حضرت زینبؓ، امام حسینؓ کے ساتھ

لاہور(مہرماہ رپورٹ): عبدمناف کے دو بیٹے تھے، ہاشم اور شمس، ہاشم کے بیٹے عبدالمطلب تھے۔ شمس کا بیٹا اُمیہ تھا۔ عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عبداللہ اور حضرت ابوطالب تھے۔ حضرت عبداللہ کے فرزند دل بند ہمارے حضور پاک حضرت محمدؐ تھے۔ حضرت محمدؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے بیٹے حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ تھے۔ دوسری طرف اُمیہ کا بیٹا حرب تھا۔ حرب کا بیٹا ابوسفیان، ابوسفیان کا بیٹا امیر معاویہ اور ان کا بیٹا یزید تھا۔
یہ سطریں زاہدہ تسلیم کی کتاب ’’زینبؓ، امام حسینؓ کے ساتھ‘‘ سے لی گئی ہیں جس میں کربلا میں ان دو عظیم کرداروں کی عظمت و فضیلت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب عائشہ للبات194 ای بی عارف والا سے دستیاب ہے۔
کتاب میں دو شجروں کا جائزہ لیا گیا ہے ایک بنی ہاشم ہے جب کہ دوسرا بنی امیہ ہے۔ کربلا میں ہاشمی خاندان کو شہید کرنے والا اُمیہ خاندان کا فرد یزید تھا۔
کتاب میں علامہ ذہبی کے حوالے سے لکھا گیا ہے جس نے بھی حضرت زینبؓ اور حضرت امام حسینؓ کی سیرت کو اپنی کتاب کی زینت بنایا۔ اس نے اہل بیت رسولؐ کی عزت اور عظمت کو چار چاند لگا دیئے۔ امام ابن تیمیہ نے فرمایا ہے۔ اہل بیت رسولؐ سے محبت فرض ہے جس پر اللہ کی طرف سے اجر ملے گا۔
کتاب میں یہ بھی بات اجاگر کی گئی ہے۔ اسلام میں کربلا کے ذریعے داخل ہونے کے ہزاروں راستے ہیں لیکن اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔اسلام میں شہادت کا بڑا اعزاز ہے۔ اگر امام حسینؓ اور جناب زینبؓ کربلا میں اپنے خاندان کی قربانی نہ دیتے تو شاید تاریخ عالم میں کوئی شخص ظلم وبرائی کے خلاف کھڑا ہونے کی جرات نہ کرتا۔ بہن بھائی نے یہ عالمگیر حقیقت زمانوں کو سمجھا دی کہ دنیا کی ہر شکست عارضی ہوتی ہے۔حق اور سچ کو مستقل حیثیت حاصل ہے،ظلم کے خلاف خاموشی ظالم کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے۔
تذکرہ خلفائے امیر ملتؒ
امیر ملت حضرت پیر جماعت علی شاہ نے اپنے خلفا اور مریدوں کی ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جس نے اپنے شیخ مکرم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مذہب وملت کی خدمت کا بیڑا اٹھایا،ہر قسم کی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر خدمت دین و خلق کو اپنا شعار بنایا، اگر کوئی چیز سدراہ نبی تو اس سے ٹکرا گئے۔ مصائب و مواقع کے پہاڑوں کو پاش پاش کر دیا اور ہر اس ہاتھ کو قلم کر دیا جو دین حنیف کے خلاف اٹھا۔‘‘
یہ سطور صادق قصوری کی تالیف تذکرہ خلفائے امیر ملت سے لی گئیں ہیں۔ اس کے ناشر چودھری عبدالحمید قادری ہیں، کتاب قادری رضوی کتب خانہ/مکتبہ حنفیہ گنج بخش روڈ لاہور سے دستیاب ہے۔ کتاب کا انتساب آفتاب ہند امام ربانی مجدد الف ثانی کے نام کیا گیا ہے۔
کتاب ابوالحسین عرفان الہی نے اپنی رائے میں لکھا ہے، امیر ملت شخصیت نہیں ایک تحریک تھے۔ آپ کے خلفائے بلند مقام کے تذکرے کے بغیر سلسلہ نقشبندیہ کا نصاب مکمل نہیں ہوتا۔ زیر نگاہ مجموعہ عشق ومحبت کتاب میں امیر ملت کے عظیم خلفاء کا تذکرہ صوفی صادق قصوری نے بڑے کیف وجذب سے کیا ہے۔
دین مصطفوی کو جہاں ضرورت پڑی امیر ملت کے مرید نمایاں نظر آئے مریدوں کو مرشد سے ایسی تربیت ملی کہ وہ انسان کامل بن گئے۔ ولی کامل کی صحبت انسان کو بہت جلدراہ حق سے روشناس کرا د دیتی ہے یہی وصف امیر ملت میں تھا کہ انہوں نے اپنے خلفا اور مریدوں کو حق کی راہ کا راہی بنا دیا۔
اردو کالج کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد ایوب قادری رقمطراز ہیں کہ برصغیر میں قادریہ اور نقشبندیہ سلسلوںکا اجراء مغلیہ دورِ حکومت میں ہوا،نقشبندیہ سلسلے گلِ سر سبد حضرت مجدد الف ثانی شیخ سرہندی ہیں جن کی استقامت نے اکبری فتنوں کا قلع قمع کیا اور ایوان جہانگیری میں کلمہ حق بلند کیا اور دارو رسن کو لبیک کہا۔
کتاب پر غلام مصطفیٰ خان نے اپنے اظہار خیال میںلکھا ہے اس کتاب میں تصوف کو دین قرار دیا ہے۔ جس نے ملک کے طول وعرض کے لوگوں کو ایک مرکز پر قائم کرکے ان میں اتحاد ِ ملی اور اتفاق ِ قومی کا جذبہ پیدا کیا یہی وجہ ہے نقشبندیہ سلسلہ کے بزرگوں کا یہ حال ہے۔
بر انداز رہ پنہاں بہ حرم قافلہ را