کئی مسلمان حکمرانوں کا قاتل وہ شخض جس کے دیوانے اِس کے ایک اِشارے پر ہنستے مسکراتے موت تک کو گلے لگا لیتے تھے

لاہور(مہرماہ رپورٹ): آجکل کے خود کُش بمبار ماضی کے فدائیوں کی جدید شکل ہے۔ خود کش بمبار ان فدائیوں کی نسل ہیں جو اپنے آقا کے حکم پر جنت کی تلاش میں مسلمانوں اور غیر مسلموں پر حملے کرکے اپنی جان قربان کیاکرتے تھے ۔محقیقین کا کہنا ہے کہ یہ خود کش بمبار دور حاضر میں حسن بن صباح کے فدائیوں کی بگڑی ہوئی ایک قسم ہے ۔ حسن بن صباح نے اعلیٰ شخصیات اور وقت کے بہترین علمائے کرام کو قتل کروایاتھا ۔ حتیٰ کہ اپنے آخر دور میں یہ فدائی باقاعدہ کرائے کے قاتل بن گئے اور عیسائیوں کے کہنے پر انہوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی پر بھی تین قاتلانہ حملے کیے تھے۔
حسن بن صباح کون تھا ؟ یہ بھی جان لیجئے ۔گیارہویں صدی میں جب سلجوقی سلطنت میں اسلامی فنون اور علم کا آفتاب پوری آب وتاب سے روشن تھا تو امام موافق کی اہم ترین درسگاہ میں تین دوستوں حسن بن طوسی،عمر خیام اور حسن بن صباح نے اپنے علم سے ہر کسی کو حیران کئے رکھا۔حسن بن طوسی سلطنت سلجوق کا وزیر اعظم بن گیا،عمر خیامایک قابل احترام شاعر اور علم دان بنا اور تیسرا دوست حسن بن صباح نے اپنے علم کو ابلیست کے سپرد کردیاَ،اس نے قلعہ الموت میں فردوس بریں بنا کر حشیشین کے عقیدے کو ایسا دوامدیکر طاقت پکڑی کہ اس کا نام سن کر بہت سے مسلمان حکمران کانپ اٹھتے تھے۔اس نے فدائیوں کو تربیت دی اور اپنے مقاصد کے لئے مسلمان سلاطین اور اہم شخصیات کو قتل کرادیتاتھا۔ جب حسن بن صباح کا فتنہ بہت بڑھ چکا توسلجوقی سلطان ملک شاہ نے اس کے خلاف لشکر کشی کا فیصلہ کیا۔ لشکرکشی سے پہلے ایک قاصد کو یہ پیغام دے کر بھیجا گیا کہ حسن بن صباح خود کو سلطنت کے حوالے کردے اور اپنی منفی سرگرمیاں ختم کردے ورنہ اْس کے قلعہ پر چڑھائی کردی جائیگی۔حسن بن صباح نے جواب میں کہا’’ جاو اور اپنے شہنشاہ سے کہہ دو میں اسکی اطاعت نہیں کرنے والا اور بھول کر بھی قلعہ الموت کی جانب رخ نہ کرے ورنہ میرے فدائی اسکی گردن اڑادیں گے اور میرے فدائی کون ہیں یہ بھی جان لو ‘‘ اس کے بعد حسن بن صباح کے حکم سے کچھ فدائین قطار بنا کر وہاں کھڑے ہوگئے۔اس نے ایک فدائی کو بْلا کر خنجرپکڑایا اور کہا، ’’اِسے اپنے سینے میں اْتار لو‘‘۔ فدائی نے بلند آواز میں نعرہ لگایا ’’یا شیخ الجبل تیرے نام پر‘‘ اور خنجر اپنے دل میں اْتار لیا۔اس کے بعد ایک دوسرے فدائی کو بلا کر حکم دیا کہ بلندی پر جا کر سر کے بل چھلانگ لگا دے۔وہ خاموشی سے گیا اور چھت سے چھلانگ لگادی اور اپنی گردن تڑوا بیٹھا۔پھر ایک اورفدائی کو پانی میں ڈوبنے کو کہا گیا اور اْس نے بخوشی اپنے آپ کو پانی کی تْند و تیز لہروں کے حوالے کردیا۔
ایلچی یہ واقعات دیکھ کر دم بخود ہوااور جا کر یہ تمام واقعات سلطان اور نظام الملک کو گوش گزار کردیے۔نظام الملک خواجہ حسن طوسی یہ سن کر جذبہء ایمانی کے غصے سے لبریز ہوگئے اور سلطان کو فوراً لشکر کشی کا مشورہ دیا جسے سلطان نے قبول کرتے ہوئے اپنے فوجوں کا رْخ قلعہ المْوت کی طرف کرلیا۔ حسن بن صباح نے یہ سْنا تو زیرِ لب مسکرایا اور کہا، ’’ حسن طوسی کو قتل کردو’’ بس اتنا ہی کہنا تھا اور خواجہ حسن طوسی کو قتل کردیا گیا اور عظیم الشان لشکر راستے سے ہی واپس ہولیا۔بعد میں سلطان ملک شاہ کو بھی قتل کر دیا گیا۔قتل کرنے کا طریقہ بڑا سادہ ہوتا تھا۔فدائی مطلوبہ شخصیت تک کسی بھی طریقے سے پہنچتا تھا اور اس کو قتل کر کے ایک بلند نعرہ لگاتا تھا ’’یا امام الجبل حسن بن صباح! تیرے نام پر تیری جنت سے اللہ کی جنت میں جا رہا ہوں’’اور اپنے دل میں خنجر اْتار لیتا تھا۔آج میں جو دہشت گرد تنظیمیں ہیں وہ اِن فدائیوں کی جدید شکل ہے جو معصوم انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں اور اسلام کو بدنام کررہے ہیں۔مزید اِس طرح کے واقعات ،فیچرز ،کالمز اور خبروں کے لئے ہمارے پیج کو وزٹ کر سکتے ہیں۔