حضرت بی بی مریمؑ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع دسمبر 22, 2017 | 07:12 صبح

لاہور(بابو عمران قریشی):حضرت بی بی مریمؑ کے والد کا نام عمران ثانی اور والدہ کا نام حنہ بنت قاقوزا تھا۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 35 میں یوں بیان ہوا ہے ترجمہ "جب کہا عمران کی عورت نے کہ اسے اب میں نے نذر کیاتیرے جو کچھ میرے پیٹ میں ہے سب سے آزاد رکھ کر سو تو مجھ سے قبول کر بے شک تو ہی اصل سننے والا جاننے والا ہے "اُس وقت کے رواج کے مطابق جو لڑکا اللہ کی نذر کر دیا جاتا تھا وہ نہ تو شادی کرتا تھا نہ ہی دنیاوی مشاغل میں دلچسپی لیتا تھا۔ صرف عبادت گاہ کی خدمت کرتااور خود عبادت میں

مشعول رہتا تھا۔ بی بی مریم کی والدہ نے بیٹے کے عطاکرنے کی دُعا اسلئے کی تھی کہ رواج کے مطابق عبادت گاہ کی خدمت کیلئے صرف لڑکوں کو قبول کیا جاتا تھا، لڑکیوں کیلئے اجازت نہ تھی۔ چنانچہ جب بیٹے کی بجائے بیٹی پیدا ہوئی تو ماں کو فکر ہوئی کہ اس کی نذر قبول نہ ہوگی کیونکہ دستور کے مطابق لڑکی نذر کرنے کی ممانعت تھی۔اسی کشمکش میں اللہ سے استدعاکی کہ اے رب میں نے تو لڑکے کی درخواست کی تھی لیکن جو اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکا ت کا علم ہے وہاں تک انسانی سوچ کیسے پہنچ سکتی ہے۔ اللہ نے جس لڑکی کو پیدا فرمانا تھا اسے دراصل مقدس ماں بنانا مقصود تھا جس کے بطن سے ایک عظیم الشان مبارک و مسعود بیٹے نے پیدا ہونا تھا جو پیدائشی نبی تھا۔ حدیث میں ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُسے شیطان مس کرتا ہے مگر ہر انسانی جسم اس کے اثرات کو قبول نہیں کرتا ۔حضرت مریمؑ اور اس کے فرزند ایسے انسان تھے جو اس سے مستثنیٰ تھے اور اُن کو شیطان نے مس نہیں کیا تھا۔چنانچہ جب بچی کو مجاوروں کے پاس لے جایا گیا تو ان میں اختلاف پیدا ہوگیا ہر کوئی خود کو زیادہ حقدار سمجھتا تھا ۔پھر یہ فیصلہ ہوا کہ مجاورین وہ قلم جن سے وہ توریت لکھتے تھے پانی میں چھوڑ دیں جس کا قلم پانی کے بہائو میں بہنے کی بجائے اُلٹا بہے وہ حضرت مریمؑ کی کفالت کا حقدار ہوگا ۔اس مقابلے میں حضرت زکریا ؑبھی شامل تھے ۔ان کے قلم کو اللہ نے پانی میں بہائو کے اُلٹی طرف بہا دیااور وہ انکی پرورش کے حقدار ہوگئے۔اور بی بی مریم کو اللہ کی منشاکے مطابق حضرت زکریاؑ کی کفالت میں دے دیا گیا۔حضرت زکریاؑ کی بیوی حضرت مریمؑ کی خالہ لگتی تھیں اس لئے ان سے بڑھ کر ان کی بہتر پرورش کون کرسکتا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے بی بی مریم کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمایا تو عبادت گاہ میں ان کیلئے ایک حجرہ مخصوص کردیا گیاجہاں وہ دن بھر عبادت میں مشعول رہتیں۔اس دوران اللہ کی رحمت اور برکت سے حضرت مریمؑ کے پاس بے موسم پھل آنے شروع ہوگئے۔حضرت زکریا ؑ کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی ۔بے موسم کے پھل دیکھ کر حضرت زکریاؑ کے دل میں اولاد کی خواہش پیدا ہوئی اور انہوں نے گڑگڑا کر اولاد کیلئے دُعا کی جسے اللہ نے منظور کرکے بیٹا عطافرما دیا اور ساتھ ہی یحییٰ نام رکھنے کا حکم فرمایا۔اللہ تعالیٰ کی ذات اسباب کی پابند نہیںجس طرح حضرت مریمؑ کو بے موسم کے پھل عطاکرنا مشکل نہ تھا اُسی طرح ایک بانجھ عورت اور بوڑھے کو اولاد عطا کرنا دراصل اس اہم واقعہ کی نشان دہی کرنا تھا جو کہ حضرت مریم ؑ کے بطن سے رونما ہونے والا تھا یعنی بن باپ کے بیٹا… گویاکہ یہ آیات الہٰیہ کی تمہید تھی۔ بی بی مریم کی عمر جب تقریباً 15 سال کی ہوئی تو ایک فرشتہ خوبصورت نوجوان مرد کی شکل میں نمودار ہوا جسے علیحد گی میں دیکھ کر حضرت مریم خوف زدہ ہو گئیںاور ان کو اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کی فکر دامن گیر ہو گئی۔ گو کہ فرشتہ کے چہرے پر تقویٰ کے آثار نمایاں تھے تاہم بی بی نے اپنی عصمت کی حفاظت کیلئے خود کو اللہ کی پناہ میں دے دیا۔یہ عفت اور پاکبازی کا ایک طرح کا امتحان تھا جو اللہ کے خاص بندوں پر اکثر ہوتا ہے۔اس شخص سے کہا کہ وہ وہاں سے چلا جائے۔ ان کی پریشانی دیکھ کر نوجوان نے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں میں انسان نہیں اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ایک فرشتہ ہوں۔ آنے کی وجہ بتاتے ہوئے فرشتہ نے کہا کہ آپکو ایک پاکیزہ اور مبارک و مسعود بچے کی ولادت کی خوشخبری دینے آیا ہوں۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا فرما چکا ہے اور حضرت حوا علیہ السلام کو صرف مرد کے وجود سے پیدا فرمایا گیا۔یہ سُن کر حضرت مریمؑ کو سکون ملا اور خوف و ڈر ختم ہوگیا۔بچے کی ولادت کے بعدجب پاکدامنہ حضرت مریم پر طعنہ زنی ہونے لگی تو بالآخراللہ تعالیٰ کے حکم سے نومولود بچے نے ان تمام شکوک و شبہات اور فاسد خیالات کی نفی کرتے ہوئے کہا۔"میں بندہ ہوں اللہ کا اور مجھے اللہ نے نبی بنایاہے اور کتاب دی ہے"۔یوںحضرت مسیحؑ نے ماں کی گود میں گفتگو کرتے ہوئے جو اوصاف و خصائل بیان فرمائے ان سے اس ناپاک تہمت کا رد ہوگئی جو انکی پاکدامنہ والدہ پر لگائی جارہی تھی۔چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت مریم صدیقہ کی پاکدامنی کی تصدیق حضرت مسیح ؑ کی زبان سے کرائی اور ان باطل عقائد کی تردید کر تے ہوئے ان کی پرہیزگاری کی گواہی قرآن کریم میں بھی نزول فرمائی۔