بڑا فیصلہ چھوٹی سوچ

2018 ,جولائی 9



 جمعہ 6 جولائی کا دن پاناما لیکس کے حتمی فیصلے کے باعث تاریخ ساز بن گیا۔احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں میاں نواز شریف کو 10 سال، مریم نوازکو 7 جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سناتے ہوئے باپ بیٹی کو مجموعی طور پر ایک ارب 63 کروڑ50لاکھ روپے جرمانہ کیااور لندن فلیٹس بھی ضبط کرنے کا حکم دیا۔ 
احتساب عدالت نے ہائیکورٹ میں اپیل کیلئے دس دن دئیے۔ اس کیلئے نوازشریف اور مریم کا پاکستان آنا قانونی تقاضا ہے۔ میاں نوازشریف اور مریم اگر پاکستان نہیں آتے تو قانونی طور پر ہائیکورٹ میں اپیل نہیں ہوسکتی۔ مگر ایسا ماضی میں ہو چکا ہے کہ سپریم کورٹ نے بینظیر بھٹو کو انکی ملک میں عدم موجودگی میں سزا کیخلاف اپیل کی اجازت دیدی تھی۔ عدالت عظمیٰ کی طرف سے کہا گیا ، بینظیر بھٹو عدالت کی اجازت سے بیرون ملک گئی ہیں۔ ان کاوکیل اپیل کر سکتا ہے۔ میاں نوازشریف اور مریم بھی عدالت کی اجازت سے لندن گئے۔ عدالت نے یہ اجازت ازخود دی، جس پر میاں نوازشریف نے کہا تھا۔ ”ہم نے تواجازت نہیں مانگی تھی“۔ اب عدالت کی ”جبری“ اجازت ان کےلئے نعمت ثابت ہو سکتی ہے۔ اپیل کے بعدہائیکورٹ میں کم یا ختم ہوسکتی ہے ۔سزا برقرار رہنے کی صورت میں نوازشریف سپریم کورٹ جائینگے۔ حتمی فیصلہ سپریم کورٹ ہی نے کرنا ہے۔ کچھ لوگوںکی رائے سے زیادہ خواہش ہے، میاں صاحب کے احسانوں کے زیرِ بار صدرممنون حسین سزا معاف کر دینگے۔ صدر کو معافی کا اختیار ہے مگرمعافی کی سفارش وزیراعظم نے کرنا ہوتی ہے۔اہم بات یہ کہ صدر کی طرف سے معافی کا مرحلہ عدالتی عمل کی تکمیل یعنی سپریم کورٹ کی طرف سے بھی سزا برقرار رکھنے کی صورت میں آتاہے۔ اُس وقت کون صدر ہو گا، کون حکومت میں ہو گا ؟ ممنون حسین دو ماہ بعد ستمبر میں مدت پوری کرکے گھرجا چکے ہونگے۔
انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ ہر پارٹی خصوصاً تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) اپنے اپنے سیاسی مقاصد کےلئے سزاوں کا فیصلہ استعمال کرنے کی کوشش کرینگے۔ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو سزا ہو چکی۔ ایسی ہی سزا کا امکان بھی تھا۔ مگر مسلم لیگ (ن) کے حامیوں پر اس کا کوئی فرق پڑیگا ‘امکان نہیں۔ پی ٹی آئی اور دیگر پارٹیوںکا ووٹ بینک بھی پکا ہے۔ انتخابی عمل کے آخر میں ایک طبقہ حتمی صورتحال یا پارٹیوں کے منشور اور پروگرام دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔ نوازشریف کیخلاف فیصلہ ان لوگوں کو حتمی رائے قائم اور ووٹ کاسٹ کرنے میں مددکرسکتا ہے۔اس طبقے کو معلق رائے کا حامل کہا جاسکتاہے۔ مسلم لیگ (ن) اگر اس طبقے کو باور کرانے میں کامیاب ہو جائے کہ اسکی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ناانصافی ہوئی ۔ اسے انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک مظلوم لڑکی کو بامشقت سزا سنائی گئی اور وہ بھی ان حالات میں، انکی والدہ زندگی اور موت 
کی کشمکش میں پردیس میں پڑی ہے تو معلق رائے رکھنے والا طبقہ ن لیگ کو ووٹ دینے پر تیار ہوسکتاہے جبکہ تحریک انصاف اس طبقے توجہ سزاپانیوالوں کو چور،کرپٹ اور دغا باز ثابت کرکے حاصل کرسکتی ہے۔
