مجھے خوف آتش ِگل سے ہے…

2018 ,جولائی 23



قومی وسائل کسی کی دسترس میں ہو سکتے ہیں۔ انسان تک کسی کی دستبرد میں ہو سکتے ہیں۔ لاتعداد و بے شمار جائیداد اورنامور قبیلہ، بڑاکنبہ میراث ہو سکتا ہے مگر دانش و حکمت کسی کی میراث نہیں۔ دانشور اور عقل مند کا کوئی خصوصی لباس نہیں ہوتا۔ ساغر صدیقی روڑی میں رُلتا ہوا روبی (ہیرا) تھا۔ ساغر جیسے لی جنڈز کے خیالات چُرا کر کئی نابکار و ناہنجار بڑا شاعر کوشش کرتے ہیںاور کبھی تو اپنی فریب کاری و مکاری سے کامیاب ہو کر کسی حسین ہاتھ کا کنگن اور کسی کی آئی ہوئی آنکھوں کا چندن بن جاتے ہیں مگر فریب اورفردا کب چھپتا اور کب تک چھپتا ہے۔ دانش اور دانشور ہر جگہ موجود ہیں۔ علامہ اقبال، فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کی طرح محلات میں رہتے ہیں تو جالب کی طرح بے در کے گھر میں بھی بستے اور ساغر صدیقی کی طرح کے بھی ہیں جن کی آسمان چھت اور زمیں بستر ہے۔ گزشتہ دنوں جوہر ٹائون میں آئی ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا۔ صبح سات ساڑھے سات کا وقت اور میرے پاس فرصت کے کچھ لمحات تھے۔ اس دوران ہسپتال کے ساتھ فاطمۃ الزہرہ پارک میں چلا گیا۔ جہاں اٹھارہ بیس دانشورواک کے بعد بیٹھے پُرجوش گفتگو کر رہے تھے۔ موضوعِ سخن ، سیاست اور سیاستدان تھے۔ میں بھی ایک بنچ کی سائیڈ پر بیٹھ گیا۔ ایک اجنبی کا اکثردیدہ ور حضرات نے غیرمحسوس انداز نوٹس لیامگر اظہار اور استفسار نہیں کیا۔ 
عمران خان کی توصیف کے ساتھ انکی سیاست اور الیکٹ ایبلز پر فدا ہونے کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا تھا۔ ایک صاحب نے ذوالفقار چیمہ کی مثال دی کہ وہ جہاں بھی گئے اچھی داستان چھوڑ آئے۔ پاسپورٹ کے پی پی پی حکومت کے گرمائے ہوئے بحران کو ’’چٹکی بجاتے ہوئے‘‘ ختم کیا کہ یوں! سخت گیر افسر ہو تو نیچے تک سب ٹھیک ہو جاتے ہیں ۔ عمران وزیراعظم ہونگے تو نیچے تک کرپشن اور بدعنوانی کے طوفان اور داستانیں وہیں رُک جائیں گی۔ اس نظریے اور فلسفے سے اجتماعِ عام پورے کا پورا متفق نہیں تھا۔ ایک صاحب نے کہا سرکاری ملازموں، پولیس کو سیدھا کیا جا سکتا ہے مگر سیاستدانوں کو نہیں۔ ان دانشوروں کی کسی سیاسی پارٹی کیلئے حمایت اور ہمدردی میں یکسانیت نہیں ،رائے معلق تھی۔ پی ٹی آئی کے نظریات کی حمایت و مخالفت یکساں تھی۔ مسلم لیگ ن کی حمایت میں دانیال و طلال جیسی گرم جوشی نہیں تھی۔ حامیانِ شریف کو نوازشریف اور انکی اولاد کی طرف سے ایون فیلڈ ہائوسز کی ملکیت کے اعتراف پر گلا اور ٹریل نہ دینے پر افسوس تھا۔ ان کیخلاف فیصلوں پر عدم اطمینان کی بات سننے میں نہیں آئی۔ شرکاء میں شاید کچھ ریٹائرڈ اور حاضر سروس ملازمین بھی تھے۔ ہر کسی نے سلجھے اور شستہ لہجے میں بات کی تاہم ایک صاحب تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک آدھ فقرے میںطلال ، رانا ثناء اللہ اور شیخ رشید کے لہجے سے پارلیمان کی یاد تازہ کر دیتے۔ 
ایک صاحب نے چودھری غفور کے پارٹی مخالف ہونے کی وجہ ٹکٹ نہ ملنا بیان کی اور انکے حوالے سے پوری سٹوری سُنا دی جس میں ہماری سیاست کی ’’روشن تاریخ‘ روزروشن کی طرح عیاں ہوتی ہے۔ انکے مطابق، چودھری غفور موت کے کنویں میںناچتے تھے۔ انکے والد کی میاں شریف سے علیک سلیک تھی۔ 1991ء میں وہ کونسلراور ن لیگ کے توسط سے سیاست کا کل پرزہ بنے۔ یہ قصہ سنانے والے خود لیبر کونسلر تھے۔ چیئرمین کیلئے دو گروپ بن گئے۔ ایک میں 19 دوسرے میں 14 ارکان تھے۔ دونوں کا تعلق ایک ہی پارٹی سے تھا۔ چھوٹے میاں کے حکم پر بڑے گروپ کو بلایا گیا۔ جہاں پہنچے وہاں لگژری کوچ کھڑی تھی۔ تھوڑی دیر میں حکم آگیا کہ ان کو کوچ میں چھانگا مانگا ریسٹ ہائوس چھوڑ آئیں۔ یہ لوگ اگلے روز چیئرمین کے 14 ارکان کے ذریعے انتخاب ہونے تک وہیں رہے۔پرا نے زمانے کی داستان ہے اتنی پرانی کہ 2013 ء کے الیکشن میں دو اڑھائی سال رہتے تھے جس کے راوی ہمارے دوست چھانگا مانگا والے فاروق بھٹی ہیں۔ نوجوان نیا نیا اے سی بن کر چنیوٹ گیا تو حکم آیا۔ایک وزیر سرکٹ ہائوس آرہے ہیں‘ مالشیا چاہئے۔ صبح صبح اور اے سی کو بھی نیا مالشیا نہ مل سکا۔ اے سی صاحب وزیر کے پاس معذرت کیلئے گئے۔ وزیر نے کہا‘ آپ ناشتے کا بندوبست کریں مالشیے کا ہم خود کر لیں گے اس کیلئے ایک ہزار روپیہ دیدیں۔
ایک صاحب نے پاکستان کی معیشت پر بھرپور تبصرہ کیا۔ شاید ٹاک شو دیکھا جو ازبر تھا مگر انکی گفتگو ہوشربا اور دلکشا تھی۔ وہ عمران خان سے معیشت کی درستی کی امید کا اظہار کر رہے تھے۔ انکی باتیں جو مجھے یاد رہ گئیں ملاحظہ فرمائیں :
’’پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، قوم کے سب بڑے ہمدرد ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز تھے۔ سپریم کورٹ نے انکے سوئس اکائونٹس میں موجود 6 بلین ڈالر واپس لانے کیلئے پورا زور لگا دیا مگر صدر پاکستان کا یہ رقم اپنے وطن نہ لانے کا عزم بڑھتا گیا‘ یوں یوں دباؤ بڑھا یہاں تک کہ انکے عظیم مشن اور عظیم تر عزم وارادے کی نذر ان کا وزیراعظم ہو گیا مگر 60 کروڑ ڈالر کو ہوا تک نہ لگی۔ مسلم لیگ حکومت میں آئی تو اس پر انکشاف ہوا جس سے اس نے قوم کو آگاہ کیا کہ پاکستانیوں کے 2سو ارب روپے سوئس اکائونٹس میں چھپائے گئے ہیں۔ اسکے ساتھ ہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دو سو ارب ڈالر پاکستان لانے کا پرچم بلند کردیا۔ اس وقت پاکستان پر قرضوں کا حجم شاید اسی ارب ڈالر تھا۔ اب 91ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ آج ہر پاکستانی نوزائیدہ بچے سے راجہ ظفر الحق جیسے مردان جہاندیدہ تک ایک لاکھ 40ہزار روپے کا مقروض ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت آصف زرداری کے سوئس اکائونٹس میں پڑے 60کروڑ ڈالر سمیت ان سے لوٹ مار کی پائی پائی وصول کرکے قومی خزانے میں لانے اور بونس میں سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کر چکی تھی۔ 