پورن سٹار کی کہانی اس کی زبانی

یہ کہانی مجھے دوست نے بھیجی ہے ، اس نے یہ کہانی ایک سابقہ پورن سٹار کے انٹرویو سے متاثر ہو کر ٹرانسلیٹ کی ہے ،آپ بھی یہ سبق آموزکہانی ملاحظہ کیجیے۔
تھوڑا عرصہ پہلے میں نے ایک تھریڈ بنائی تھی جس کا ٹائٹل تھا ” کون کون پورن ایکٹر یا ایکٹریس بننا چاہتا ہے” تو بہت سارے ممبرز نے پورن سٹار بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ، ان سب کا ذہن یہ تھا کہ سیکس کے ساتھ پیسہ اور شہرت مفت کی ملے گی لیکن شاید انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ انکی زندگی کیسے گزرتی ہے ، کیمرے کے پیچھے انکی عملی زندگی کیا ہے –
ہم تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ایک حسین مرد اور حسین عورت سیکس کو بہت انجوائے کر رہے ہیں لیکن ان کے دل میں کیا گزر رہی ہوتی ہے اس سے ہم ناواقف ہی رہتے ہیں ۔یہ کہانی ایک سابقہ پورن ایکٹریس کی ہے ، اس نے اپنی یہ کہانی سی بی این کو ایک انٹرویو کے دوران سنائی تھی – آئیے اسکی کہانی اسکی اپنی زبانی پڑھتے ہیں –میرا نام شیلی لبن ہے ، تین بہن بھائیوں میں میرا پہلا نمبر ہے ، میں سن انیس سو اڑسٹھ کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر پاسادینامیں پیدا ہوئی ، میری زندگی کے پہلے آٹھ سال بہت خوشگوار گزرے ، ہم ہر روز چرچ جایا کرتے تھے وہاں مجھے خدا کے بارے میں بتایا گیا ، بنیادی طور پر میں ایک شریف فیملی سے تھی ، اگر میں اپنے بچپن کو دیکھوں تو مجھے خدا سے بہت محبت تھی بہت زیادہ –
میرے والدین میں شروع سے ہی جھگڑا ہوتا چلا آیا تھا لیکن اس میں زیادہ شدت نہیں ہوتی تھی لیکن بعد میں ان جھگڑوں میں بہت شدت آ گئی ، میں ان دنوں جوانی میں قدم رکھ رہی تھی ان جھگڑوں نے مجھے ٹین ڈپریشن اور احساس کمتری کا شکار بنا دیا –
سولہ سال کی عمر میں میں نے پارٹیز میں جانا شروع کر دیا ، سموکنگ اور ڈرنک شروع کر دی ،ان پارٹیز میں میں سیکس سے بھی واقف ہو گئی ، گھر کے لڑائی جھگڑے بڑھتے گئے اور زندگی سے سکون جاتا رہا ، والدین کے پاس ہمارے لئے وقت نہیں تھا وہ اپنی لائف میں بہت بزی تھے ، میں نے بھی اپنا زیادہ وقت پارٹیز میں گزارنا شروع کر دیا اور پھر ایک پارٹی سے میری سیکس لائف کا آغاز ہوا-
ہوا کچھ یوں کہ ایک دفعہ ایک لیٹ نائٹ پارٹی میں میرا ہمسائیہ بھی آیا ہوا تھا ، پارٹی میں وہ میرے ساتھ ساتھ تھا ہم نے ڈرنک کی ، اس کے بعد وہ مجھے ایک کمرے میں لے گیا ، اس نے روم لاک کیا اور ہم نے کسنگ شروع کر دی ، لذت نے ہمیں دنیا و مافیا سے بے خبر کر دیا اور پھر بہت کچھ ہوگیا۔ وہ یہ سب ریکارڈ کر رہا تھا ، اس نے مجھے بلیک میل کرنا شروع کر دیا ، ہر ماہ وہ مجھ سے ایک مخصوص رقم وصول کرتا اور ساتھ ساتھ مجھے اپنے دوستوں کو بھی پیش کرتا میں انکار کرتی تو وہ میری ویڈیو میرے والدین تک پہنچانے کی دھمکی دیتا تو مجھے اسکی بات ماننا پڑتی ، میں دن بدن بے حس ہوتی جا رہی تھی ، کچھ ماہ بعد میں ایک زندہ لاش بن کر رہ گئی تھی جسکی اپنی کوئی سوچ نہیں تھی۔
