زبان کا رس

2018 ,اپریل 19



دستک پر دروازہ کھولا تو سامنے اجنبی کو دیکھ کر ادھیڑ عمر کسان نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اجنبی نے کہا مسافر ہوں شام ہو گئی۔ رات بسر کرنے کیلئے ٹھکانے کی ضرورت ہے۔ کسان نے اسے اندر آنے کو کہا۔ مسافر ایک پاٹ والے دروازے سے گھر میں داخل ہو گیا۔ ایک پاٹ والے دروازے سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ کوئی امیر کبیر لوگ نہیں۔ دیہات میںگھر عموماً کھلے ہوتے ہیں۔ اس گھر کے کھلے صحن کے ایک طرف بھینس بندھی تھی۔ خاتون خانہ بھینس کا دودھ دوہہ کر ابھی اٹھی تھی۔ خاوند نے مسافر کی آمد کا بتایا جس پر خاتون نے بسم اللہ کہا۔ مسافر کو صحن میں ہی چار پائی پر بٹھا دیا گیا۔ خاتون اپنے اور مہمان کے کھانے کی تیاری کرنے لگی۔ مسافر نے اپنی پوٹلی کھولتے ہوئے کہا کہ اس کے کھانے کا تکلف نہ کریں، اس کے پاس چاول ہیں۔ وہ پکا کر دے دیں۔ اس کی چار پائی کے پاس ہی مٹی کا چولہا تھاجس میں لکڑیوں سے آگ جلائی گئی تھی۔ خاتون نے چاول چولہے پر چڑھا دئیے۔ ابھی آدھ پکے تھے کہ مسافر نے کسان سے باتیں کرتے ہوئے، خاتون کو مخاطب کر کے کہا ’’بی بی! بھینس بڑی موٹی تازی اور خوبصورت ہے، اسے نظر نہ لگے۔ اگر یہ مر جائے تو چھوٹے سے دروازے سے کیسے نکالی جائے گی۔ خاتون نے یہ بات سنی تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی مگر زبان سے کوئی ’’اوا توا‘‘ تو نہ بولی مگر چاولوں کی دیگچی اٹھائی مسافر کو اُٹھنے کو کہا اور چاول اس کی جھولی میں ڈالتے ہوئے وہ دروازہ دکھا دیا جس میں سے وہ مری ہوئی بھینس کو باہر نکالنے کیلئے پریشان تھا۔ اب اسے رات بسر کرنے کے لئے کہیں اور ٹھکانے کی ضرورت تھی۔ اس کی تلاش میں اس حالت میں گلی بازار سے گزر رہا تھا کہ جھولی سے چاولوں کے پانی کے قطرے کچھ اس کے پائوں اور کچھ زمین پر گر رہے تھے۔ کسی نے پوچھ لیا یہ کیا؟ تو اس مسافر نے جس کی دانش جھولی میں چاول ڈالے جانے پر جاگی تھی، کہا ’’یہ زبان کا رس ہے۔‘‘ بالکل ایسا ہی ہے۔ زبان انسان کو بھگوان کے درجے پر لے جاتی ہے۔ زبان ہی انسان کو ذلیل رسوا کرا دیتی ہے۔ زبان سے نکلی ہوئی بات بھی کہتی ہے تو مجھے زبان سے نکال میں تمہیں شہر سے نکلوا دوں گی۔ بُرے سے بُرے حالات اور مخدوش ترین معاملات میں بھی دشمن کی حد تک کے مخالفین سے رابطے برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے تو اس کے ثمرات بھی ہیں۔ دل میں کدورت بھی سومسائل کا ایک مسئلہ ہے۔ غصہ، اشتعال ایک فطری امر ہے اس کو کدورت اور کرودھ بنا کر مستقل دل میں رکھنا ایک وبال بن جاتا ہے۔ کچھ لوگ فقرہ ضائع نہیں کرتے بہترین دوست کھو دیتے ہیں۔ ایسے لوگ ہی بدقسمت ہوتے ہیں۔ سو سال کی زندگی بھی بڑی تھوڑی ہے۔ سو سال گزارنے والے سے پوچھیں تو وہ بھی کہتا ہے یہ سو سال ایک پل میں گزر گئے۔ حالانکہ انسان زندگی کا ایک ایک پل اپنی مرضی سے گزارنے پر قادر ہے۔ اس ایک پل کو سہانا بنانے کے لئے کئی تو حد سے گزر جاتے ہیں۔ کئی مرغوب غذائیں صحت کیلئے مضر ہونے کی بنا پر نہیں کھاتے مگر غیبت کی صورت میں اپنے بھائی کا گوشت بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔ 
