کراچی

2018 ,اپریل 11



صوبہ سندھ کا مرکزی، صنعتی اور کاروباری شہر ہے پاکستان کا پہلا وفاقی دارالحکومت بنایا گیا اور آج پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی کاروباری اور پرہجوم شہر ہے۔ بحیرہ عرب کے کنارے پر آباد ہے جس کی وجہ سے ساحلی تجارت کا بہت بڑا مرکز ہے تمام بڑی بڑی عالمی کاروباری تنظیموں کے یہاں ہیڈ کوارٹر ہیں اس کی آبادی 1998ءکی مردم شماری کے مطابق 92,9265ہوگئی ہے اور اس طرح پاکستان کی کل آبادی کا یہاں 98%آباد ہے کراچی دراصل چھوٹے چھوٹے جزیروں ”بانا“ شمس پیر، کیماڑی اور منوڑہ وغیرہ کا مجموعہ ہے یہ تمام جزیرے ایک ایسی جھیل پر واقع تھے جو ایک قدرتی بندرگاہ تھی۔ 326قبل از مسیح میں سکندر اعظم شاہ یونان کے امیر البحر فیرکس نے یہاں پر پڑاو کیا تھا۔ یہاں کی سٹیل مل، کراچی پورٹ، کلفٹن، مزار قائد اعظم اور بیت الحکمت یونیورسٹی اس شہر کی عظمت کے نشان ہیں۔
گورنر ہاﺅس


اس عمارت کو آج کل ایوان صدر کہا جاتا ہے یہ برطانوی دور میںکراچی میں تعمیر ہونے والی پہلی عمارت تھی۔ یہ عبد اللہ ہارون روڈ پر ہولی ٹرنٹی چرچ کے سامنے واقع ہے یہ عمارت ایک کشادہ چہار دیواری کے وسط میں واقع ہے اس چہار دیواری میں وسیع باغات اور لان ہیں اس عمارت کو 1845ءمیں سندھ کے پہلے گورنر چارلس نیپر نے اپنی رہائش کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ یہ اس کی نجی ملکیت تھی۔ 1847ءمیں برطانوی حکومت نے اسے چارلس نیپئر سے 48000روپے میں خرید کر گورنر سندھ کی سرکاری رہائش کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ بعد میں مقرر ہونے والے تمام کمشنر سندھ اس میں رہائش پذیر رہے۔ اس عمارت کی پہلی منزل کمشنر سندھ جان جیکب کے زمانے میں تعمیر ہوئی تھی۔
یہ نہایت دلکش عمارت ہے اور اب تقریباً ڈیڑھ سو برس گذر جانے کے بعد بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بابائے قوم حضرت محمد علی جناح بھی اس میں بحیثیت گورنر جنرل پاکستان قیام پذیر ہے۔
ہوپ لاج
 یہ برطانوی دور میں تعمیر ہونے والی یورپی طرز تعمیر کی شاہکار پہلی عمارت تھی۔ یہ عمارت آج بھی اپنے اصل خدوخال میں ایوان صدر کے قریب مولانا دین محمد وفائی روڈ پر قائم ہے اس عمارت کا سنگ بنیاد 6ستمبر 1845ءکو چارلس نیپئر نے رکھا تھا۔ اس کی تعمیر کے بعد 24مئی 1846ءکو گورنر سندھ چالیس نیپئر ہی نے اس کا افتتاح کیا تھا یہ عمارت سو سال سے زیادہ عرصے تک یہودیوں کی بین الاقوامی تحریک فری میسن کی سرگرمیوں کا مرکز بنی رہی۔ شہر کے تمام با اثر مسلمان ہندو، عیسائی اس کے ممبر تھے فری میسن تحریک کی یہ شاخ ثقافتی پروگرام پیش کرکے یہودیوں کے مفادات کے لیے کام کرتی تھی۔
یہ عمارت اب ڈیڑھ سو سال گزر جانے کے بعد بھی نہایت خوبصورت اور پرکشش ہے آج کل اس میں حکومت سندھ کا وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ واقع ہے۔
فرئیر ہال
 یہ کراچی کی سب سے پرکشش عمارت ہے جو سابق کمشنر سندھ سرایچ بار ٹلے ای فرئیر کی سندھ میں خدمات کے اعتراف میں تعمیر کرائی گئی تھی۔ اس عمارت کی تعمیر کا آغاز 1863ءمیں ہوا تھا۔ اس کا نقشہ شاہی انجینئر کرنل کلیرولنکس نے تیار کیا تھا۔ اس کی تعمیر میں کوٹری کے زرد پتھر کے علاوہ جنگ شاہی کا سرخ اور بھورا پتھر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس عمارت کی تعمیر دو سال میں مکمل ہوئی تھی۔ 10اکتوبر 1865ءکو اس وقت کے کمشنر سندھ مسٹر سیموئیل مسفلیڈ نے اس کا افتتاح کیا تھا۔ اس عمارت کی تعمیر میں ایک لاکھ اسی ہزار روپے خرچ ہوئے تھے اس رقم میں سے 22,500روپے عوامی چندے کے ذریعے وصول ہوئے تھے جبکہ 10ہزار روپے حکومت نے مہیا کیے تھے اور بقیہ 1,47,500روپے کراچی میونسپلٹی نے فراہم کیے تھے اس عمارت کی تعمیر کے بعد اسے ٹاون ہال کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ الیگزینڈر ایف بیلی اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ابتداءمیں اس کے ہال کو ایک ناچ گھر کے طور پر استعمال کیا گیا تھا یہاں انگریز جوڑے موسیقی کی دھن پر ڈانس کرکے اپنا دل بہلاتے تھے۔اس 1867ءمیں جب بار ٹلے فریئیر گورنر بمبئی کی حیثیت سے کراچی آیا تھا تو اس نے اس عمارت میں ایک دبار منعقد کیا تھا اس کے بعد دسمبر 1869میں اس عمارت ہی میں ایک صنعتی نمائش بھی منعقد کی گئی تھی، جو برصغیر اور وسط ایشیا میں منعقد ہونے والی سب سے پہلی نمائش تھی اس نمائش میں برطانوی، ہندوستانی اور وسطی ایشیائی ممالک کے تاجر اور صنعت کار اپنی مصنوعات کی تشہیر کرنے اور انہیں فروخت کرنے کے لیے لائے تھے۔
اس عمارت کے اوپری دو کمروں میں 1871ءمیں جنرل لائبریری اور میوزیم قائم کیے گئے تھے۔ فرئیر ہال کا خوبصورت مینار زمین سے 144فٹ اونچا ہے یہ عمارت یونانی فن تعمیر کا بے مثال نمونہ ہے یہ ڈیڑھ صدی سے کراچی کی پہچان بنی ہوئی ہے۔
سندھ اسمبلی بلڈنگ