ایک دن مجھے پتا نہیں کیا ہوا میں نے اسے انکار کر دیا ، میں نے اسکی دھمکی کی بھی پروا نہیں کی ، اس نے میری سیکس ویڈیو میرے والدین کو دے دی اور میرے والدین نے مجھے گھر سے نکال دیا –
میں اسوقت گرایجویشن کر رہی تھی ، میرے پاس اب سر چھپانے کو کوئی ٹھکانہ نہ تھا مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ کہاں جاو¿ں ، میں بس چلتی جا رہی تھی میری کوئی منزل نہیں تھی ، خالی جیب اور زمانے کی ٹھوکریں انسان کو وہ سکھا دیتی ہیں جو کوئی استاد بھی نہیں سکھا سکتا -اس دوران میرے ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی اور میں اس کے ساتھ رہنے لگی ، وہ مجھے ایک وقت کھانا دیتا اور کبھی وہ بھی نہ دیتا ، مجھے بھوکا رہنا پڑتا ، زندگی میں پہلی دفعہ مجھے پتا چلا کہ بھوک کیا ہوتی ہے جس کے لئے مرد و زن ہر کام کرنے پہ کیوں آمادہ ہو جاتے ہیں ، ایک وقت کھانے کا معاوضہ وہ مجھ سے رات میں سیکس کی صورت میں وصول کرتا ، مجھے اس کے پاس رہتے ہوئے ایک مہینہ ہو چکا تھا ، ایک دن مجھے ایک آدمی ملا ، اس نے کہا
“وہ اسکی مدد کر سکتا ہے ، اگر تم چاہو تو میں تمہیں ایک آدمی کا بتا سکتا ہوں جو تمہیں تمہارے جسم کی معقول قیمت دلوا سکتا ہے ”
اس نے مجھے ایک آدمی کا ایڈریس دیا میں وہاں پہنچ گئی ، اور مجھے پہلی دفعہ اپنا جسم بیچنے کی قیمت پینتیس ڈالر ملی ، میں اٹھارہ سال کی عمر میں کال گرل بن گئی –
میں ایک کلب میں ڈانس بھی کرنے لگی اور ساتھ میں کال گرل والا کام بھی جاری رکھا ، آٹھ سال میں نے یہی دھندا جاری رکھا ،ابتدا میں میں بہت خوش تھی ، گفٹ بھی مل رہے تھے، جیولری ، کپڑے بھی مفت میں مل رہے تھے ، گھر سے نکلنے کے بعد خالی جیب ، بھوک اور زمانے کی ٹھوکروں نے مجھے پیسے کی اہمیت بتا دی تھی ،ایک دن کلب میں ایک امیر آدمی آیا میں اس وقت سٹیج پر ڈانس کر رہی تھی ، میں اس کو پسند آ گئی اور اس نے کلب کے مالک کو بہت ساری رقم دی اس شرط پر کہ میں اس سے اپنی مرضی سے سیکس کروں گا اور اسے میری ہر بات ماننا ہو گی ، میں اسکے ساتھ ایک روم میں آ گئی –
اس نے مجھے کہا کہ مجھے (رف سیکس ) جارحانہ سیکس پسند ہے ، میری کسی بات پہ تمہیں اعتراض نہیں ہونا چاہئیے اور اس نے مجھے ناچنے کا حکم دیا ، میں اس کے سامنے ناچنے لگی ، مجھے ناچتے دیکھ کر اسکی آنکھوں میں عجیب سی دیوانگی امڈ آئی اور وہ میرا ساتھ دینے لگا اور پھر اس نے ایک زوردار چٹکی لی ، میرے منہ سے ایک درد بھری سسکاری نکلی ، اس نے میری سسکاری سن کر ایک قہقہ لگایا اورپھر مجھے برہنہ کر دیا –
