سندھیلہ کی بھوک ہڑتال

شیخوپورہ کے ایم پی اے عارف خان سندھیلہ نے اپنے قائد میاں نواز شریف کے کہنے پر بھوک ہڑتال ختم کر دی۔ مریم نواز نے بھی ہڑتال ختم کرنے کا ٹویٹ کیا تھا۔ میاں نواز شریف کو پارٹی صدارت سے نااہل کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عارف سندھیلہ نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے تاحیات بھوک ہڑتال کا اعلان کر کے فٹ پاتھ پر کیمپ لگا لیا تھا۔ ان کی دوسرے ہی روز طبیعت بگڑ گئی اور ڈرپس لگنا شروع ہو گئیں۔ ان کی مقامی ایم این اے کے ساتھ نہیں بنتی۔ انہی ایم این اے کے بھائی ضلع کونسل کے سربراہ ہیں۔ عارف سندھیلہ کے بقول انہوں نے بھوک ہڑتالی کیمپ کے گرد بھبکے چھوڑ کچرے کے ڈھیر پھنکوا دیئے۔
انتخابی مہم ء2013 کے دوران میاں نواز شریف شیخوپورہ گئے جہاں انہوں نے عارف سندھیلہ کو سٹیج پر بلوا کر ان کا ہاتھ بلند کر دیا۔ جلسے کے بعد یہ مخالفین کے ہتھے چڑھے اور ڈاکٹرز ہسپتال لاہور میں جا کر ہوش آیا۔ میاں نواز شریف بیمار پرسی کے لئے ہسپتال بنفس نفیس آئے تھے۔ اب انہوں نے لگاتار آٹھ روز بھوک ہڑتال کی۔ جیل میں دن اور رات الگ الگ گنے جاتے ہیں اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کی ہڑتال سولہ دن بنتی ہے۔ موصوف شوگر کے مریض بھی ہیں، 16 دن کہ جن کے نصف آٹھ دن ہوتے ہیں بھوکے پیاسے رہے‘ تیسرے دن ان کی طرف سے معصوم سی خواہش کا اظہار سامنے آیا کہ ان کو مریم نواز آ کے ہڑتال سے اٹھائیں۔ انہوں نے کسی پچھلے دور میں بھی بھوک ہڑتال کی تھی جو میاں نواز شریف نے ماڈل ٹاؤن کے گھر میں بلوا کر ہونٹوں کو دودھ کا گلاس لگا کر ختم کرائی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف ہڑتال کرنے کی اپیل نہ کرتے تو وہ بدستور بھوک ہڑتال جاری رکھتے۔ یہ اپیل ان کے لئے حکم کا درجہ رکھتی تھی۔
جمعرات یکم مارچ کو پنجاب اسمبلی میں نہال ہاشمی کی نااہلی سے خالی ہونے والی سینٹ کی سیٹ پر اسد اشرف مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے۔ عارف سندھیلہ ڈی ایچ کیو ہسپتال شیخوپورہ سے ایمبولینس میں ووٹ ڈالنے آئے تھے نہایت کمزوری‘ بیماری کے باعث ہسپتال داخل ہوئے اور ایمبولینس میں ڈرپس سمیت اسمبلی آنا میں شاید کچھ زیب داستاں کے لئے بھی ہو۔
عارف خان سندھیلہ کا شمار میاں نواز شریف کے ان جاں نثاروں میں ہوتا ہے جن کو مرغِ باد نما نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے ہمیشہ میاں نواز شریف کا دل جیتنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ایک طرح ملتان کے شیخ ظہور کا متبادل ثابت ہوئے۔ شیخ ظہور نے 1999ء تک اخبارات اور ہفت روزہ و ماہانہ جرائد میں اشتہارات کی بھرمار کئے رکھی جن میں میاں صاحب کے قصیدے بیان کئے جاتے اور شان بڑھائی جاتی۔ میاں نواز شریف شیخ ظہور کو بے لوث کارکن سمجھتے اور اس کا احترام کرتے تھے۔ ایک دن میاں صاحب ملتان پریس کلب گئے تو وہاں موجود کمشنر اور ڈی آئی جی سے شیخ ظہور کا ہاتھ پکڑ کر تعارف کرایا اور کہا اس کا خاص خیال رکھا جائے۔ جس روز پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت اٹھائی تو ان کی طرف سے اخبارات میں آخری اشتہار فوج کی حمایت اور میاں نواز شریف کے خلاف شائع ہوا تاہم وہ اسحق ڈار کی طرح دعویدار تھے کہ ایجنسیوں نے ان کی گردن پر گھٹنا رکھ کر اشتہار شائع کرایا۔ بہشتی، کئی جرائد کے اشتہارات کی ادائیگی کا بوجھ لے کر دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔
عارف سندھیلہ بھی عرصہ سے میاں نواز شریف کی حمایت میں اشتہارات شائع کراتے ہیں، ان کا احترام و تکریم ایمان کی حد تک کرتے ہیں، مسجد کی ٹوٹیوں کے لئے پانچ ہزار نہیں دیتے اپنے لیڈر کے لئے پانچ لاکھ کے اشتہار دے دیتے ہیں۔ ان کا تازہ ترین پیغام بھی ملاحظہ کیجئے۔ جو ان کی ٹی وی گفتگو کا حصہ ہے۔ ’’میرے بعد میری قبر پر نواز شریف کا نام لکھ دینا‘‘ ایسا کرنے سے لوگوں کو شدید چکر دیا جا سکتا ہے، اندر فرشتے عارف سندھیلہ ہی سے حساب لیں گے، اگر ان کو جلدی ہے تو جنرل ضیاء الحق کی طرح اپنی زندگی بھی میاں صاحب کے نام کر دیں، جنرل ضیاء الحق کی دعا قبول ہوئی، جنرل ضیاء گزر گئے، ضیاء کی زندگی گزارتے ہوئے میاں صاحب حوادث زمانہ سے بچے چلے آ رہے ہیں۔ عارف خان سندھیلہ پچھلی صدی سے جمعہ جاتی امرا میں میاں محمد شریف کے مزار سے متصل مسجد میں ادا کرتے ہیں۔ ایک نوجوان مزار پر مجاور بن کر بیٹھ گیا جس پر نظر التفات ہوئی اسے ایم پی اے کا ٹکٹ ملا اور وزارت بھی نام ہوئی۔ آج کل چودھری غفور ٹی ڈی سی پی کے سربراہ ہیں۔ عارف سندھیلہ میاں صاحب کے دیرینہ اور مستقل قدر دان ہیں، نا مساعد حالات میں بھی ان کے پائے استقلال میں لرزش نہیں۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی طرح ان کی سوئی میاں صاحب سے محبت پر اٹکی ہوئی ہے، یہی فرق شیخ ظہور اور سندھیلہ میں ہے۔
میاں صاحب پر جان چھڑکنے کے دعویداروں کی کوئی حد نہیں، دل سے چاہنے والے کتنے ہیں‘ اس کا اندازہ 99ء میں مشرف کی بغاوت کے بعد فوج کی چھتری تلے گروہ در گروہ جمع ہونے والوں کو دیکھ ہوتا ہے، بہت سے دبک بھی گئے تھے۔ میں نے اس دور کا ریکارڈ دیکھا ہے مشاہداللہ اور عارف سندھیلہ ہی وہ دو جیدار تھے جو اپنے اخباری بیانات میں مشرف کو للکارتے رہے۔ مشاہد اللہ تو منزل مراد پا گئے ان کو ایک بار وزیر بنایا، تو میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کے درمیان اڑتے ہوئے مکالمے کو سچ کہنے پر ان سے وزارت لے لی گئی۔ اس کے بعد وہ میاں نواز شریف کی لے اور تان پر اداروں کے حوالے سے گرجے تو ان کو پھر وزیر بنا دیا گیا۔ عارف سندھیلہ میاں نواز شریف کے بے لوث کارکن ہیں۔ میاں صاحب بھی ان کو بے لوث ہی سمجھتے ہیں۔ روشن مستقبل کی امید میں ان کی جائیداد بک چکی ہے۔ ترقیاتی فنڈ سے وہ ایک پیسے کی دو نمبری کرنے کو کفر سمجھتے ہیں۔ میاں نواز شریف بلاشبہ ان کی قربانیوں سے آگاہ ہیں۔ شیخوپورہ میں تین بااثر ایم این اے میاں لطیف‘ رانا تنویر اور برجیس طاہر ہیں۔ عرفان الحسن بھٹی کو شیخوپورہ میں ایم پی اے کا ٹکٹ ملا۔
ایک مقامی بااثر شخصیت نے ایک کروڑ روپے کی ڈیمانڈ کی۔ شاید پارٹی فنڈ مانگا ہو، اس سے بھٹی صاحب نے معذرت کی تو اس حلقے میں مسلم لیگ ن کا ٹکٹ جاری ہونے کے باوجود واپس ہوا اور حلقہ اوپن کر دیا گیا۔ ان حالات میں میاں نواز شریف عارف سندھیلہ کی محبت کو یاد رکھا اور ان کو پارٹی ٹکٹ دیا۔ سندھیلہ کی ہر پولنگ سٹیشن سے جیت ہوئی۔ میاں نواز شریف کے توسط سے وہ مسلم لیگ ن ضلع شیخوپورہ کے صدر بھی ہیں۔ سندھیلہ کو پنجاب کابینہ میں وزیر یا مشیر بنایا جا سکتا تھا مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ اس کا بھی میرے خیال میں ایک پس منظر ہے۔ شہباز شریف اب مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر ہیں وہ پارٹی کو کیسے چلائیں گے؟ پنجاب حکومت چلانے کی طرح؟
سندھیلہ صاحب کی منزلِ مراد پانے کی کاوشیں جاری ہیں مگر ان کی تھوڑی سی نفسیات سے جانکاری بھی ہونی چاہئے۔ میاں نواز شریف کسی کو بھی مرکز میں کھپا سکتے تھے۔ اب تو خیر کھپ پڑ گئی ہے۔ ترقی ان لوگوں نے کی ہے جو میاں نواز شریف کی اتنی تعریف و توصیف نہیں کرتے جتنی میاں صاحب کے مخالفین کی خبر لیتے ہیں۔ طلال چودھری نے اس فارمولے‘ فکر فلسفے اور نظریئے کو حرز جاں بنا کر جو مقام حاصل کیا وہ کسی کے حصے میں نہیں آیا۔ آج طلال چودھری میاں صاحب کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ ان کے پیچھے نہال ہاشمی کھڑے ہیں۔