی اجنبی جہاز ان سے گزر کر اندر نہ جاسکتا تھا۔سلطان محمد فاتح پچاس ہزار سوار، بیس ہزار پیادے اور بھاری توپیں لے کر 6 اپریل 1453ء کو قسطنطنیہ کے سامنے پہنچ گیا اور شہر پر گولہ باری شروع کردی۔ فصیلوں کو توڑنے کے جتنے طریقے اس زمانے میں رائج تھے۔ وہ سب استعمال کیے، لیکن کامیابی کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی۔ اس کے پاس بیڑا تھا جسے باسفورس کی سمت سے شاخ زریں میں پہنچانے کا کوئی بندوبست ہوسکتا اور شہر پر دو طرف سے حملہ ہوجاتا تو فتح کی امید تھی۔ خصوصا اس لیے کہ شاخ زریں کی طرف فصیل نہ زیادہ اونچی تھی اور نہ خندق مضبوط تھی، لیکن شاخ زریں کے دہانے سے گزرنے کی کوئی تدبیر نہ سوجھتی تھی۔
سوچتے سوچتے ایک عجیب تجویز اس کے ذہن میں آئی، اس نے باسفورس سے شاخ زریں تک ایک خندق کھدوائی اور اس میں لکڑی کے صاف تختے بھچوا کر ان پر خوب چربی لگوادی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ چکنے ہوجائیں پھر اپنے اسی جہاز باسفورس سے خشکی پر چڑھالیے اور چکنے تختوں پر سے دھکیلتے ہوئے انہیں شاخ زریں کے اندر پہنچادیا۔ ان جہازوں پر سپاہی بٹھادئیے گئے اور توپیں بھی نصب کردی گئیں۔ اچانک یہ بیڑا خشکی میں سے گزرتا ہوا شاخ زریں کے اندر پہنچ گیا۔ اور لوگوں کا مینہ برسنے لگا تو اہل شہر ہمت ہار بیٹھے۔ وہ بچائو کے لیے شاخ زریں کی طرف پلٹے تو خشکی کی جانب سے سلطانی سپاہ نے فصیلیں توڑ کر اندر داخل ہونے کا راستہ صاف کرلیا۔
یہ واقعہ مختلف وجوہ سے بے حد اہم ہے۔
قسطنطنیہ مسیحیت کی جگہ اسلام کا مایہ ناز مرکز بن گیا اور پانچ سو سال تک اسے خلافت کی تخت گاہ ہونے کا شرف حاصل رہا، ایشیا اور افریقا مدت دراز کے لیے یورپ کے خطرے سے محفوظ ہوگئے، مشرق قریب میں جنگی نقطہ نگاہ سے جتنے مقامات اہم تھے، وہ سب مسلمانوں کے قبضے میں آگئے، قسطنطنیہ اس سلسلے کا آخری مقام تھا۔ بحیرہ اسود، آبنائے، باسفورس، مارمورا، درہ دانیال، بحیرہ روم اور بحیرہ قلزم سب مسلمانوں کے زیر اقتدار آگئے۔
مغلیہ سلطنت کا قیام
ہندوستان میں مغلوں کی سلطنت دنیا کی چند بڑی بادشاہیوں میں گنی جاتی ہے۔
بابر نے پانی پت کی جنگ میں جو اپریل 1526ء میں ہوئی، دہلی اور آگرے پر قبضہ کرلیا تھا،
راجپوتوں کا سردار راناسانگا تھا، جو ہندوسان پر چھا جانے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ اس کے پاس فوج اتنی زیادہ تھی کہ بابر کے لیے اس سے عہد برآ ہونا بہ ظاہر مشکل نظر آتا تھا، بلکہ شکست کی حالت میں راجپوتا نے سے کابل تک زندہ جانا بھی ممکن نہ تھا۔راناسانگا نے بہت جلد سوا لاکھ راجپوتوں کو لڑنے مرنے کے لیے تیار کرلیا اور وہ آگرے کی جانب بڑھا۔ بابر کے ساتھ صرف تیرہ ہزار سپاہی تھے۔ آگرے سے بتیس میل پر سیکری کے قریب مارچ 1527ء میں جنگ ہوئی۔لڑائی شروع ہوئی تو بابر کے ساتھی اس ہمت و جواں مردی سے لڑے کہ دوپہر تک غنیم کے قدم اکھڑنے لگے۔راجپوتوں کو پھر سر اٹھانے کا حوصلہ نہ ہوا۔ ہندوستان میں مغلوں کی سلطنت مستحکم ہوگئی۔ اکبر کے عہد سے سلطنت کے پھیلنے کا آغاز ہوا یہاں تک کہ وہ سائبان کی طرح پورے ہندوستان پر چھا گئی۔
مشرق اور مغرب کی کشمکش
سلطان اور خاں(1326-1359ء) کے زمانے میں عثمانی ترک یورپ پہنچ گئے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہے۔ اہل یورپ نے دو تین مرتبہ بڑی فوج جمع کرکے مقابلہ کیا۔ پہلا زبردست معرکہ معرکہ سلطان مراد اول کے ساتھ کسوا کے میدان میں پیش آیا۔ یورپ والوں نے شکست فاش کھائی۔ اس کے بعد دس سال اطمینان سے گزر گئے۔ سلطان بایزید یلدرم کے زمانے میں یورپ کے اندر پھر جوش و خروش کی لہر اٹھی۔ انگلستان، فرانس، جرمنی، پولینڈ، آسٹریا، ہنگری اور بلقانی علاقوں کے بڑے بڑے رئیسوں، بہادروں اور شہزادوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سب مل کر ترکوں کو یورپ سے باہر نکال دیں گے۔ چنانچہ شاہ ہنری کی سرکردگی میں ایک بہت بڑی فوج تیار ہوگئی۔بایزید کو اہل یورپ کے بھائی جتھے کی اطلاع ملی تو بجلی کی طرح تڑپ اٹھا اور طوفان کی تیزی سے اپنے یورپی دارالحکومت ایڈریانوپل پہنچ گیا۔ اس اثناء میں نکوپولس کے ترک حاکم نے اہل یورپ کا زبردست مقابلہ کرکے بایزید کے لیے فوج تیار کرلینے کی مہلت مہیا کردی۔ اس نے کچھ فوج آگے بھیج دی اور خود پیچھے پیچھے روانہ ہوا۔ 25ستمبر 1396ء کو نکوپولس سے چار میل جنوب میں لڑائی ہوئی۔ جیسا کہ شاہ ہنگری کا خیال تھا، یورپی بہادر اپنا سارا جوش بے قاعدہ ترک دستوں کے مقابلے میں صرف کرچکے تھے، بے قاعدہ دستے مقررہ منصوبے کے مطابق ادھر ادھر بکھر گئے تو یورپی جیش آگے بڑھے۔ سامنے سلطان باقاعدہ فوج کی صف بندی کے لیے کھڑا تھا، ادھر سلطان سے لڑائی شروع ہوئی، ادھر بے قاعدہ دستوں نے از سر نو جمع ہو کر اہل یورپ کے عقب سے حملہ کردیا۔ اس طرح چکی کے دو پاٹوں میں بڑے بڑے دلیر اور جواں مرد چنوں کی طرح پس گئے۔ ہزاروں کھیت رہے باقی گرفتار ہوگئے جن میں پچیس کے قریب شہزادے تھے۔ان لوگوں میں سے کوئی بایزید کے مقابلے پر پھر نہ آیا۔ نکوپولس کی لڑائی اس وجہ سے حد درجہ اہم ہے کہ اگرچہ اس کے بعد سلطنت عثمانیہ پچاس سال تک مصیبتوں میں پھنسی رہی لیکن اہل یورپ کو اس اثنا میں ترکوں سے جنگ کی ہمت نہ ہوئی۔
تاتاریوں کو شکست
تیرھویں صدی عیسوی ایشیا کے بڑے حصے کے لیے عموماً اور مسلمانوں کے لیے خصوصاً بڑی ہی مصیبتوں اور آزمائشوں کا زمانہ تھا۔ اسی صدی میں تاتاریوں کا سیل منگولیا کے سنسان صحرائی علاقے سے نکلا، جس نے چنگیز خاں کی سرکردگی میں ان تمام خطوں پر قتل و غارت کی بجلیاں گرادیں،جنہیں آج چینی ترکسان، روسی ترکستان،افغانستان، ایران، عراق، جنوبی اور مشرقی ایشیائے کو چک اور شام کہتے ہیں۔ مسلمانوں نے سات صدیوں میں علم و فضل اور تہذیب و تمدن کے جو بڑے بڑے مرکز بنائے تھے۔ وہ بہت سے انہیں علاقوں میں واقع تھے۔ ان کی اینٹ سے اینٹ بج گئی، کتب خانے تباہ ہوگئے، دولت لٹ گئی،باشندے موت کے گھاٹ اتارے گئے، تاتاری بحرالکاہل کے قریب سے اٹھے اور موت و ہلاکت پھیلاتے ہوئے بحیرہ روم کے کناروں تک پہنچ گئے۔ کوئی بھی اس تیز و تند سیل کو روک نہ سکا۔ شام کو پامال کرچکنے کے بعد اس سیل کا رخ مصر کی طرف پھر گیا۔ صاف معلوم ہورہا تھا کہ اب یہ سیل شمالی افریقا میں سے ہوتا ہوا شاید اوقیانوس کے کناروں تک جا پہنچے گا۔مصر کی حالت بھی اچھی نہ تھی۔ ایوبیوں کی فرمانروائی ختم ہوچکی تھی اور وہ جنگجو سردار برسراقتدار ہوگئے تھے، جنہیں بحر مملوک کہتے ہیں۔ ان میں تفرقہ پڑا ہوا تھا اور ان کے پاس اتنی فوج بھی نہ تھی جو تاتاریوں کے مقابلے پر آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی۔ لیکن جب قدرت کو کوئی کام لینا منظور ہوتا ہے تو اس کے لیے موزوں آدمی پیدا کردیتی ہے۔ انہی دنوں بحری مملوکوں میں سے سیف الدین قطر نے "الملک المظفر" کا لقب اختیار کرکے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔
چنگیز کے پوتے ہلاکو نے قطر کو پیغام بھیجا کہ فوراً اطاعت اختیار کرلو، ورنہ پچھتائو گے۔ آنسو بہانے والوں پر ہم نے کبھی رحم نہیں کیا۔ آہ و فریاد سے ہمارے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ تم بھاگ کر جہاں جائو گے ہم تمہارے پیچھے پہنچیں گے اور کوئی سرزمین تمہیں پناہ نہ دے سکے گی۔قطر نے فیصلہ کرلیا کہ وہ تاتاریوں سے لڑے گا، خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو۔ چنانچہ اس نے پیغام لانے والوں کو قتل کرادیا، تاکہ صلح کا سوال ہی باقی نہ رہے۔ پھر جتنی فوج فراہم کرسکا، اسے لے کر شام کی طرف روانہ ہوگیا، تاکہ دشمنوں کو اپنی مملکت سے باہر روکے، اس کا غلام رکن الدین بیبرس ہراول کا کماندار تھا۔ شمالی فلسطین میں عین جالوت کے مقام پر 6 سمتبر 126ء کو فیصلہ کن لڑائی ہوئی۔ تاتاریوں کی فوج بہت زیادہ تھی اور منگولیا سے شام تک وہ برابر فتح و ظفر کے پھریرے اڑاتے چلے آرہے تھے۔ قطر کو پورا احساس تھا کہ مقابلہ آسان نہیں۔ اس نے ایک نیک دل مسلمان کی طرح رو رو کر بارگاہ الہٰی میں دعائیں مانگیں اور اپنے تمام سالاروں اور فیقوں سے بھی کہہ دیا کہ اس مقام پر جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائو۔ رکن الدین بیبرس بڑی مردانگی سے لڑا، پھر قطر نے ایک زبردست حملہ کیا جس میں اس کا گھوڑا مارا گیا اور وہ خود موت کے منہ میں پہنچ گیا۔ عین اس حالت میں ایک سپاہی نے اپنا گھوڑا پیش کردیا۔ تھوڑی ہی دیر میں تاتاریوں کا سالار اعظم مارا گیا اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے، باقی بہت بڑی تعداد میں تہ تیغ ہوئے۔ اس شکست نے تاتاریوں کے دل میں اتنا ہراس پیدا کردیا کہ وہ دمشق اور دوسرے شہروں سے بھی نکل گئے۔عین جالوت کی لڑائی اس لحاظ سے تاریخ میں بے حد اہم ہے کہ تیس برس کی مسلسل فتوحات کے بعد تاتاریوں کی یہ پہلی شکست تھی۔ اس کے سیل کا رخ عین جالوت سے پلٹا اور شام و فلسطین کے علاوہ مصر، شمالی افریقا اور مغربی یورپ بھی ان کی ترکتاز سے محفوظ ہوگئے اور تاتاریوں کو پھر کبھی آگے بڑھنے کی جرات نہ ہوئی۔
ہندوستان میں اسلامی سلطنت کا آغاز
دہلی اور اجمیر کی ہندو ریاستیں مل کر ایک طاقت ور حکومت بن گئی تھی۔ اس کے فرمانروا پرتھوی راج نے غزنوی سلطنت کے کچھ سرحدی علاقے لے لیے تھے۔ محمد غوری نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا تو پرتھوی راج سے لڑائی چھڑگئی۔
پہلی لڑائی 1191ء میں ہوئی۔ محمد غوری کے پاس فوج کم تھی۔ پرتھوراج کے ساتھ دو لاکھ سپاہی اور تین ہزار جنگی ہاتھی تھے۔ ایک حادثہ یہ پیش آیاکہ سلطان سخت زخمی ہوگیا اور بے ہوش ہو کر گھوڑے سے گرنے ہی والا تھا کہ ایک وفادار خادم نے اسے سنبھالا اور میدان سے باہر لے گیا۔ سلطان کا گھوڑا فوج کی نظر نہ آیا تو وہ بھی میدان چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئی۔اس اتفاقی شکست سے غوری کے دل کو اتنی ٹھیس لگائی کہ اس نے اپنے اوپر ہر آسائش حرام کرلی۔ سال بھر تک نہ لباس بدلا اور نہ پلنگ پر سویا۔ ہر وقت یہی خیال رہتا تھا کہ جلد سے جلد تیاری کرکے شکست کا بدلہ لے۔ چنانچہ دوبارہ تجربہ کار فوج لے کر ہندوستان آیا۔ 1192ء میں اسی مقام پر پرتھوی راج سے دوبارہ جنگ کی، جہاں پہلے شکست کھاچکا تھا۔ پرتھوی راج اب کے تین لاکھ سپاہ لایا تھا، نیز تین ہزار جنگی ہاتھیوں کے علاوہ اس کے ساتھ ڈیڑھ دو سو راجے اور رئیس بھی تھے۔محمد غوری نے اپنی فوج کے پانچ حصے کیے، خود بارہ ہزار جانباز ساتھی لے کر ایک اونچے مقا پر بیٹھ گیا جہاں سے پورا میدان جنگ نظر آرہا تھا۔ باقی چار لشکروں کو حکم دیا کہ بار باری لڑیں۔ ایک لشکر تھک جاتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا جب اس نے اندازہ کرلیا کہ دشمن میں ٹڈی دل فوج تھک گئی ہے تو خود بجلی کی طرح اس پر جاپڑا اور تھوڑی ہی دیر میں اسے تتر بتر کردیا۔ ہزاروں مارے گئے جن میں خود پرتھوی راج بھی تھا۔ دہلی اور اجمیر غوری کے قبضے میں آگئے۔ تھوڑی ہی مدت میں اس کے سالار بنگال تک جاپہنچے اور شمالی ہند میں مسلمانوں کی وہ سلطنت قائم ہوئی جو 1192ء سے 1857ء تک باقی رہی۔
جامعہ ازہر کا قیام
358ھ/969ء میں فاطمیوں کے ایک سپہ سالار جوہر صقلی نے جسے جوہر رومی بھی کہتے ہیں، مصر کو فتح کرلیا اور فسطاط کے پاس جو ابتدا سے عربی سلطنت کا مرکز چلا آتا تھا، ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی، جس کا نام قاہرہ تجویز ہوا۔ یہ شہر ایک ہزار سال سے مصر کا پایہ تخت چلا آتا ہے۔ فاطمیوں ایوبیوں، مملوکوں، ترکوں اور خدیووں کے عہد میں اس کی عظمت درجہ کمال پر پہنچ گئی اور آج بھی شرق اوسط میں تاریخ آثار کا نہایت بیش قیمت خزانہ اسی شہر میں محفوظ ہے۔
لیکن قاہرہ کی ساری عظمت مادی تھی۔ وہاں جوہر رومی نے ایک ایسی عمارت بھی بنائی جو ایک ہزار سال سے مشرقی اور اسلامی علوم و فنون کا سب سے بڑا سر چشمہ چلی آتی ہے۔ یہ سب سے بڑی علمی میراث ہے جو عالم اسلام کو ملی ہے۔
جوہر نے ایک عالی شان مسجد تعمیر کرائی اور اس کا نام "الازہر" رکھا۔ پانچویں فاطمی خلیفہ العزیز نے اس میں دینی علوم کی تدریش شروع کرکے اس کے لیے اوقاف کا انتظام کردیا۔ اس کے اساتذہ کی تنخواہوں اور طالبعلموں کے وظیفوں کے مصارف ادا ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ جامعہ سارے عالم اسلام کے لیے ایک مرکزی درس گاہ بن گئی، جس کی سند مشرق و مغرب میں سب سے زیادہ عزت و احترام کا وثیقہ سمجھی جاتی ہے اور الازہر کا نام بچے بچے کی زبان پر چڑھ گیا۔الازہر کا چشمہ فیض ایک ہزار سال سے برابر جاری ہے۔ حکومت مصر نے مغربی علوم اور مغربی زبانوں کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے قدیمی تعلیم کے علاوہ علوم جدید کی تعلیم کا بھی انتظام کردیا ہے۔بیرونی طلبہ کےلیے اقامت خانے ہیں۔ لباس و طعام اور کتابوں کے اخراجات کے لیے بھی جامعہ کی طرف سے وظائف دئیے جاتے ہیں۔
