میجر جمال شیران شہید،امن کی داستاں اپنے لہو سے لکھ گئے

2018 ,اپریل 26



لاہور(مہرماہ رپورٹ): مزاج میں انتہائی نفیس اور نرم مگر رزم حق وباطل میں فولاد کی طرح ثابت قدم رہنے والے میجر جمال شیران شہیدکی مادر وطن کے لئے بے پناہ خدمات ہیں ۔انہوں نے اپنی شہادت سے انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ شہید ہونے والے افسروں کی فوج پاک فوج کا سر فخر سے بلند کردیا ہے جو دہشت گردی کی جنگ میں جانوں کا نذرانہ دیکر اپنی قوم اور پوری دنیا کی دائمی خوشیوں کی حفاظت کرتے ہوئے واصل حق ہوئے ہیں ۔پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کی یہ قربانیاں پوری دنیا کے لئے پیغام چھوڑ رہی ہیں کہ پاکستانی فوج امن کا سورج طلوع کرکے ظلمت شب کے چراغ بجھا رہی اور اسکا پیام صبح شیر دل جوانوں کے لہو سے لکھاجارہا ہے ۔

پشاور میں خودکش بم دھماکے میں شہید ہونیوالے میجر جمال شیران کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربت سے تھا۔وہ 11نومبر1986ء کو تربت میں میر شیران کے ہاں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم تربت کے کیچ گرائمر اسکول سے حاصل کی۔ ریذیڈیشل کالج تربت سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جمال بلوچ نے مئی 2006میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی اور دو سالہ لانگ کورس مکمل کرنے کے بعد اپریل 2008میں کمیشن حاصل کیا۔ میجر جمال شیران بلوچ نے سیالکوٹ، راولپنڈی اورآزاد کشمیر میں پاک فوج کے مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دیں۔

آپریشن ضرب عضب کے دوران باجوڑ ،خیبر اور مہمند ایجنسی کے محاذوں پر دہشتگردوں کے خلاف بہادری سے لڑے۔ میجر جمال کی دو سال قبل فرنٹیئر کور خیبرپختونخوا میں تعیناتی ہوئی یہاں بھی انہوں نے آپریشن ضرب عضب کی طرح آپریشن رد الفساد میں بھر پور حصہ لیا۔ایف سی کے پی کے میں اسپیشل آپریشن گروپ کے آفیسر کمانڈنگ کے طور پر دہشتگردوں کے خلاف کئی کامیاب کارروائیاں کیں۔

میجر جمال نے سترہ جولائی پیر کی صبح وطن کے دفاع کے راہ میں جام شہادت نوش کیا۔ 31سالہ میجر جمال کی سات ماہ قبل ہی شادی ہوئی تھی۔ شہید کے والد میر شیران مسقط آرمی سے ریٹائرڈ آفیسر ہیں اور انجمن تاجران تربت کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ ہروالد کی طرح وہ بھی اپنا بیٹا کھونے پر غمزدہ ہیں لیکن وہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں ایک شہید کے باپ کا درجہ دیا ہے۔اپنے جوانوں کی شہادت پر یہ تفاخر پاک فوج کا سرمایہ جو قوم نے اسکو عطا کیا ہے۔

متعلقہ خبریں