وہ اپنی بیلٹ میرے گلے میں ڈال کر مجھے کہنے لگا کہ کہو
“آئی ایم یور بچ ” (میں کتیا ہوں تمہاری )
میں نے کہا ” ہاں میں تیری کتیا ہوں ”
اس نے میری بہت انسلٹ کی لیکن میں اسے برداشت کرنے پر مجبور تھی ، کسٹمزر / گاہکوں کو خوش کرنے کے لئے یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے ، طوائفوں / کال گرلز کو معاشرے کا سب سے حقیر طبقہ گنا جاتا ہے لیکن یہ طوائف کا ہی کام ہے کہ معاشرے میں رہنے والے جنسی جنونیوں اور متشدد لوگوں کو سنبھال لیتی ہیں ورنہ تو معاشرے میں چھوٹے بچوں کا جنسی استحصال جیسے واقعات جو کبھی کبھار ہوتے ہیںمتواتر سے ہوا کریں ، میں صرف اتنا کہوں گی کہ کوئی بھی عورت خوشی سے طوائف بننا پسند نہیں کرتی بلکہ حالات اور معاشرہ اسے طوائف بنانے پر مجبور کر دیتے ہیں ،کچھ وقت گزرنے کے بعد اس نے مجھے اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا اور پھر میں نے ایک بیٹی کو جنم دیا ، ایک کال گرل اپنی بیٹی کی کیا اخلاقی تربیت کرتی ؟ میری بیٹی چار سال کی ہو گئی لیکن میں اسے صحیح سے ایک ماں کا پیار نہیں دے سکی ، میں اکثر اوپر والے سے دل ہی دل میں شکوہ کرتی اور اس سے لڑتی کہ اسے کس جرم کی سزا دے کر اسے میرے پاس بھیجا ؟ میں ایک آبرو باختہ عورت تھی میں اپنی بیٹی کو کیا سکھاتی ! میرا اوپر والے پر یقین ختم ہو چکا تھا ،
میں کال گرل کی زندگی سے تنگ آ چکی تھی اسلئے میں نے پورن انڈسٹری جوائن کرنے کا فیصلہ کیا ،
میں نے ایک ایسی فلم میچور فلم میں کام کیا جس پر لکھا ہوتا ہے ” صرف بالغان کے لئے ”
اس فلم میں میرے جسم کو بہت سراہا گیا اور جلد ہی مجھے مشہور ایکٹرز کے ساتھ پورن موویز میں کاسٹ کیا جانے لگا – اب میرے پاس پیسا بھی تھا اور شہرت بھی لیکن سکون ! سکون بالکل بھی نہیں تھا ، کام کرتے کرتے میں ایک زندہ لاش بن چکی تھی ، میں جذبات سے عاری ہو چکی تھی ، میں نے حد سے زیادہ شراب نوشی شروع کر دی تھی اور خواب آور گولیاں بھی استعمال کرنا شروع کر دیں تھی ،
چونکہ بنیادی طور پر میں اک شریف فیملی سے تھی اسلئے بعض دفعہ جسم بیچتے ہوئے مجھے خود سے گھن آتی اور میں سوچتی کہ میں یہ کس دھندا میں پڑ گئی ہوں ، اس سوچ نے مجھے ڈپریشن کا شکار کر دیا ، میں نے خود کو ایک زندہ لاش سمجھنا شروع کر دیا تھا ، پھر ایک دن ڈپریشن میں آ کر میں نے بہت زیادہ خواب آور گولیاں کھا کر خودکشی کی کوشش کی لیکن اوپر والے کو ابھی میری زندگی مقصود تھی اسلئے میں بچ گئی موت نے بھی مجھے دھتکار دیا تھا ، میں نے دوبارہ سے یہی زندگی شروع کر دی –
