اول احتساب آخر احتساب

2019 ,مئی 2



اس ہفتے دو دفعہ سفر کا اتفاق ہوا۔ایک مرتبہ اپنے گاوں نئے بنائے گئے موٹروے کے ذریعے گیا۔ میاں محمد نواز شریف کے منصوبوں میں موٹرویز باکمال اور لازوال ہیں۔لاہور براستہ ننکانہ جڑانوالہ سمندری ملتان موٹروے کی تکمیل کا افتتاح میاں نوازشریف کے جانشین وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ سال لیگی حکومت کے آخری دنوں کیا تھا۔ اس افتتاح کی ٹی وی چینلز پر تقریب دیکھتے ہوئے میں بھی سفر کرنے نکل پڑا۔موٹروے پر پہنچا تو پتہ چلا ، ابھی تو انٹرچینج بھی نہیں بنے،افتتاح انتخابی سٹنٹ تھا۔عمران خان کی ترجیح میں ایسی سڑکیں شامل نہیں لہٰذا موٹر ویز کی تکمیل عبث نظر آئی۔ویسے بھی پیشرووں کے عوامی مفاد کے منصوبے نئے آنیوالوں کے سینے پر ناگ بن کے لوٹتے اورپیٹ میں مروڑ پیدا کرتے ہیں جو ادھورے رہیں تو باعث تسکین و طمانیت بنتے ہیں۔لاہور اسلام آباد موٹر وے میاں نواز شریف کی حکومتی مدت ادھوری رہنے پرلٹک گیا محترمہ بے نظیر بھٹوموٹر وے کو اکھاڑ تو نہ سکیں البتہ پانچ لین کو تین کردیا اور قوم پر یہ”احسان“ بھی کرگئیں، ٹھیکہ کی مالیت میں کمی نہ فرمائی۔موجودہ حکومت نے بادل نخواستہ ہی سہی ان منصوبوں کی تکمیل ممکن بنائی۔مارچ کے آخری دن شاہد خاقان کے ڈرامہ افتتاح کا مواصلات کے وفاقی وزیر مراد سعید نے ایک بار پھر افتتاح کیا۔ افتتاح پر افتتاح، نکاح پر نکاح کی مانند تو نہیں؟ یہ تقریب بھی ٹی وی پر دیکھی مگر اس مرتبہ کنفرمیشن کے بعد سفر کیا۔عالمی معیار کی خوبصورت روڈ،سفر بہت اچھا رہا،گاو¿ں پہنچ کر اگلی صبح کھیتوں کی طرف گیا تو دل کٹ کے رہ گیا۔ طوفانِ بادوباراں اور ژالہ باری سے فصلیں برباد ہوگئیں ۔گندم پکائی پر تھی ، بے رحم طوفان نے اسے لٹا اورلتاڑکے رکھ دیا۔جہاں بارش زیادہ ہوئیں وہاں پانی کھڑا تھا۔اب کٹائی دیر سے اور مشکل بھی ہوگی۔ سناہے فصلوں کی ایسی تباہی و بربادی حکمرانوں کی شامت اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ عمران خان نیک نیت انکے ساتھیوں کی نیت میں فتورشاید ابھی دور نہیں ہوا۔
دوسرا سفر فیصل آباد کا تھا وہ بھی نواز شریف کے بنائے ہوئے موٹروے پرکیا ۔ایسی شاہراہوں سے فاصلے سکڑ گئے ،وقت کی بچت ہوتی ہے جو قومیں وقت بچا لیتی ہیں وہ آگے بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ہماری شاہراہیں اور موٹرویز واقعی زبردست ہیں لیکن ان کے ساتھ لنک روڈز کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔لاہور سے جتنا وقت گاوں کے قریب ستر کلو میٹر طے کرکے انٹر چینج پہنچنے میں لگا اس سے زیادہ وہاں سے پندرہ کلومیٹر سڑک کی بدحالی سے گاو¿ں پہنچنے میں لگا۔ فیصل آباد سے واپسی بھی اسی نئے موٹروے سے ہوئی۔جڑانوالہ سے لنک روڈ اپنی حالت پر ماتم کناں ہے۔موٹر وے کی رابطہ سڑکوں کے علاوہ بھی کوئی سڑک سوائے انکے جن پروقت کے بزدار سفر کرتے ہیں محفوظ و مامون نہیں۔ آخر ہماری سڑکیں کیوں ٹوٹ جاتی ہیں؟؟۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی سڑکیں دیکھیں، کہیں کوئی کھڈااور گڑھانظر نہیں آتا۔ 