الفانسو کی شکست
معتمد کے مشورے سے تمام عرب ریاستوں نے مرابطی خاندان کے حکمران یوسف بن تاشفین کو اپنی امداد کے لیے افریقا سے ہسپانیہ بلایا۔ وہ فوج لے کر پہنچا تو الفانسو نے اسے لمبا چوڑا خط لکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ کیوں مرنے کے لیے ہسپانیہ آئے ہو۔بہتر ہے چپ چاپ واپس چلے جائو۔ میں مراکش میں آکر تمہارا شوق جنگ پورا کردوں گا۔ یوسف نے اس خط کی پشت پر صرف تین لفظ لکھے اور اسے واپس کردیا۔ ان لفظوں کا مفہوم یہ تھا کہ جو کچھ ہونا ہے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔غرض فوج لے کر یوسف آگے بڑھا۔ عرب ریاستوں کے جنگجو بھی اس کے ساتھ شامل ہوگئے۔ صوبہ بطلیوس کے ایک میدان زلاقہ میں الفانسو سے مقابلہ ہوا۔ یوسف بن تاشفین اور عرب ریاستوں کی فوج بیس ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ الفانسو کے جھنڈے تلے کم از کم ساٹھ ہزا آدمی تھے۔ ان میں دور دور کے علاقوں کے فوجی دستے شامل ہوگئے تھے۔ اس لیے کہ عوام نے اسے قومی جنگ کی حیثیت دے دی تھی۔الفانسو نے یوسف کو پیغام بھیجا کہ جمعہ مسلمانوں کے نزدیک مقدس دن ہے۔ مسیحی بھی اتوار کو مقدس مانتے ہیں، لہٰذا دو دن تو کوئی لڑائی نہ ہونی چاہیے۔ البتہ ہفتے کا دن مقرر کرلیا جائے تو مناسب ہے۔ یوسف نے یہ تجویز منظور کرلی۔ دراصل یہ ایک فریب تھا۔ الفانسو چاہتا تھا کہ اسے بے خبری میں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑنے کا موقع مل جائے۔ چنانچہ مسلمان جمعہ کی نماز ادا کررہے تھے کہ اچانک الفانسو نے حملہ کردیا اور لڑائی شروع ہوگئی۔ یوسف اپنی فوج کو لے کر ایک الگ مقام پر جا کھڑا ہوا اور عرب ریاستوں کی فوجیں الفانسو کے تیز و خونریز حملوں کا نشانہ بنی رہیں۔ جب یوسف نے دیکھا کہ الفانسو کی فوج خاصی تھک گئی ہے تو پہاڑ کے عقب میں سے ہوتا ہوا الفانسو کے پیچھے سے حملہ آور ہوا۔ یہ حملہ ایسا سخت تھا کہ الفانسو کے چھکے چھوٹ گئے۔ ساتھ ہی اس کے کیمپ کو آگ لگادی گئی۔ الفانسو نے شکست فاش کھائی۔ اس کی فوج میں کم از کم بیس ہزار آدمی کھیت رہے۔ اس ایک فتح نے مسلمانوں کے لیے ہسپانیہ پر مزید چار سو سال کے لیے حکمرانی کی صورت پیدا کردی۔ یہ لڑائی جو دنیا کی چند فیصلہ کن لڑائیوں میں شمار ہوتی ہے، 23 اکتوبر 1086ء کو ہوئی تھی۔
بیت المقدس پر اسلامی پرچم لہراتا ہے
صلیبی جنگوں میں ایک مرتبہ فلسطین کا کچھ علاقہ مسلمانوں کے ہاتھ سے چھن گیا تھا جس میں بیت المقدس بھی شامل تھا۔ صلیبی سرداروں نے وہاں اپنی بادشاہت قائم کرلی تھی، جن مسلمان بادشاہوں نے چھنے ہوئے علاقوں کو واپس لیا۔ ان میں سلطان نور الدین محمود زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔صلیبی جنگوں میں ایک مرتبہ فلسطین کا کچھ علاقہ مسلمانوں کے ہاتھ سے چھن گیا تھا جس میں بیت المقدس بھی شامل تھا۔ صلیبی سرداروں نے وہاں اپنی بادشاہت قائم کرلی تھی، جن مسلمان بادشاہوں نے چھنے ہوئے علاقوں کو واپس لیا۔ ان میں سلطان نور الدین محمود زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔صلاح الدین نے تیاری مکمل کی اور لڑائی شروع کردی۔ صلیبیوں نے ہر مقام پر شکست کھائی اور انجام کار بیت المقدس میں محصور ہو کر بیٹھ گئے۔ سلطان نے رمضان 583ھ مطابق ستمبر 1187ء کو شہر کا محاصرہ کرلیا۔ مناسب مقامات پر فوجیں مورچے قائم کرکے بیٹھ گئیں۔ پیچھے پہاڑوں پر منجنیقیں لگادی گئیں جو پتھر کے گولے شہر میں پھینکتی تھیں۔ جگہ جگہ سرنگیں لگنے لگیں تاکہ ان میں بارود بھر کر دیواروں کو اڑایا جاسکے۔محصورین کو کامیابی کی کوئی امید نظر نہ آئی چوں کہ نوے سال پیشتر بیت المقدس کو فتح کرکے انہوں نے شہر کی آبادی پر بہت ظلم کیے تھے، اس لیے اپنے پرانے گناہ کی یاد سے ان پر کپکپی طاری تھی۔ جب ان کی تکلیفیں حد سے گزر گئیں تو شہر حوالے کردینے پر مجبور ہوگئے۔ آخر طے پایا کہ تمام لوگ اپنی حیثیت کے مطابق فدیہ ادا کرکے چلے جائیں۔ جو لوگ شہرمیںرہنا چاہتے ہیں ان سے کچھ نہ کہا جائے۔