2سو ارب ڈالر کے سامنے گو ساٹھ کروڑ ڈالر کی زیادہ اہمیت نہیں مگر اس کودو سوارب ڈالر سے الگ کرکے اور اس طبقے جسے پینے کا صاف پانی اور بیماریوں میں ڈاکٹر و دوا میسر نہیں ، کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تویہ بہت بڑی رقم ہے ۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے ’’چاروں شانے‘‘ پرجوش ہو کر 2سو ارب روپے کی وطن واپسی کیلئے کوششیں شروع کر دیں۔ ایف بی آر کے چیئرمین جو آج گورنر اسٹیٹ بینک ہیں۔ طارق باجوہ کی سربراہی میں ماہرین کی ٹیم تشکیل دی۔ باجوہ صاحب پاکستان سے لوٹ کر سوئس اکائونٹس میں جمع کرائے200 ارب ڈالر پاکستان لانے کیلئے اتنے پرجوش نظر آئے کہ پورے نہیں آدھے ڈالر تو واپسی پر ساتھ لے ہی آئینگے۔ انکی ٹیم کے ساتھ سوئٹزر لینڈ کی ٹکٹیں بک کروا لی گئیں مگرباجوہ صاحب گئے نہیں تاہم جونیئر مگر ماہر افسروں کی ٹیم روانہ کردی۔ ان ماہرین نے سوئٹزر لینڈ میں بڑی چابکدستی سے پاکستان کا کیس لڑا۔ امریکہ اور کچھ یورپی ممالک کا بھی دبائو تھا جس پر سوئس حکومت لوٹ مار کی رقوم کے بارے میں معلومات فراہم کرنے اور واپسی پر آمادہ ہو گئی۔ اس ملاقات میں سوئس حکام نے باور کرایا کہ ہم دو سو ارب ڈالرپاکستان کو دینے پر تیار ہیں۔ پاکستان اسکے بدلے میں کیا دیگا۔ پاکستانی حکام نے کہا آپ بتائیں کیا چاہتے ہیں؟ ہمارے ماہرین کے ذہن میں شاید کمشن کی کلبلاہٹ ہو۔ احسان بٹالوی نوے کی دہائی میں ایک اوورسیز پاکستانی کو مری میں وزیراعظم کے پاس لے گئے۔ یہ محب وطن پاکستان کا قرضے اتارنے پر تیار تھا۔بلینک چیک جیب میں تھا۔ وزیراعظم نے اسکی بات دھیان سے سنی اور ایک فقرے میں اس اسکی خوشی کا فور اور خوش فہمی دورکردی۔ فرمایا’’ ہمیں کیا ملے گا،الحمدللہ‘‘۔
دو سو ارب ڈالر کی واپسی کیلئے سوئس حکام نے دو شرائط رکھیں۔ ایک پاکستان سوئٹزر لینڈ کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دے۔ دوسرا درآمدی برآمدی ٹیکس کو دس سے پانچ فیصد کر دے‘‘ اس پر پاکستانی حکام خوشی سے اچھل پڑے ۔ پاکستان واپس آئے ، اعلیٰ حکام کو رپورٹ پیش کی شاید ان میں سے بھی کئی کی دوسوارب ڈالر میں رقم تھی۔ انہوں نے کہا دس سے پانچ فیصد ڈیوٹی کیوں کریں، اس چھوٹے سے ملک کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دینے کی بھی ضرورت نہیں‘‘ ایف بی آر کے اس وقت کے چیئرمین سے پوچھا گیا کہ آپ سوئٹزر لینڈ جانے پر تیار تھے پھر کیا ہوا ۔ان دلائل سے ’’معمور اور بھرپور‘‘ جواب تھا ان دنوں عمران کے دھرنے جاری تھے۔ انکی گاڑی اور وہ خود دفتر سے نکل نہیں سکتے تھے۔۔۔۔ مگر انکی جگہ جانے والے کیسے نکل کر ایئرپورٹ پہنچے :۔

میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا غم نہیں
مجھے خوف آتش گل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے

متعلقہ خبریں