سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو تو سب جانتے ہیں مگر کیا آپ جانتے ہیں ان کے بھائی کون اور سعودیہ میں کیا کام کرتے ہیں؟ حقیقت جان کر آپ کو حیرت کا جھٹکا لگے گا

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب نے شہزادہ خالد بن سلمان کی جگہ شہزادی ریمابنت بندر بن سلطان کو امریکہ میں سفیر تعینات کر دیا ہے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ہواہے کہ ریاض کی جانب سے کسی خاتون کو سفیر مقرر کیا گیاہے ۔ ریمابنت بندر بن سلطان سے قبل امریکہ میں سعودی ولی عہد ولی عہد محمد بن سلمان کے بھائی خالد بن سلمان سفیر تعینات تھے جنہیں اب سعودی عرب کا نائب وزیر دفاع بنا دیا گیا ہے ۔یاد رہے کہ 17 اور 18 فروری کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ کیا جہاں ان کا تاریخی استقبال کیا گیا اور انہوں نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے اعلانات بھی کیے جبکہ انہوں نے پاکستان کو اپنا دوسرا گھر بھی قرار دیا ۔ جبکہ دوسری جانب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر ہیں۔ وہ پاکستانی معیشت میں تاریخی سعودی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ان کا پاکستان کا دوسرا دورہ ہے جو دو برادر ملکوں کے درمیان تعلقات میں ایک نیا معاشی باب رقم کرے گا کیونکہ دونوں ممالک ہمیشہ مذہبی، ثقافتی اور سماجی اقدار پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔ پاکستان ایک عظیم قوم ہے۔میں نے یہاں 2001ء سے 2009ء تک بطورسعودی سفیر کے خدمات انجام دیں ۔میں اس بات کا گواہ ہوں کہ نائن الیون کے بعد پاکستان نے دہشتگردی کے خلا ف جنگ میںپیدا ہونے والی آزمائشوں اور سر اٹھانے والے فتنوں کا کس طرح سے مقابلہ کیا ہے۔ میرے اسلام آباد کے حالیہ دور میںمجھے یہ جاننے کا موقع ملا کہ 20کروڑ کی آبادی والے اس ملک نے انتہائی کامیابی سے دہشت گردی کا سامنا کیا اور انتہا پسندی کے خلاف مؤثر کارروائی کی۔سعودی عرب دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے مذہبی طور پر خاص اہمیت رکھتا ہے لیکن اس دائمی مذہبی رابطے کے علاوہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان باہمی محبت اور احترام کے رشتے کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔میںنے لبنان میں (2009-16) بھی بطورسعودی سفیر خدمات انجام دی ہیں اور جب میں نے سفارتکاری سے ریٹائرمنٹ لی تب سے اب تک جب بھی میں اپنے سفر کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے اسلام آباد میں گزارا اپنا وقت بہت یاد آتا ہے، خاص طور پر وہ جو نہ ختم ہونے والا میرا تعلق پاکستانی دوستوں سے ہے وہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ لہذا ایک دہائی کے بعد اس عظیم ملک میں واپس آ نے پر میرا جس گرم جوشی سے استقبال کیا گیا ایسا لگا جیسے میں اپنے گھر واپس آگیا ہوں۔ میں ریاض نژاد بین الاقوامی ادارہ برائے ایرانی مطالعہ کے ایک وفد کا حصہ تھا جو نہ صرف مختلف پاکستانی تھنک ٹینکس کے ساتھ رابطے میں تھا بلکہ اسکاپبلک سیکٹر یونیورسٹی کے ساتھ معاہدہ بھی تھا۔اس دوران سعودیہ کے پڑھے لکھے طبقے اور ریاستی حکام کو اندازہ ہوا کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی،جنوبی تجارتی کوریڈورزکے جغرافیائی محل وقوع میں پاکستان کی اہمیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسکی اہمیت کا اندازہ انہیں اس وقت ہوا جب پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ’’ سی پیک‘‘ عمل میں آیا۔