غرض نوے برس کے بعد بیت المقدس دوبارہ فتح ہوا اور یہ فتح اس وجہ سے تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے کہ جس زمانے میں ظلم و جور عام تھا، مفتوحوں پر ہر قسم کی سختیاں روا رکھی جاتی تھیں، صلاح الدین نے اس زمانے میں نرمی، رحمت اور شفقت کا ایسا برتائو کیا، جس کی مثال اس دور ہی میں نہیں، بلکہ اکثر دوروں میں نہیں ملتی۔
علم و فنون کا دور
علوم کی سرپرستی میں عباسیوں کا درجہ سب سے بڑھا ہوا ہے، خصوصاً مامون الرشید کا نام و مرتبہ اس سلسلے میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، ترجمے کے لیے ایک خاص محکمہ قائم کیا گیا تھا۔ مامون نے اسے بہت ترقی دی۔ تمام ملکوں میں آدمی بھیج کر اچھی اچھی کتابوں کے نسخے جمع کرائے۔ پھر قیصر کو لکھا کہ علوم و فنون کی جتنی یونانی کتابیں جمع ہوسکیں۔ دارالخلافہ بغداد کو بھیج دی جائیں۔اگر مسلمان یہ خدمت انجام نہ دیتے تو آج اکثر کے نام بھی کسی کو معلوم نہ ہوسکتے پھر مسلمانوں نے خود مختلف علوم پر ایسی اعلیٰ کتابیں لکھیں کہ اہل یورپ نے ان کا ترجمہ لاطینی زبان میں کیا۔ بو علی سینا کی کتاب قانون کا لاطینی ترجمہ پانچ سو سال تک یورپ کی طبی یونیورسٹیوں میں بطور نصاب پڑھایا جاتا رہا۔
مسلمانوں میں ابو نصر فارابی نے افلاطون اور ارسطو کے انداز تحریر پر ایک رسالہ لکھا اور ان تمام مقامات کی تشریح کردی جن میں مختلف علمی طبقوں نے ٹھوکریں کھائی تھیں۔ صرف بغداد یا ایشیا افریقہ کے بڑے بڑے علمی مرکزوں ہی میں نہیں بلکہ ہسپانیہ کی اسلامی حکومت کی سرپرستی میں بھی پرانے علوم کی حفاظت، تشریح اور تجدید انتہائی اہتمام سے ہوئی۔ اگر افلاطون، ارسطو، سقراط، بقراط، جالینوس وغیرہ کے نام بچے بچے کی زبان پر جاری ہیں تو یہ سب انہی مسلمانوں کی علمی خدمات کا کرشمہ ہے۔ ورنہ ان لوگوں کے علوم زمانے کی قدر ناشناسی کے ہاتھوں ان کے ساتھ ہی مرچکے ہوتے اور آج ان کا کہیں سراغ نہ ملتا۔ مسلمانوں میں ابو نصر فارابی نے افلاطون اور ارسطو کے انداز تحریر پر ایک رسالہ لکھا اور ان تمام مقامات کی تشریح کردی جن میں مختلف علمی طبقوں نے ٹھوکریں کھائی تھیں۔ صرف بغداد یا ایشیا افریقہ کے بڑے بڑے علمی مرکزوں ہی میں نہیں بلکہ ہسپانیہ کی اسلامی حکومت کی سرپرستی میں بھی پرانے علوم کی حفاظت، تشریح اور تجدید انتہائی اہتمام سے ہوئی۔ اگر افلاطون، ارسطو، سقراط، بقراط، جالینوس وغیرہ کے نام بچے بچے کی زبان پر جاری ہیں تو یہ سب انہی مسلمانوں کی علمی خدمات کا کرشمہ ہے۔ ورنہ ان لوگوں کے علوم زمانے کی قدر ناشناسی کے ہاتھوں ان کے ساتھ ہی مرچکے ہوتے اور آج ان کا کہیں سراغ نہ ملتا۔
اندلس میں اسلامی سلطنت
عربوں کے ہاتھوں ہسپانیہ کی تسخیر کا آغاز 92ھ/ 711ء میں ہوا۔ لیکن وہاں عربوں کی مستقل سلطنت کا سنگ بنیاد عبدالرحمن نے 138ھ/756ء میں رکھا وہ دمشق کے اموی خلیفہ ہشام بن عبدالملک کا پوتا تھا۔عبدالرحمان پانچ برس کا تھا جب اس کے باپ معاویہ نے وفات پائی۔ دادا نے یتیم پوتے کو محبت اور ناز و نعم سے پالا۔ چوں کہ اسے ولی عہد بنانا چاہتا تھا۔ اس لیے بڑی اعلیٰ تعلیم دلائی۔ وہ بیس برس کا ہوا تو خاندان کے اقبال کا سورج ڈوب گیا۔ حکومت عباسیوں کے قبضے میں چلی گئی۔ایک معمولی کشتی میں سوار ہو کر مراکش سے ہسپانیہ پہنچا۔ وہاں کچھ لوگ اموی خاندان کے اس شہزادے کا نام سن کر ساتھ ہوئے، لیکن قرطبہ کے حاکم نے مقابلے کی ٹھانی۔ عبدالرحمان نے بے سرو سامانی کے باوجود اسے شکست دی۔ پھر سارے اسلامی علاقوں کو ایک مرکز کے تحت لا کر اس بادشاہی کی بنیاد رھی جو ساڑھے تین سو سال تک قائم رہی۔ یورپ اس کی ہیبت سے لرزتا تھا۔ اس اموی عہد میں جو عمارتیں بنیں اس کی نظیر کوئی دوسرا ملک آج تک پیش نہ کرسکا۔ ان میں سے ایک مسجد باقی ہے۔ اگرچہ اس کی پرانی شان و شوکت ماند پڑچکی ہے، تاہم اب بھی وہ دنیا کی عبادت گاہوں میں یگانہ مانی جاتی ہے۔
فتح ہسپانیہ
