نفرت کی دیوار

2019 ,جولائی 12



جیت کی طرح ہار بھی کھیل کا جزو لازم ہے، جیت پر شادیانے بجانا شکست پر افسردگی فطری امر ہے۔ پاکستان بھارت کسی بھی شعبہ میں مقابلہ پر طرفین کے جذبات عروج پر ہوتے ہیں۔ جذبات کے اظہار میں سپورٹس مین سپرٹ عنقا ہو جاتی ہے۔ جیت کیلئے والہانہ پن بجا، اس میں بھی حریف سے نفرت کا اظہار نہ ہو تو جشن کا ’’سواد‘‘ ہی نہیں آتا ۔ شکست پر کھلاڑیوں کے پتلے جلائے جاتے ہیں۔ اس آگ کی تپش کھلاڑیوں کی روح اور ان گھروں تک بھی محسوس ہوتی ہے۔ ورلڈ کپ میں کسی بھی ٹیم سے شکست گوارہ ہو سکتی ہے مگر ہم بھارت سے ہار جائیں یہ دل و جان پر ناگوار گزرتی ہے۔ کھیل کھیل ہے، اسی سپرٹ میں اسے لیناہی سپورٹس مین سپرٹ ہے۔ مگر بھارتی ٹیم نے اس مرتبہ جو کیا‘ ایسا کسی بھی ملک کے جذبات کی رو میں بہہ کر ہوش و حواس سے بیگانہ تماشائی بھی نہیں کرتے۔ پاکستان کو اگلے مرحلے میں جانے سے روکنے کیلئے بھارت انگلینڈ سے میچ جان بوجھ کر ہار گیا۔ پاکستان کے ساتھ پاکستانیوں کی والہانہ محبت کا اظہار اس روزدل پر پتھر رکھ کے بھارت کی جیت کی دعائوں سے ہوتا ہے تاکہ پاکستان اگلے مرحلے میں پہنچ سکے۔ بھارت یہ میچ ہارا تو پاکستان کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے امکانات کم اور ’’اگر مگر‘‘ ہماری خواہشات کے مطابق نہ ہونے سے ختم ہو گئے۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ میں ٹائی پڑنی تھی ۔اب نیوزی لینڈ آگے آگیا ، گویا بدنیتی اور تکبرکے باعث بھارت پر خدا کی مار اور پھٹکار پڑگئی۔ بھارت ورلڈ کپ میں بہترین ٹیم تھی، دی موسٹ فیورٹ، اسے تکبر اور بدنیتی لے ڈوبی، نیوزی لینڈ مقابلتاً کمزور اور پھر 240 بھی کوئی خاص سکور ہے؟ دھونی نے انگلینڈ سے میچ ہارنے کیلئے پوری کوشش کی جس میں کامیاب رہا، نیوزی لینڈ سے جیتنے کی بھی پوری کوشش کی جس میں واضح کامیابی نظر آتی تھی مگر دو چار ہاتھ جب لبِ بام رہ گیا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان نفرت کی دیوار ایستادہ ہے جسے بھارتی متعصب کھلاڑیوں نے مزید بلند کر دیا۔ مگر اسے بدنیتی مکر وفریب اور غرور کی ہمیشہ سزا ملی۔ آسٹریلیا کے ساتھ میچ میں فوجی کیپس پہن کر پاکستان سے نفرت کا اظہار کیا گیا تواس نے میچ اور اگلے دو بری طرح ہارے، تین میچوں میں پاکستانی نژاد آسٹریلوی کھلاڑی عدنان خواجہ نے بڑے سکور کئے اور پھر 28 فروری کو تقدیر دو بھارتی فائٹر جہازوں کو پاکستانی شہبازوں کے سامنے کبوتر بناکر لے آئی تھی۔

