شہید کپتان بیٹے کے نام ماں کا دلگدازخط

2018 ,مئی 11



لاہور(مہرماہ رپورٹ): ضرب عضب کے شہدا کی فہرست میں کیپٹن آکاش آفتاب ربانی کا نام سر فہرست ہے جنہوں نے میراں شاہ کے علاقہ میں 15جولائی 2014دہشت گردوں سے ارض پاک وا گزار کرانے کئے خرقہ شہادت زیب تن کیا ۔ایس ایس جی کمانڈو کیپٹن آکاش آفتاب ربانی اپنی رجمنٹ کی آنکھوں کا تارہ تھے ۔انہوں نے غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کیا ۔کیپٹن آکاش آفتاب ربانی کی والدہ اپنے بیٹے کو بہت یاد کرتی ہیں ۔انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار جس انداز میں کیا ہے،کوئی بھی حساس دل اسے پڑھ کر ہچکیاں لینے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔وہ اپنے بیٹے کے مرقد شہادت پر جاتی ہیں اور شہید بیٹے سے باتیں کرتی ہیں ۔انہوں نے اپنے بیٹے کے نام ایک دلگداز خط لکھا ہے ،آپ بھی پڑھئے اور ان جیسی ماو 191ں کے صبر واستقلال کے لئے دعا کیجئے کہ ان کے بیٹوں نے ارض پاک پر جان نچھاور کرکے ہم سب کی حفاظت کی ہے۔

میری آنکھوں کا نور میرے دل کے ٹکڑے میرے بیٹے آکاش!

3سال ہوگئے میرے بیٹے تمہیں دیکھے ہوئے 2014کی 17اور 18مئی کو ہم تربیلا میں تمہارے ساتھ تھے ۔وہ آخری دفعہ ہم سب اکٹھے تھے۔ وہ ہماری زندگی کے حسین ترین، پرسکون اور بہت قیمتی دو دن تھے اور میں اتنی نادان اتنی بھولی ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ میں اپنے شہزادے سے آخری بار مل رہی ہوں۔ کاش میں ا 177ن سب دنوں کو جو تمہارے ساتھ گزرے کسی طرح Saveکر لیتی اور جب بھی چاہتی انھیں دیکھ سکتی۔لیکن میر ے بچے بس صرف اور صرف یادیں ہی رہ جاتی ہیں جو اب کسی انمول خزانے سے کم نہیں۔

ایک طرف سے خوش بھی ہوتی ہوں کہ زندگی سے 3سال کم ہوگئے اور تم سے ملنے کے ٹائم میں کچھ کمی ہوئی۔پر یہ تو میرا اللہ ہی جانتا ہے کہ ابھی بھی کتنا فاصلہ باقی ہے۔

کاشی اکثر یہ ہی سوچتی رہتی ہوں کہ کاش تو مجھ سے نہ بچھڑتا کاش تو ہمارے ساتھ اپنی فیملی کے ساتھ ہوتا تو ہم مکمل ہوتے کتنے خوش ہوتے۔

کاشی جنت کا تصور اچھا لگتا ہے۔اس لیئے نہیں کہ وہاں پر ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی اور بہت آرام ہوگا۔ بلکہ اس لیئے کہ وہاں موت نہیں ہو گی۔ اور کوئی کسی سے نہیں بچھڑے گا۔

وہاں شاید ہم جیسی ماو 191ں کے بچے ان سے نہیں بچھڑیں گے۔اور جو بچے یہاں یتیم ہیں۔وہاں انکے والدین انکے ساتھ ہوں گئے اور وہاں بچھڑنے والی خطرناک ترین اور افسوسناک ترین صورت حال نہیں ہو گی۔ وہاں یہ جدائیاں یہ ویرانیاں اور یہ اداسیاں نہیں ہوں گی

انشاء اللہ۔

کاشی پتہ نہیں جنت میرے نصیب میں ہے یا نہیں۔پر مجھے بس اس جنت کا انتظار ہے جہاں میرے بچے میرے ساتھ اکٹھے ہوں ۔میری ساری فیملی میرے ابو تمھارے داداابو سب اکٹھے ہوں۔الگ ہونے کی بچھڑنے کی کوئی بات نہ ہو۔

کاشی لاو 191نج میں تمہارے seat خالی ہوتی ہے۔ ڈائننگ ٹیبل پر تمہاری کرسی خالی ہوتی ہے۔ٹیبل پر تمہارے نام کی پلیٹ ،سپون اور فورک نہیں ہوتا۔جب میں درزی سے کپڑے سلواتی ہوں۔تو اس میں تمہارے جوڑے نہیں ہوتے۔ تمہارے نام کی  خریدادی نہیں ہوتی۔کاشی کو یہ پسندہے تو یہ پکے گا،اب یہ نہیں ہوتا۔گھر میں لانڈری میں تمہارے کپڑے نہیں دھلتے۔اب کبھی بھی مجھے تمہارا بستر نہیں بنانا ہوتا ،تمہارا انتظار نہیں ہوتا کہ وہ راستے میں ہے اور آرہا ہے بار بار فون نہیں کرنا ہوتا۔کاشی کہاں پہنچے ہو۔کب تک گھر پہنچو گے۔کاشی آہستہ گاڑی چلانا۔دیکھو راستے میں فضول نہ رکنا۔

کاشی میرے فون پر تمہارے نام کی بیل  نہیں آتی۔تمہارے نام سے کوئی  پیغام نہیں آتاکاشی میری جان کیا بتاو 191ں۔کس کس بات پر میں نہیں تڑپتی۔دکھی ہوتی اور نہیں ٹوٹتی۔