 سندھ کے بمبئی پریذیڈنسی سے علیحدگی کے بعد سندھ میں 1937ءمیں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے اور ان انتخابات کے نتیجے میں سندھ اسمبلی وجود میں آئی مگر چونکہ اس وقت تک اسمبلی کی اپنی کوئی عمارت نہیں تھی چنانچہ سندھ اسمبلی کے اجلاس جوڈنشیل کورٹ بلڈنگ، جسے اب ہائی کورٹ بلڈنگ کہتے ہیں میں منعقد ہوتے تھے جلد ہی حکومت سندھ نے سندھ اسمبلی بلڈنگ تعمیر کرانے کا فیصلہ کیا اور جوڈیشل کورٹ بلڈنگ کے سامنے ایک بڑے خالی قطعہ اراضی پر اس کی تعمیر کا آغاز کیا۔ اسمبلی بلڈنگ کی تعمیر کے بعد 04مارچ 1942ءکو گورنر سندھ سرھاگ دو نے اس کا افتتاح کیا۔ اس عمارت کی دو منزلیں ہیں یہ چونے کے پتھر سے تعمیر کی گئی ہے اس میں نہ صرف اسمبلی کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں بلکہ صوبائی وزراءکے دفاتر بھی واقع ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد اس عمارت کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے طو رپر بھی استعمال کیا گیا تھا اس عمارت میں 14اگست 1947ءکو لارڈ ماونٹ بیٹن نے قائد اعظم کو بحیثیت گورنر جنرل پاکستان اختیارات منتقل کیے تھے۔
سندھ ہائی کورٹ بلڈنگ


 یہ عظیم الشان خوبصورت عمارت کو رٹ روڈ پرانا نام کنگس وے اور اسٹریچن روڈ پرانا کوئنس وے کے سنگم پر واقع ہے یہ اپنے زمانے کے جدید فن تعمیر کا شاہکار ہے دہلی اور لاہور میں اس قسم کی کئی عمارتیں موجود ہیں یہ رومن طرز تعمیر کی عمارت 30لاکھ روپے کے خرچ سے 1929ءمیں تعمیر ہوئی تھی یہ جودھپور کے سرخ پتھر سے تعمیر ہوئی ہے۔ اس کی بنیاد اتنی اونچی ہے کہ اس کی ایک منزل زمین دوز ہے اس کی پہلی منزل تک پہنچنے کے لیے درجنوں سیڑھیوں پر چڑھنا پڑتا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ پہلی منزل پر واقع ہے یہ کراچی کی تمام پرانی عمارتوں میں سب سے زیادہ پروقار ہے۔ سندھ اسمبلی کی عمارت کی تعمیر سے قبل سندھ اسمبلی کے اجلاس اسی عمارت میں منعقد ہوتے تھے اس عمارت کی تعمیر 1923ءمیں شروع ہوئی تھی اور 22نومبر 1929ءکو اس کا گورنر بمبئی سرفریڈرک نے افتتاح کیا تھا۔
کراچی میونسپل کارپوریشن کی عمارت


 یہ پرشکوہ عمارت بند روڈ پر کراچی سٹی کورٹ سے متصل واقع ہے اس میں کراچی مٹیرو پولٹین کارپوریشن کا ہیڈ آفس اور اسی کے دیگر دفاتر قائم ہیں۔
اس عمارت کا نقشہ ایڈنبرا کے آرکیٹیکٹ مسٹر جیمز سی وائز نے تیا ر کیا تھا اس کا سنگ بنیاد 14دسمبر 1895ءکو گورنر بمبئی لارڈ سینڈہرمسٹ Lord Sandhustنے رکھا تھا اس کی بنیاد کا کام 1915ءمیں اور اس کا ڈھانچہ 05نومبر 1927ءکو مکمل ہوا تھا۔ اس عمارت کی تعمیر 31دسمبر 1931ءکو مکمل ہوچکی تھی اس کو مکمل ہونے میں 32برس لگ گئے تھے۔ جس کی وجہ فنڈ کی کم یابی تھی ویسے تو 6جنوری 1932ِءکو اس عمارت کی رسم افتتاح انجام پاچکی تھی مگر 1935ءمیں جارج پنجم کی سلور جوبلی سے اسے منسوب کرنے کے لیے اس کی رسم افتتاح کا سال 1935ءقرار دیا گیا تھا۔ اس کی تعمیر پر سترہ لاکھ پچھتر ہزار روپے صرف ہوئے تھے اس کی تعمیر کے نگران بلدیہ کے ایگزیکٹو انجینئر مسٹر جہانگیر این سٹیھنا تھے فورمین علی محمد امام بخش اور کنٹریکٹر نیرو کنسٹرکشن کمپنی تھی جس کا ہیڈ آفس بمبئی میں تھا اس کی تعمیر میں جودھپوری پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا طرز تعمیر یونانی ہندوستانی اور مصری فن تعمیر کا حسین شاہکار ہے اس عمارت کا ٹاور گنبد نما ہے جس پر ایک بڑی چار رخی گھڑی آویزاں ہے اسے برطانیہ کی ایک الیکٹراک کمپنی نے نصب کیا تھا۔ اس عمارت کی تمام برقی تنصیبات کا کام کراچی کی ایک الیکٹرک کمپنی میسرز اورنیٹیل جنرل انجینئرنگ نے انجام دیا تھا۔ اس کے ٹاور کی اونچائی 162فٹ ہے یہ شہر کے کئی علاقوں سے صاف نظر آتا ہے یہ عمارت اب 60سال سے زیادہ پرانی ہوچکی ہے مگر اس کی خوبصورتی میں ذرا بھی فرق نہیں آیا ہے یہ برصغیر میں انگریزوں کے دور میں تعمیر ہونے والی چند شاندار عمارات میں سے ایک ہے یہ عمارت کراچی کی شناخت ہے۔

(جاری ہے)

متعلقہ خبریں