نفرت کی دیوار کی بنیاد بھارت نے رکھی۔ وہی اس کو بلند کئے جا رہا ہے۔ اس سے پیار کرنے والے پاکستان میں بھی موجود ہیں جو اکثر وہاں جاتے اور چھتر کھا کے آتے ہیں۔ بہرحال نفرت کی ایک دیوار ہمارے ہاں سیاسی حوالوں سے موجود ہے۔ اسکے آر پار نفرت اور کینے سے بھرے دل و دماغ کبھی اِدھر کبھی اُدھر یکجا ہوتے رہتے ہیں۔دیوار وہیں پر رہتی ہے۔ کچھ کیلئے تو یہ ’’ دیوار گریہ‘‘ بن جاتی ہے۔ پی پی اور ن لیگ کے مابین نفرتیں زیادہ محبت کم کم رہی ہیں، اب والہانہ پن ہے۔ کبھی یہ پارٹیاں نفرت کی دیوار کے آر پار اور بالمقابل ہوتی تھیں‘ آج دونوں دیوار کے ایک طرف جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف ہے جس نے ’’غیبی مدد‘‘ سے الیکشن میں دونوں کا دھواں نکال دیا،’’دھوڑ پٹ دی، لمب کڈھ دی‘‘۔ بعید نہیں کل تینوں نفرت کی دیوار کے ایک طرف اور بالمقابل کوئی اور پارٹی یا قوت ہو۔ صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین پی پی اور تحریک انصاف نے بنوایا ۔ مقابل حکومتی پارٹی مسلم لیگ ن تھی۔ اب پی پی پی اور ن لیگ مولانا کے اکساوے پر تحریکِ عدم تہیہ طوفاں کئے ہوئے ہیں۔ سنجرانی کا بھی عزت کیساتھ جانے کا ارادہ نہیں،وہ شاید خود کو پھر نوٹوں کی بوریاں کھولنے پر مجبورپاتے ہیں، حکومت بھی کارخیر میں حصہ ڈال سکتی ہے۔ سنجرانی کو ہٹانا سوکھا نہیں، ن لیگ کیلئے حکومت میں رہ کر سنجرانی کو شکست دینا ناممکن ہو گیا تھا۔بلوچستان کا یہ سپوت تبدیل ہواتوکیا ن لیگ کی مصیبتیں اورتکلیفیں دور ہو جائیں گی؟ یہ سوال مولانا سے پوچھا جا سکتا ہے جو تحریک انصاف حکومت کو ایک لمحے برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ انکی زباں سے حکومت اور پاک فوج کیلئے بھی انگارے نکلتے ہیں جس پر پی پی پی اور لیگی قیادت دل و جاں اور کہہ مکرنی زباں سے آمین کہتی ہے۔ عمران خان کو اپنی کہہ مکرنیوں کا جواز یوٹرن میں نظر آتا ہے۔ نفرتوں کی دیوار’’اُ لانگ اورپھلانگ پر ایک طرف آنیوالی پارٹیوں کی اعلیٰ ترین قیادت جیل میں ہے۔ جیل پہنچانے والے کارنامے ہی دونوں کی قربتوں کا باعث بنے، اب ایک دوسرے کو بچانے کیلئے سرگرداں ہیں۔ کہا جاتا ہے: مریم نوازنے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی وڈیو میڈیا میں پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا ، جج کو اسکی ’’بداعمالی‘‘ کی وڈیو دکھا کر بلیک میل کیا گیا۔ وہ بداعمالی والی وڈیو پی پی کے ایک لیڈر نے 5 کروڑ میں فروخت کی۔ وہ وڈیو تیرہ سال قبل کی ہے‘ جب ارشد ملک وکیل تھے۔ مریم کی جاری کردہ ویڈیو قانونی ماہرین کے مطابق دعویدار کو عدالت میں ثابت کرنا ہو گی۔ اس کیلئے اصل وڈیوکیساتھ ویڈیو بنانے والے شخص اور کیمرہ بھی پیش کرنا ہو گا۔ تین بار وزیر اعظم رہنے والی شخصیت کو ثبوتوں کے بجائے دبائو پر سات سال قید کی سزا سنا دی جائے، یہ مذاق ہی نہیں سفاکیت بھی ہے۔نواز شریف کو بڑا ریلیف مل سکتاہے مگر وڈیو کا اصل ہونا شرط اول ہے۔ دو چار روز میں ن لیگ عدالت نہ گئی تو ممکنہ طور پر جلسوں میں عدلیہ کا ’’جلوس‘‘ نکالے جانے پر چیف جسٹس خود انہیں بلا سکتے ہیں۔ وڈیو جعلی یا ٹمپرڈ ثابت ہوئی تو لینے کے دینے پڑ جائینگے۔ مریم بی بی مزید ایسی وڈیوز اور اداروں کے بارے میں بھی کچھ کہنے اور دکھانے کی دھمکیاں دے رہی ہیں۔ کیلبری کیس شاید اسی لیے کھولا جا رہاہے اور پھر والیوم ٹین سامنے آ سکتا ہے۔ اس میں پاکستان سے غداری کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ مریم نواز خودزیر عتاب، ان کا والد جیل میں، بھائی مفرور ہیں۔مریم سود و زیاںسے بے نیاز ان لوگوں پر بھوکی شیرنی کی طرح جھپٹ رہی ہیں جن کو اپنی بدقسمتی کا ذمہ دار سمجھتی ہیں جبکہ لیگی قیادت سہمی ہوئی ہے۔ مریم جہاں تک چلی گئی اور مزید جانے کا ارادہ ہے، اسے مصلحتوں کے تابع اور خوفزدہ قیادت کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں