قائداعظم کے وہ الفاظ جنہیں تاریخ نے ہمیشہ کے لیے سنہری حروف میں نقش کر لیا

قائداعظم جب لندن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو ایک انگریز پروفیسر ’’پیٹرز‘‘ ان سے شدید نفرت کرتے تھے‘ ایک دن پروفیسر ڈائننگ روم میں لنچ کر رہے تھے تو جناح بھی اپنی ٹرے لے کر اسی ٹیبل پر بیٹھ گئے‘ پروفیسر کو اچھا نہ لگا اور اس نے جنا ح کو کہا ’’کیا آپ کو نہیں پتہ کہ ایک پرندہ اور سور ساتھ بیٹھ کر نہیں کھا سکتے؟‘‘۔جناح نے پراطمینان لہجے میں جواب دیا کہ آپ پریشان نہ ہوں
I will fly to other table
‘‘جناح کے اس جواب پرپروفیسر کوبہت غصہ آیا اور اسنے انتقام کا فیصلہ کر لیا‘ اگلے ہی دن پروفیسر نے جناح سے سوال کیا کہ اگر تم کو راستے میں دو بیگ ملیں اور ایک میں دولت اور دوسرے میں دانائی ہو تو تم کس کو اٹھاؤ گے؟ جناح نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کےنے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا کہ ’’دولت‘‘۔ جناح کے اس جواب پر پروفیسر نے طنزیہ مسکراہٹ کیساتھ جواب دیا کہ میں تمہاری جگہ ہوتا تو ’’دانائی‘‘ والے بیگ کو اٹھاتا۔ جناح نے جواب دیا کہ ’’ہر انسان وہی چیز چاہتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی‘‘۔قائد اعظم محمد علی جناح ایک عظیم لیڈر ہی نہیں تھے بلکہ ایک مدبرا ور سمجھدار انسان تھے جنہوں نے اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے نکال کر ایک آزاد ماحول دیا جہاں آج ہم اپنی سانسیں کسی بھی ڈر کے بغیر لے رہے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کو تاریخ نے ہمیشہ ایک بلند مقام پر جگہ دی ہے انہوں نے جس میدان میں قدم رکھا وہاں ہی اپنا لوہا منوایا اور اپنی خودداری کی وجہ سے ہمیشہ ان کو یاد رکھا جائے گا