کاشی قدم قدم پر ہر ہر بات میں تمہاری کمی محسوس ہوتی ہے۔ کاشی تم نے اپنی زندگی میں ایک گانا پی ایم اے  کے دورانیہ میں یو ٹیوب پرڈالا تھا۔

جو بھی قدم تم اٹھاو 191 گے میں یاد آو 191ں گا

جب تنہا راہوں میں جاو 191 گے میں یاد آو 191ں گا

ہاں کاشی ایسا ہی ہے ساری دنیا اردگرد ہے۔لیکن لگتا ہے تنہاہوں، کچھ نہیں ہے۔

میرے بیٹے کاشی

I miss you,I miss you

پلیز واپس آجاو 191 کاش تمہیں اندازہ ہو کہ میں تمہیں کتنا یاد کرتی ہوں۔

اکثر سونے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں اللہ جی کاشی آپ کا دیا ہوا تحفہ تھا۔آپ کی چیز تھی آپ کی امانت تھی۔آپ کو بھی بہت پیارا تھا۔آپ نے مجھ سے واپس لے لیا۔میں آپ سے گلہ نہیں کر سکتی پر پلیز مجھے خواب میں تو اس سے ملوا دیا کریں۔میں اس کی چمکتی ہوئی گہری آنکھیں دیکھ لوں۔میں اسکے خوبصورت معصوم چہر ے کی فرشتوں کی سی مسکراھٹ دیکھ لوں۔میں اسکے وہ گولو گولو سے ہاتھ اور پاو 191ں چھولوں۔میں اس کی وہ آواز سن لوں کہ جب وہ بولتا تھا تو جیسے میرے کانوں میں رس سا گھلتا تھا۔کاشی ساری خواہشیں ختم کر ایک خواہش رہ گئی ہے میں کاشی کو دوبارہ کب دیکھوں گی اُف کاشی اتنا تنا لمبا انتظار۔

کاشی آج شام کو بہت اچھا موسم ہو رہا تھا بہت خوشگوار ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں کاشی تو بہت یاد آرہا تھا۔تیری باتیں کہ ایسے موسم میں تو کہا کرتا تھا۔

امی آئیں سب باہر برآمدے میں بیٹھ کر گپ شپ لگاتے ہیں۔اور ساتھ کچھ 148باٹا کھاپا 147ہو جا ئے۔

جب بھی تم اچھا کھانا کھاتے یا اچھی پارٹی ہوتی تو تم کہتے تھے آج تو بہت 148باٹا کھاپا147ہوا امی اب دو دن میں میں کچھ نہیں کھاو 191 ں گا۔

او کاشی ہر بات کے ساتھ تمہاری کوئی نہ کوئی یاد جڑی ہوتی ہے۔

اور کاشی کیا بتاو 191ں زندگی کی وہی روٹین ہے۔تین سالوں میں کچھ بھی نہیں بدلاجب تک انسان زندہ ہے بس وہی تماشے اور ڈرامے جو شروع سے ہوتا چلا آرہا ہے۔

کاشی میں کچھ نہ کچھ تو کرتی رہتی ہوں اِدھرا 177دھر بھی آتی جاتی رہتی ہوں زندگی کاٹنی جو ہے نارمل تو نہیں رہتا بندہ۔

لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے کہ زندگی تیزی سے گزر رھی ہے۔اور ختم ہوجائے گی۔اور یہاں میں ختم ہونے کے انتظار میں جیئے جارھی ہوں۔

کاشی عجیب سی زندگی ہے۔خوشی کی بات پر بھی خوشی نہیں ہوتی ہاں پریشانی کی بات پر زیا دہ پریشانی اور دکھ ہوتا ہے۔ ایسے لگتا ہے برداشت ختم ہو گئی ہے ہمت جواب دے گئی ہے۔ ہر وقت جیسے کوئی جھنجھلا کر بیٹھا ہوا ہو۔

آکاش ہم کیپٹن سلما ن سرور کے یوم شہادت پر لاہور گئے تھے۔انھوں نے سلمان کا یوم شہادت پوری اچھی طرح سے منظم کیا۔

بہت سے شہداء کی فیمیلیز آئی ہوئی تھیں۔ہم سب کے چہروں پر ایک ہی کہانی تحریر تھی۔جو ہم با آسانی ایک دوسرے کے چہرے سے پڑھ سکتے تھے۔اپنے جیسے لوگو ں کے ساتھ وہ دو دن بہت اچھے گزرے۔

آکاش جب بھی ٹی وی پر بات چیت میں یہ تبصرہ ہوتا ہے۔کہ فلاں آپریشن کے بعد ملک میں امن وامان کی صورت حال میں بہتری آئی ہے اور دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے ہیں۔تو کبھی کسی نہ کسی جنرل کو کریڈٹ دیا جاتا ہے یا حکمرانوں کے نمائندے زبردستی کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں وہ پڑھے لکھے اور سمجھدار بھی ان شہیدوں کو بھول جاتے ہیں جنہوں نے اس دہشت گردی کی جنگ میں اپنے ملک اپنی سرزمین کے امن و سلامتی کے لیئے اپنی قیمتی جانیں قربان کی ہوتی ہیں۔

یہ سب دیکھ کر سب شہیدوں کی ماو 191 ں کی طرح مجھے بھی بہت تکلیف ہوتی ہے۔

کاشی رمضان آنے والا ہے کوشش کروں گی کہ اچھے سے عبادت کر سکوں۔اور کاشی گھر میں سب خیریت ہے سب کے لیئے دعا کرنا۔

اب اجازت چاھتی ہوں۔

اللہ حافظ

تمہاری ماں۔

متعلقہ خبریں