ایران میں سکول کی نئی عمارت میں دراڑیں پڑ گئیں، انقلابی حکومت نے ٹھیکیدار کو عمارت کے اندر کھڑا کر کے اوپر بم گرا دیا ۔قُم شہر میں یہ ملبہ آج بھی عبرت کے نشان کے طور پر پڑا ہے۔ انقلاب سے پہلے شہنشاہ ایک سڑک پر سفر کر رہا تھا، گڑھا دیکھا تو اسی میں ٹھیکیدار کو لٹا کے بلڈوزر چلوا دیا۔ اس کے بعد سڑکوں کی حالت بننے کے بعد کبھی خراب نہیں ہوئی۔جہاں بھی ایسا ہی کچھ کرنے کی ضرورت ہے مگر یہ ہو نہیں سکتا کیونکہ مروجہ سسٹم سے خیر کی توقع نہیں ہے۔ عمران خان چین میں کرپشن کے خاتمے کی بات کرتے ہیں، وہاں کرپشن کی سز اموت ہے۔سعودی عرب میں200 ارب ڈالر کی کرپٹ لوگوں سے وصولیاں کی گئیں ۔مروجہ سسٹم میں سخت اور عبرت آموز فیصلے نہیں ہو سکتے۔
نواز شریف نے شاہراہیں بنا کر فاصلے سکیڑ دئیے ۔شہباز شریف بھی بہت کچھ ایسا کرتے رہے ۔بجا طور پر یہ شیرشاہ سوری کی روایت کی تابندگی ہے ۔ سوری کی اور بھی روشن روایات ہیں، کرپشن، بدعنوانی،بددیانتی اور بے ایمانی کا تصور تک نہیں تھا۔ آج کوئی منصوبہ بغیرکرپشن کمشن دو نمبری کے تکمیل کو نہیں پہنچتا ۔وہی حکمران جو قائداعظم ثانی اور شیرشاہ سوری کہلوانے کی تمنا رکھتے ہیں، بدترین کرپشن میں ملوث پائے گئے۔ پاکستان میں جمہوریت ہے مگر کئی لوگوں نے حکمرانی بادشاہی کی طرح کی۔ آپ کے وسائل شہنشاہیت جیسے ہوں تو پھر شاہانہ اخراجات اور احکامات میں حرج نہیں مگر آپ کی معیشت انحطاط اور زوال پذیرہے ، ایک ایک پائی بچانے اور میرٹ کو حرزِ جاں بنانے کی ضرورت ہے۔مراد سعید تقریب میں کہہ رہے تھے، موٹروے قیام و طعام کے مقامات ڈیڑھ لاکھ روپے کی لیز پر تھے اب 70لاکھ میں دیئے گئے ہیں۔ لاہور میں 26 پیٹرول پمپ لیز پر تھے۔ لبرٹی پمپ کی لیز پندرہ ہزار روپے ماہانہ تھی۔ سپریم کورٹ کے آرڈر پر اسکی نیلامی 40 لاکھ میں ہوئی۔ باقی بھی لیز پر دیے گئے ، ماہانہ لیز 33کروڑ روپے بنی۔ حکومت پنجاب نے تین سال کاایڈوانس طلب کیا جو بخوشی جمع کرادیا گیا،ان پمپوں میں سے ایک چھ سو روپے ٹھیکے پر بھی تھا۔
تحریک انصاف حکومت کڑے احتساب کے ایجنڈے سے ہٹنے پر تیار نہیں مگر آج احتساب کی سب سے زیادہ مخالفت وہ بھی کررہے ہیں جو کبھی کہا کرتے تھے پہلے احتساب پھر انتخاب ۔اب کہہ رہے ہیں پہلے معیشت پھرحساب۔ زرداری جن کے ایک ہزار ارب روپے کے اکاو¿نٹس کی تفصیلات میڈیا میں گردش کرتی ہے،ان کا نیا ”فلسفہ حیات“سامنے آیا ہے۔احتساب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ کچھ ”دانشور“ بھی اس اچھوتے نظریے سے نہ صرف متفق ہیں بلکہ اس کے حق میں دھواں دارتقریریں اورکوے کو سفید قرار دینے کی طرز پردلائل کی طومارو یلغار کررہے ہیں۔یہ دانشورانِ اعظم کھرب پتی ہیں۔انکی ذہانت کے سوتے دولت کے خزانوںسے پھوٹتے ہیں جوان عظیم سیاستدانوں کے مرہون ہیں جن کی گردن احتساب کے بیلنے میں آچکی ہے۔ ایک دانشور نے تو دو سال کے لیے احتساب کو منجمدکرنے کی بقائمی  ہوش و حواس تجویز پیش کی ہے گویا جس نے جو لوٹ مار کی ہے اس کے ثبوت اگر کہیں ہیں تو مٹائے جاسکیں۔ انسان اشرف المخلوق مگر ہم ایسی خلق ہیں جسکا بڑوں کے احتساب پر زور تھا سب سے بڑا پکڑا گیا تو کہنے لگے زرداری کو کیوں نہیں پکڑتے، ان کے خلاف مقدمات بنے اس دوران ان کی شریفوں سے گاڑھی چھیننے لگی تو ان کو بھی پارسااورمعصوم ابن معصوم قرار دینے لگے۔قوم یقین رکھے ،شہباز شریف کی طرف سے پی اے سی اور پارلیمانی پارٹی کے عہدے سرنڈر کے کے باوجود کسی کو این آراو اور مستقل ضمانت نہیں ملے گی۔انصاف اور احتساب کا بھی یہی تقاضا ہے۔احتساب اور معیشت
 ساتھ ساتھ ہی نہیں بلکہ اول احتساب آخر احتساب پھر معیشت۔
 

متعلقہ خبریں