یہاں میں ایک بات بتا دوں کہ میں نے پورن موویز میں جو بھی پرفارم کیا صرف پیسے کے لئے کیا نا کہ سیکس کے لئے-ان فلمز میں جو بھی دکھایا جاتا ہے وہ سب جھوٹ ہوتا ہے ،ہم اسے پسند نہیں کرتی ہیں لیکن ہمیں پیسے کے لئے یہ کرنا پڑتا ہے – ہمیں نفرت ہوتی ہے بار بار بے عزت ہونے سے – کچھ ایکٹریس کو اس کام سے اتنی نفرت ہوتی ہے کہ ریکارڈنگ کے دوران بار بار وہ قے کرتی رہتی ہیں لیکن وہ ریکارڈنگ کروانے کے لئے مجبور ہوتی ہیں –
اس کے برعکس پورن موویز میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ پورن ایکٹریس یہ سب اپنی مرضی سے کر رہی ہے اور ان سب کاموں سے اسے رغبت ہے – پورن انڈسٹری آپ سے بڑی آسانی سے یہ منوا لیتی ہے کہ ہم ایکٹریس کو ڈی گریڈ ہونا ، بے عزت ہونا ، جارحانہ (رف) سیکس اور بی ڈی ایس ایم بہت پسند ہے لیکن اصل لائف میں ہمیں اس سے بہت نفرت ہوتی ہے –
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم نے کسی فلم میں ساٹھ فیصد کام کر لیا ہوتا ہے اور اگلا سین اس قدر دردناک ہوتا ہے تو ایکٹریس اسے پرفارم کرنے سے انکار کر دیتی ہے تو پرڈیوسر عملے سے کہتا ہے کہ اسے دھکے دے کر سیٹ سے باہر نکال دو اور ایک روپیہ بھی نہیں دیتا اسلئے ہمیں یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے – جس طرح کا سیکس فلمز میں دیکھایا جاتا ہے وہ بہت سی جنسی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جس میں ایچ آئی وی ایڈز سب سے اوپر ہے – میں بھی ایک بیماری کا شکار ہوئی تھی جو سیکس کی وجہ سے ہوتی ہے –
میری ایک دوست پورن ایکٹریس کو ایک ویب سائٹ نے اتنا ڈی گریڈ کیا کہ وہ اپنی ہی نظروں میں گر گئی اور ریکارڈنگ سے واپسی پر اس نے گھر آ کر خودکشی کر لی –
پورن انڈسٹری میں زیادہ تر مجبور اور بے بس لڑکیاں آتی ہیں جن کا معاشرے میں جنسی استحصال اور معاشرے کی دھتکاری ہوئی لڑکیاں آتی ہیں ، اپنی مرضی سے نہیں آتیں ، وہ اپنی معصومیت کی دھجیاں نہیں چاہتیں وہ بھی گڑیوں سے کھیلنا چاہتی ہیں کوئی بھی لڑکی یہ نہیں چاہے گی کہ وہ مختلف لوگوں کے ہاتھ استعمال ہو ،
ہم معاشرے کی ناپسندیدہ اور دھتکاری ہوئی لڑکیاں ہوتی ہیں ، ہمارے اندر بھی احساسات اور دل ہوتا ہے ہم ایسی زندگی سے نفرت کرتی ہیں اور اس دلدل سے نکلنا چاہتی ہیں اور ہمیں ایک مضبوط پناہ گاہ کی تلاش ہوتی ہے جو کہ صرف ایک مرد ہی ہمیں دے سکتا ہے ، میں مردوں سے التجا کرتی ہوں کہ ایسی عورتوں کو جو اس غلاظت سے نکلنا چاہتی ہیں انھیں اپنی بانہوں میں سمیت کر ایک صاف ستھری زندگی دیں -اینل سیکس بہت زیادہ نقصاندہ ہے اس کے نقصانات میں بہت اچھی طرح دیکھ چکی ہوں ، پورن فلمز میں جو کچھ ہوتا ہے وہ سب جھوٹ اور دکھاوا ہے ، اس پر یقین کرنا چھوڑ دیں اور اپنی اور اپنے پارٹنر کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے اپنی سیکس لائف کو انجوائے کریں ، زبردستی اور پورن موویز کی تقلید کرنا چھوڑ دیں اور اپنی ہنستی بستی زندگی کو خراب نہ کریں ورنہ آپ کو پچھتانے کا بھی موقع نہیں ملے گا –