امیر تیمور لنگ: ایک بے مثال مسلمان فاتح کی زندگی کے چند یادگار واقعات

2018 ,اپریل 19



لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)دنیا کے عظیم ترین فاتحین میں سکندراعظم، جولیس سیزر، ہنی بال، بسمارک، ہٹلر، بایزید یلدرم، چنگیزخان، صلاح الدین ایوبی اور امیر تیمور لنگ شمار کیے جاتے ہیں لیکن جب حقائق اور فتوحات کے پیش نظر جائزہ لیا جائے تو ان تمام میں امیر تیمور منفرد فاتح قرار پاتا ہے کیونکہ سکندراعظم اور چنگیز خان کو اپنے سے کم تر طاقتوں سے مقابلہ کرنا پڑا تھا جبکہ امیر تیمور نے اپنے سے کئی گنا بڑی فوجوں اور مملکتوں کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ اس کی تقریباً ساری عمر جنگی مہمات میں گزری۔ اس کے دور میں چھ بڑی طاقتیں دنیا پر راج کر رہی تھی۔ منگولوں کی سلطنت، عظیم ترک سلطنت، مصر کے مملوک، چین کی سلطنت، سلطنت دہلی اور بغداد کے مسلم حکمران۔ ان میں سے پانچ بڑی قوتوں کو تیمور لنگ نے شکست دی اور عالم پر حکمرانی کے دیرینہ خواب کی تکمیل کے لیے چین کی جانب روانہ ہوا لیکن موت نے بھی تعاقب جاری رکھا اور حدود چین میں اس کی روح قبض کر لی گئی۔ فروری 1405ء کو وہ چین کے ایک دریا کے کنارے شدید سردی کے عالم میں سکتے کی حالت میں اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اس عظیم فاتح کا جسد خاکی جب سمرقند لایا گیا تو اس پر شہر کے دروازے اختلافات کے باعث وارثوں اور تخت کے دعویداروں نے بند کروا دیئے تھے۔ تاریخ کا یہ کیسا انوکھا انتقام اور تضاد تھا جو دعوت فکر دیتا ہے۔ تیمور کے خاندان کا دعویٰ تھا کہ وہ چنگیز خان کی اولاد سے تعلق رکھتا ہے۔

تیمور اپریل 1336ء میں جس جگہ پیدا ہوا اسے کش کہتے ہیں جو اب ازبکستان میں واقع ہے۔ اس کا تعلق حکمران خاندان سے تھا۔ تیمور بچپن ہی سے ذہین، شجاع اور دلیر تھا۔ اس کی تعلیم واجبی سی تھی لیکن تربیت اور فنون سپاہ گری میں وہ حد درجہ ماہر تھا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ تیمور خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ تھا۔ اس نے مقبوضہ علاقوں میں قتل عام کے بھی احکامات دیے۔ امیر تیمور تیموری سلطنت کا بانی اور تاریخ عالم کا ایک عظیم جنگجو حکمران تھا۔ اس کے استاد علی بیگ نے تیمور کے والد کو بلا کر کہا تھا کہ اس بچے کی قدر جان، یہ نا صرف ذہین اور دوسرے بچوں سے بہت آگے ہے بلکہ اس میں ناقابل یقین صلاحیتیں ہیں۔ تیمور نے تین سال میں قرآن حفظ کر لیا تھا گویا صرف دس سال کی عمر میں وہ قرآن حافظ بن چکا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق تیمور نے اپنی زندگی میں 42 ملک یا علاقے فتح کیے۔ بلخ میں تخت نشین ہونے کے بعد تیمور نے ان تمام علاقوں اور ملکوں پر قبضہ کرنا اپنا حق اور مقصد قرار دیا جن پر چنگیز خان کی اولاد حکومت کرتی تھی کیونکہ وہ بھی اسی کی اولاد ہونے کا دعویدار تھا۔

اس غرض سے اس نے فتوحات اور لشکر کشی کے ایسے سلسلے کا آغاز کیا جو اس کی موت تک تقریباً 37 سال جاری رہا۔ تیمور کے ابتدائی چند سال چغتائی سلطنت کے باقی ماندہ حصوں پر قبضہ کرنے میں صرف ہو گئے۔ وہ کاشغر اور خوارزم پر قابض ہوا۔ اس کے بعد اس نے خراسان کا رخ کیا۔ ہرات کے حاکموں کو اطاعت پر مجبور کیا۔ اگلے سال نیشاپور اور اس کے نواح پر اور پھر قندھار اور سیستان پر قبضہ کیا۔ پھر اس نے ایران کی مہم کا آغاز کیا۔ اس کے بعد میں دہلی پہنچا۔ دہلی کو فتح کرنے کے بعد وہ میرٹھ گیا۔ 1399ء میں تیمور سمرقند سے اپنی آخری اور طویل ترین مہم پر روانہ ہوا۔ تبریز پہنچ کر اس نے سلطان مصر کے پاس سفیر بھیجے جن کو قتل کر دیا گیا چنانچہ تیمور سلطان مصر کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا۔ حلب، حماہ، حمص اور بعلبک فتح کرتا ہوا دمشق پہنچا ۔ اس کے بعد وہ بغداد آیا ۔ اس نے سلطنت عثمانیہ پر لشکر کشی کردی۔ بایزید اس وقت قسطنطنیہ (استنبول) کے محاصرے میں مصروف تھا۔ تیمور کے حملے کی اطلاع ملی تو محاصرہ اٹھا کر فوراً اناطولیہ کی طرف روانہ ہوا۔

انقرہ کے قریب جولائی 1402ء کو دونوں کے درمیان فیصلہ کن جنگ ہوئی جو جنگ انقرہ کے نام سے مشہور ہے۔ بایزید کو شکست ہوئی اور وہ گرفتار کر لیا گیا لیکن تیمور اس کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آیا۔ سمرقند واپس آنے کے بعد تیمور نے چین پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ سردیاں شباب پر تھیں اور تیمور بوڑھا تھا۔ دریا کو پار کرکے جو منجمد ہوچکا تھا جب وہ دوسری طرف پہنچا تو سردی کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہو گئی اور اسی جگہ 1405ء کو اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کی لاش سمرقند لاکر دفنائی گئی۔ فتوحات کی وسعت کے لحاظ سے تیمور کا شمار سکندر اعظم اور چنگیز خان کے ساتھ دنیا کے تین سب سے بڑے فاتح سپہ سالاروں میں ہوتا ہے۔ تیمور کی بحیثیت ایک سپہ سالار حیرت انگیز صلاحیتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس نے اس خداداد صلاحیت سے جو کام لیا اس پر تنقید بھی ہوتی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا مقصد ذاتی شہرت اور ناموری تھا۔ 

متعلقہ خبریں