ہمارے عمومی رویئے جارحانہ‘ عدم برداشت سے عاری اور تحمل سے تہی ہیں۔ ہمارے حکمران بھی ایسے ہی ہیں۔ وہ ہم رعیت کا پرتو یا ہم رعیت ان کے رویوں کی عکاس ہے۔ سیاسی اشرافیہ زندگی کے موجودہ پل کو صدیوں پر محیط کرنا چاہتی اور اس کیلئے اصول‘ قواعد و ضوابط‘ اخلاقیات حتیٰ کہ آئین کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ ایک دوسرے کو سیاسی اختلافات کی بنا پر گردن زدنی قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ آخرمستقبل کتنا روشن اور تابناک ہو سکتا ہے۔ چاپلوسی کی بھی دوڑ لگی ہے۔ جو جتنا بڑا چاپلوس ہے قیادت کی خوشامد پسندی سے اتنے ہی مرتبے پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ جلسوں‘ جلوسوں میں اپنے لیڈر کی توجہ حاصل کرنے کیلئے کارکن تو کیا لیڈر بھی بے خود ہو جاتے ہیں۔ آج گالی گلوچ ٹکٹ‘ ترقی اور عہدوں کا زینہ بن گئی ہے۔ ضیاء دور میں پی پی پی کے کارکنوں اور رہنمائوں کو کوڑے مارے گئے۔ قیدوبند میں رکھا گیا۔ بینظیر اقتدار میں آئیں تو کئی انگلی کو خون لگا کر شہیدوں کی صف میں شامل ہوکر منزل مراد پا گئے۔ آج وہی نسخہ عدالتوں کو تضحیک‘ ججوں کو تذلیل کا نشانہ بنا کر آزمایا جا رہا ہے۔
الطاف اپنی زبان درازی کے باعث کہیں کا نہیں رہا جس کو مہاجروں نے اپنی آنکھ کا تارا بنایا وہ بھارت کا راج دلارا بنا تو اس کی مقبولیت پستیوں کی پاتال میں میں جاگری۔ یہ زبان ہی کی بے لگامی تھی کہ نہال ہاشمی کو ایک ماہ کی سزا بھی کسی پل کم نظر آئی اور جوش میں آکر گرجے لیکن بالآخر پائوں پڑ کر خلاصی پائی۔
بڑے لوگوں کے حوصلے اور جگرے بھی بڑے ہونے چاہئیں۔ جو سزائوں کی ہوائیں سونگھ کر گرج رہے ہیں اور ان کے بھی جن پر برس رہے ہیں۔ کئی وزراء کو توہین عدالت کے مقدمات کا سامنا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے ایک بنچ نے عدلیہ کے بارے میں غیر محتاط زبان استعمال کرنے کے زمرے میں عبوری طور پر پیمرا کومیاں نواز شریف، مریم نوز، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، اسحاق ڈار، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، مریم اورنگزیب، طلال چوہدری، نہال ہاشمی، رانا ثناء اللہ، مائزہ حمید، آصف کرمانی، عابد شیر علی، محسن رانجھا اور پرویز رشید کی توہین آمیز تقاریر کی نشریات عبوری طور پر روکنے کا حکم دیتے ہوئے پیمراء کو عدلیہ مخالف تقاریر سے متعلق درخواستوں پر پندرہ روز میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
گزشتہ روز ہم لوگ دبئی سے آنے والے مہمانوں کو لینے ایئرپورٹ گئے۔ ان کے ایک بینک سے جعلی چیکوں کے ذریعے دو ملین روپے نکلوا لئے گئے تو وہ اس سلسلے میں پاکستان آئے، یہ قصہ پھر کبھی۔ فلائٹ رم جھم برستی بارش میں اتری‘ اس کے بعد بارش ذرا تیز ہوگئی ۔واپسی پر ہم جیل روڈ انڈر پاس پہنچے تو چار رو میں چلنے والی گاڑیاں ایک لین میں چل رہی تھیں۔ باقی حصے میں چار سوکے قریب موٹرسائیکل سوار بارش سے بچنے کیلئے کھڑے تھے ۔جس لیڈر شپ کی محبت میں ہم ہلکان ہو رہے ہیں‘ سارے وسائل اس کی تجوریوں میں چلے گئے۔ ہم منقسم قوم کسی کو وسائل پر زیادہ ہاتھ صاف کرنے پر مطعون کرتے ہیں۔ کس کی یہ کہہ کر ستائش کرتے ہیں اگر کچھ کھایا ہے تو لگایا بھی ہے۔ کوئی ایک پیسہ بھی کیوں کھائے‘ کیا کچھ کھانے کا ماتم کرنے کے بجائے کچھ لگانے پر جشن منایاجائے۔ ڈاکو گھر لوٹ کر لے گئے۔ بچوں کی کتابیں اور چارپائیاں چھوڑ جانے پر اہل خانہ کو تو لڈیاں ڈالنی چاہئیں!۔
اگر قومی وسائل لوٹے نہ جاتے اور ہمارے سیاسی آقائوں نے کوئی سسٹم بنایا ہوتا تو یقینا ہر پاکستانی کے پاس اپنی گاڑی اور گھر ہوتا۔ یوں بارش میں انڈرپاسوں اور درختوں کے نیچے کھڑے ہوئے نظر نہ آتے۔

متعلقہ خبریں