24جولائی 711ء (3 شوال 92ھ) کو ہسپانیہ میں دریائے برباط کے کنرے جو لڑائی ہوئی اس میں ایک طرف گیارہ بارہ ہزار اسلامی فوجی تھے جس کا سالار طارق بن زیاد تھا۔ دوسری طرف ہسپانیہ کا بادشاہ راڈرک تھا جس کی فوج دگنی سے کم نہ تھی، لیکن راڈرک نے شکست کھائی اور مارا گیا، ہسپانیہ مسلمانوں کے قبضے میں آگیا، جہاں انہوں نے آٹھ سو سال تک حکومت کی۔ یہی حکومت تھی جس نے صدیوں تک یورپ میں علم و حکمت اور تہذیب و دانش کا چراغ روشن رکھا۔ اسی چراغ کی لو سے یورپ کے اندھیرے میں اجالے کا سامان ہوا۔
مسلمان شمالی افریقا پر قابض ہوچکے تھے اور ہسپانیہ ان کے سامنے تھا۔ وہاں ایک طرف تاج و تخت کے جھگڑے شروع تھے، دوسری طرف راڈرک کے ظلم وجور نے عوام کو پریشان کر رکھا تھا۔ وہ لوگ بار بار مسلمانوں سے امداد کی درخواستیں کررہے تھے، آخر شمالی افریقا کے حاکم نے طارق بن زیاد کو بارہ ہزار فوج دے کر ہسپانیہ پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا۔ اس کے پاس صرف چند جہاز تھے، جب پوری سپاہ اس مقام پر اتر گئی جو بعد میں طارق کے نام پر جبل طارق مشہور ہوا تو اس نے جہازوں کو جلوادیا۔ جب پوچھا گیا کہ ایسا کیوں کیا اور شریعت میں ترک اسباب کب جائز ہے! تو طارق نے تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ ہر ملک ہمارا ہے اس لیے کہ ہمارے خدا کا ہے۔
پھرخود سب سے پہلے آگے بڑھ کر حملہ کیا۔ اسی روز جنگ کا فیصلہ ہوگیا۔ تھوڑی ہی مدت میں پورا ہسپانیہ مسلمانوں کے زیر نگین آگیا۔
بحر ظلمات میں دوڑا د یے گھوڑے ہم نے
اے خدا! اگر سمندر بیچ میں نہ آجاتا اور زمین ختم نہ ہوجاتی تو میں برابر فتح کے پھریرے اڑاتا اور تیری توحید کے نعرے بلند کرتا چلا جاتا۔ یہ الفاظ جو عقبہ بن نافع نے اس وقت کہے جب وہ شمالی و مغربی افریقا کو فتح کرتا ہوا اوقیانوس کے کنارے پر جا پہنچا اور اس نے بے اختیار گھوڑا سمندر میں ڈال دیا، لیکن موجوں نے آگے نہ بڑھنے دیا۔ یہی وہ سمندر تھا جسے پرانے زمانے میں غالباً اس لیے بحر ظلمات کہا جاتا تھا کہ کوئی نہ جانتا تھا کہ اس سمندر کے آگے کیا ہے۔ عقبہ بن نافع اسلام کے ابتدائی دور کا نامور فاتح اور بڑا باتدبیر سپہ سالار تھا۔
شمالی افریقا میں مصر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں فتح ہوچکا تھا۔ اس کے بعد عربوں نے لیبیا پر بھی قبضہ کرلیا۔ اس کے آگے بربر آباد تھے جن کے ساتھ سخت لڑائیاں شروع ہوگئیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافت کی باگ دوڑ سنبھالی تو عقبہ کو منتخب کیا کہ وہ بربروں کا خرخشہ مٹادے اور اسلامی حکومت کے مغربی حصے میں امن و امان قائم کرے۔عقبہ نے سب سے پہلے تو نس میں ایک مناسب مقام تجویز کرکے ایک چھائونی قائم کردی، اسے فوجی مرکز بنا کر آگے قدم بڑھانا تھا۔ بعد میں وہاں وہ شہر آباد ہوا، جس نے قیرواں کے نام سے عالمگیر شہرت پائی۔ عقبہ نے نئے مرکز سے پیش قدمی شروع کی تو بربر کہیں مقابلہ نہ کرسکے۔ عقبہ شہروں پر شہر فتح کرتا ہوا شمالی افریقا کی آخری حد تک پہنچ گیا۔ وہیں اس نے وہ الفاظ کہے تھے جن سے تاریخ کا ایوان ہمیشہ گونجتا رہے گا۔ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے شکوے میں اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا
دشت تو دشت ہیں، صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا د یے گھوڑے ہم نے
سندھ میں اسلام کا پہلا قدم
تمہیں اپنی فوج، ساز و سامان اور ہاتھیوں پر ناز ہوگا مگر ہمارا بھروسہ صرف خدا پر ہے، ہار جیت اسی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ اس خط کا ایک حصہ ہے جو نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم نے سندھ کے راجا داہر کو بھیجا۔یہی محمد بن قاسم تھا جسے 91ھ-701ء میں پانچ ہزار بہادروں کے ساتھ اس غرض سے سندھ بھیجا گیا تھا کہ داہر کو مسلمانوں کے جہاز پر حملہ کرنے کی سزا دے اور جن نہتے لوگوں کو قید میں رکھا ہے انہیں رہائی دلائے۔اس وقت محمد بن قاسم کی عمر سترہ سال سے زیادہ نہ تھی۔نوجوان سپہ سالار نے سندھ پہنچتے ہی سب سے پہلے دیبل کو فتح کیا، جہاں جہازوں پر حملہ ہوا تھا اور قیدیوں کو چھڑایا پھر تھوڑے ہی عرصے میں دریائے سندھ کے مغرب کا پورا علاقہ مسخر کرلیا۔ راجا داہر کی فوج دریا کے مشرقی جانب بالکل صحیح و سالم موجود تھی اور اس کی موجودگی میں دریا کو عبور کرنا آسان کام نہ تھا۔ محمد بن قاسم نے مغربی کنارے پر دریا کے پاٹ کے برابر کشتیاں جمع کیں اور انہیں لمبائی میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھوادیا۔ پھر ان میں ایسے تیر انداز بٹھادئیے جن کے نشانے کبھی خطا نہ ہوتے تھے۔ ،کشتیوں کے ایک سرے کو مضبوط رسوں سے کنارے پر بندھوادیا اور دوسرے درے کو دریا میں دھکیل دیا۔ یہ پانی کے دھارے میں پہنچا تو خود بخود دوسرے کنارے پر جالگا۔ اگلی کشتیوں کے تیر انداز بجلی کی سی تیز سے اترے اور کنارے پر مورچے بنا کر بیٹھ گئے۔ باقی لوگوں نے اگلے سرے کو دوسرے کنارے پر کس کر باندھ دیا۔ یوں پل بن گیا جس سے پوری فوج صحیح سلامت دوسرے کنارے پر اترگئی۔یہاں داہر اور محمد بن قاسم کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ ہوئی جو دس روز جاری رہی۔ محمد بن قاسم کے ساتھ صرف بارہ ہزار فوج تھی اور وہ اپنے مرکز سے بہت دور اجنبی ملک میں لڑرہا تھا۔ داہر کے ساتھ ساٹھ ہزار جنگجو بہادر تھے اور وہ اپنے وطن میں تھا، جہاں اسے ہر قسم کی امداد مل سکتی تھی، دسویں دن20 جون 712ء (10 رمضان 93ھ) کو غروب آفتاب کے وقت داہر مارا گیا۔ اس کے ساتھ ہی سندھ کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا اور ہندوستان میں اسلامی حکومت کا بنیادی پتھر رکھا گیا۔
قیصر کی شام سے رخصتی
الوداع اے شام! تو کتنا اچھا ملک ہے جسے دشمن کے حوالے کرنا پڑا۔ یہ الفاظ مشرقی رومی سلطنت کے شہنشاہ نے اس وقت کہے تھے جب یرموک کی لڑائی میں اسے شکست فاش ہوچکی تھی اور اسے صاف نظر آرہا تھا کہ کم از کم شام کا علاقہ ضرور چھوڑنا پڑے گا۔جنگ یرموک دنیا کی چند فیصلہ کن لڑائیوں میں شمار ہوتی ہے۔ عربوں کے عروج اور رومیوں کے زوال میں اسے سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے، عرب دمشق کو فتح کرلینے کے بعد تیزی سے بڑھے چلے جارہے تھے۔ اس اثناء میں رومی شہنشاہ نے فوجیں جمع کرنے کے لیے عام حکم دے دیا اور تھوڑی ہی دیر میں فوجوں کا طوفان امنڈ آیا جن کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ تھی۔ ان کے مقابلے میں عرب تیس پینتیس ہزار ہوں گے اور وہ بھی مختلف محاذوں پر بکھرئے ہوئے، اس حالت میں دانشمندی کا تقاضا یہی تھا کہ تمام سالاروں کو پیچھے ہٹ کر ایک موزوں مقام پر جمع ہوجانے کا حکم دیا جائے تاکہ وہ متحد ہو کر لڑسکیں اور دشمن کے علاقوں میں جا بجا محصور نہ ہوجائیں۔ اس غرض سے دریائے یرموک کا کنارا مناسب سمجھا گیا۔ یہ دریا اردن کی پہاڑیوں سے نکل کر بحیرہ طبریہ کے نیچے دریائے اردن میں مل جاتا ہے اور آج کل اردوں میں واقع ہے۔
رومی فوج بہت زیادہ تھی اور جوش کا یہ عالم تھا کہ تین ہزار آدمیوں نے پائوں میں بیڑیاں پہن لی تھیں تاکہ ہٹنا چاہیں بھی تو ہٹ نہ سکیں۔ لڑائی بڑی سخت ہوئی۔ کئی مرتبہ عربوں کے مختلف دستوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ آخر کار رومی ستر ہزار جانوں کا نقصان اٹھا کر بھاگ نکلے۔ عربوں میں سے صرف تین ہزار شہید ہوئے۔
اس کے بعد تھوڑے ہی دنوں میں شام کے تمام شہر عربوں کے قبضے میں آگئے اور رومی ہمیشہ کے لیے وہاں سے رخصت ہوگئے۔ اتنے تھوڑے عرصے میں شام و فلسطین جیسے اہم علاقوں کی تسخیر نے دنیا بھر میں عربوں کی دھاک بٹھادی اور وہ بھی پورے اعتماد سے اپنی تقدیر کی شاہراہ پر گامزن ہوگئے۔
بیت المقدس کی فتح
عرب فوجیں شام اور فلسطین کے اکثر شہر فتح کر چکی تھیں اور وہ بیت المقدس کا محاصرہ کیے ہوئے تھیں۔ محصورین کو جب باہر سے کسی امداد کی امید باقی نہ رہی تو انہوں نے صلح کی درخواست کی، لیکن شرط یہ لگائی کہ خلیفہ خود آئیں اور ان کے ہاتھ سے عہد نامہ صلح لکھا جائے۔
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ عرب فوجوں کے سالار اعظم تھے۔ انہوں نے بیت المقدس والوں کی شرط کے متعلق دربار خلافت میں اطلاع دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کے مشورے سے رجب 16ھ (اگست 637ء) میں مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔
یرموک کے شمال میں جابیہ ایک مقام تھا، سالاروں نے وہاں پہنچ کر ملاقات کی اور تمام حالات سنائے۔ وہیں بیت المقدس کے نمائندوں سے صلح کی شرطیں طے ہوئیں۔ عہد نامے پر دستخط ہوجانے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کا قصد کیا۔
جنگ قادسیہ
عربوں اور ساسانیوں کے درمیان پہلی بڑی لڑائی قادسیہ کے میدان میں ہوئی، (16-637) اسی نے ساسانی سلطنت کی قسمت پر قضا و قدر کی آخری مہر لگادی۔ یہ لڑائی چار دن جاری رہی۔ ساسانیوں کو اپنے جنگی ہاتھیوں پر بڑا بھروسا تھا۔ ہاتھی آگے بڑھتے تھے تو عربوں کے گھوڑے ان متحرک چٹانوں کو دیکھ کر بدکتے اور پیچھے کی طرف بھاگ نکلتے تھے۔ عربی لشکر کے سپہ سالار کو یقین ہوگیا کہ جب تک ہاتھیوں سے نجات نہ ہوگی کامیابی کی کوئی امید نہ رکھنی چاہیے۔ چنانچہ اس نے من چلے جوانوں کی ایک جماعت کے ذمے یہ کام لگادیا کہ ہاتھیوں کی آنکھوں میں نیزے ماریں اور ان کی سونڈیں کاٹ دیں۔ یہ جوان گھوڑوں سے اتر کر ہاتھیوں پر پل پڑے، انہوں نے تاک تاک کر ہاتھیوں کی آنکھوں میں نیزے مارے اور ساتھ ہی چابک دستی سے ان کی سونڈیں اڑادیں۔ ہاتھی چنگھاڑتے ہوئے پیچھے کی طرف بھاگے اور ساسانی لشکر کو روندتے ہوئے نکل گئے۔ساسانیوں نے رات کے وقت چھاپا مارنے کی تیاری کی، عربوں نے اونٹوں کی ایک قطار تیار کی جن پر خشک گھاس کے گھٹے مضبوط باندھ کر لاد دیے پھر ان گٹھوں کو آگ لگا کر اونٹوں کو ساسانی لشکر کی طرف دوڑا دیا۔ آگ کی اس دیوار نے جدھر کا رخ کیا۔ ساسانیوں کے گھوڑے باگیں تڑا تڑا کر بھاگ گئے، تھوڑی دیر کے بعد سارا ساسانی لشکر ریت کے ذروں کی طرح بکھر گیا۔اس شکست کے بعد ساسانی کہیں بھی نہ ٹھہرسکے۔ چند سال میں پوری ساسانی سلطنت عربوں کے قبضے میں آگئی اور اسلامی فتوحات کی سیل ہند و چین کی جانب پھیلنے لگا اور دوسری طرف اس کی لہریں اوقیانوس تک پہنچ گئیں۔
آخری خطبہ
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے دسویں سال حج کیا، اس موقع پر کم و بیش ڈیڑھ لاکھ مسلمان آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے ان کے سامنے ایک سے زیادہ خطبے ارشاد فرمائے۔ ان میں زیادہ تر وہ باتیں تھیں جو صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری بنی نوع انسان کے لیے چراغ ہدایت تھیں۔ بعض ارشادات یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔
توحید اور انسانی مساوات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:۔
لوگو، بیشک تمہارا خدا ایک ہے اور بیشک تمہارا باپ ایک ہے، جان لو کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، کالے کو گورے پر یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوی کی بنا پر۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔تمہاری جانیں، تمہارے مال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے پر قیامت تک کے لیے اس طرح حرام ہیں جس طرح تم آج کے دن (یوم حج) اس شہر (مکہ شریف) اور اس مہینے (ماہ حج) کی حرمت کرتے ہو۔میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردن کاٹنے لگو۔
ہر مسلمان دوسرے کا بھائی ہے اور تمام مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں۔
عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو اور غلاموں کا خیال رکھو، جو خود کھائو انہیں کھلائو جو خود پہنو انہیں پہنائو۔
دین میں حد سے نہ بڑھو، تم سے پہلی قومیں حد سے بڑھ جانے ہی کے باعث برباد ہوئیں۔
مجرم اپنے جرم کا خود ذمہ داری ہے، نہ باپ کے جرم کے لیے بیٹا جواب دہ ہے نہ بیٹے کے جرم کے لیے باپ۔
تم پر ایک نکٹا حبشی بھی امیر بنادیا جائے اور وہ تمہیں خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کا حکم سنو اور اس کی فرمانبرداری کرو۔
لوگو!۔ نہ میرے بعد کوئی نبی ہے اور نہ تمہارے بعد کوئی امت پیدا ہونے والی ہے۔
خطبہ ارشاد فرما چکے تو حاضرین سے پوچھا کہ خدا کے ہاں تم سے میری نسبت پوچھا جائے گا تو کیا کہو گے۔ سب نے بیک وقت جواب دیا ہم کہیں گے آپ نے خدا کا پیغام پہنچادیا اور اپنا فرض ادا کردیا۔ جواب سن کر آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور تین بار فرمایا اے خدا! گواہ رہنا۔