فیصلے پر لیگی لیڈروں ،سپورٹرز اور ووٹرز کاافسردہ اور مخالفین کا سجدہ شکر بجا لانا ۔بھنگڑے ڈالنا،مٹھائیاں بانٹا خوشیاں منانافطری امر ہے۔مگر اعتدال ضروری ہے۔حق میں آنیوالے فیصلوں پر اطمینان کا اظہار مناسب،خوشی سے جھومنا، آپے سے باہر ہونے کا غماز ہے۔مریم نواز نے فیصلے پرردِ عمل میں شیروں کو ڈٹ جانے کا پیغام دیا ۔ بھوکا شیرخطرناک پُر پیٹ من مست ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑے اور مکان کا نعرہ دیاجو جیالوں کےلئے ”لارا“ثابت ہوا ۔بھٹو شاید غریبوں کی نفسیات سمجھتے تھے۔انہیں بتی کے پیچھے لگائے رکھا۔انکی بھٹو سے امید واثق رہی کہ وہ روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ پورا کرینگے ۔ بھٹو کو پھانسی لگی تو جیالے بھوکے شیر کی طرح سڑکوں پر نکل آئے۔ کچھ نے خود سوزیاں بھی کیں کہ انکی اولاد کو توپیٹ بھر نے کو روٹی ملے گی۔ مسلم لیگ (ن) اپنے شیروں پر کرم نوازی کی ان کو روٹی، کپڑے اور مکان کی حاجت نہ رہنے دی، بھوک بھی ختم ہو گئی۔ ان سے ڈٹ جانے کی توقع عبث، یہ اب بھوکے شیر نہیں رہے۔اپنی لیڈر کی کال ضرور سنی البتہ جھولے لال کہہ کر سنی ان سنی کر دی۔ ٹکٹوں کے معاملے میں ناانصافی نہ ہوتی تو عارف خان سندھیلے جیسے وفاداران اور جانثارانِ نواز بے خود ہوکر سڑکوں پر ہوتے۔
میاں نواز شریف نے بھی عوام کو گھروں سے نکلنے کو سندیسہ بھیجا۔پہلے خواص پھر عوام نکلتے ہیں۔فیصلے کے موقع پر خواص غائب تھے،معمول کے برعکس کوئی لیڈربریفنگ کیلئے بھی موجود نہیں تھاجبکہ میاں صاحب یا مریم کے عدالت آنے ساڈا میاں آوے آوے کے نعروں سے اسلام آباد کی فضا گونج اٹھتی تھی۔ خواص کا رویہ ” پہلے میاں صاحب پھر ہم “ کی سوچ کا مظہرہے۔
لیگی حلقے اور حامی حلقے اس فیصلے کے پیچھے فوج کا ہاتھ قرار دیتے اور یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی شاخِ نازک سے اُڑان بھرنے اور ٹکٹ واپس کرنے والے فوج کے اشارے پر یہ سب کچھ کررہے ہیں۔اگر ایسا ہے تو مسلم لیگ ن انتخابات میں کامیابی کی امید نہ رکھے۔جو الیکٹ ایبل پارٹی میں باقی رہ گئے ، منتخب ہوکرفارورڈ بلاک کی روایت کو مستحکم بنا سکتے ہیں۔اس پر آگ بگولہ اور ”واورولا“ ہونے کی نہیں غورو فکر کی ضرورت ہے۔ ق لیگ کے 44ممبر میاں شہباز کے ساتھ فارورڈ بلاک بناکرڈَٹ گئے تھے۔کل ایسا ہوتا ہے توانہونی نہیں ہوگی ۔مشرف دور میں پی پی پی کے جید رہنماوں نے جیت کے بعد مشرف کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی۔سنا ہے سید فیصل صالح حیات پی پی پی کے ٹکٹ پرپھر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
88 سے 99تک ن لیگ اور پی پی کی دو دو بار حکومتیں ٹوٹیں۔جس کی حکومت ٹوٹتی،اگلے الیکشن میں وہ بری طرح ہار جاتی،انتخابی مہم میں کانٹے دار مقابلہ نظر آتا مگرانتخابی نتائج یکطرفہ ہوتے۔ضروری نہیں ہر معاملے میں تاریخ خود کو دہرائے۔اب نئی تاریخ بھی رقم ہوسکتی ہے۔ویسے نوے میں انتخابات کے دوران پیپلز پارٹی کیلئے ایسی ہی مشکلات تھیں جن کا آج نواز لیگ کو سامنا ہے۔بینظیر کیلئے ہمدردی کا 
بھی ایک عنصر تھا مگر اسٹیبلمنٹ نے ایک نہ چلنے دی اور اسکے نتیجہ میں میاں نواز شریف وزیراعظم بنے۔
سیاسی وابستگیوں سے بالا کچھ محب وطن لوگ میاں نواز شریف کو صائب مشورہ دیتے ہیں کہ وہ واپس آکر اپیل کریں۔ عدلیہ کی طرف تیرِ نیم کش کوگنوادیں۔فوج کے خلاف اُٹھائی ہوئی بندوق رکھ دیں۔بھارت کے حوالے سے وہی کریں ، جو قوم ایک محب وطن لیڈر سے امید کرتی ہے۔مودی سے دوستی پر دو حرف بھیج دیں۔انصاف آپ کو انہی ججوں سے ملنا ہے۔ فوج اور ججوں کو مشتعل کرکے جو کھویا وہ پانے کی امید نہ رکھیں۔بھٹو سے مضبوط ،مقبول اور شاطر و چالاک لیڈر پاکستان میں کوئی نہیں رہا،وہ جن موچھوں سے تسمے بنانا چاہتے تھے وہ پھانسی کا پھندا بن گئے۔جو ساتھی ججوں جرنیلوں کے کڑاکے نکالنے کی ہلہ شیری دیتے ہیں، ان چھوٹی سوچ کے لوگوںکا کڑاکا نکال کر اپنی سیاست کو مکمل تباہی سے بچائیں۔پاکستان میں سب ممکن ہے۔آپ بحال ہوسکتے ہیں،چوتھی بار وزیراعظم بن سکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں