جرابیں استری کرنے سے سپر سٹار بننے تک کاکٹھن سفر۔پڑھیے پاکستان کے مایہ ناز آل راؤنڈر کی زندگی کی قابل رشک داستان

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک): پاکستان میں باولرز کی بھرمار ہے یہاں تک کہ مشہور انڈین کھلاڑی بھی پاکستان کو باؤلرز کی فیکٹری قرار دے چکے ہیں ۔یہاں بے شمار ٹیلنٹ موجود ہے اور کئی لوگ خاندان غربت سے تنگ تھا لہٰذاخاندان کے سربراہ نے کسی بڑے سے شہر کی طرف ہجرت کرنے کا فیصلہ کرلیا‘ کراچی سے بہتر شہر بھلا کون سا ہو سکتا تھا‘خاندان کسمپرسی کی حالت میں سوات کے علاقے دکا خیل سے کراچی شفٹ ہو گیا‘خاندان کے ایک نوجوان نے کراچی کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں روزانہ 150 روپے کی اجرت پر ملازمت اختیار کرلی‘ نوجوان کا کام جرابیں استری کرنا تھا‘ نوجوان کو ٹی وی پر کرکٹ دیکھ کر کرکٹ کھیلنے کا شوق پیدا ہوگیا‘نوجوان کے دل میں کام کرنے کے دوران ٹی وی پر چلتے میچ کے تبصرے سن کر دل میں خواہش ہوتی تھی کہ کبھی میں بھی قومی کا حصہ بن پاؤں گا۔جرابوں کی فیکٹری جاتے ہوئے راستے میں وہ ہم عمر لڑکوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھتا تو اس کے دل میں امنگیں جنم لیتی تھیں کہ وہ تھیں کہ وہ بھی اس کھیل کاحصہ بنے‘نوجوان کو یہ معلوم تھا کہ کرکٹ کھیلنے کی صورت میں وہ 150 روپے یومیہ اجرت سے محروم ہو جائے گاتاہم وہ اپنے شوق سے بھی محروم نہیں ہونا چاہتا تھا‘آخر ایک دن اس نے فیکٹری سپروائزر کو درخواست کی کہ مجھے نائٹ شفٹ میں منتقل کر دیا جائے تا کہ دن میں کرکٹ کھیل سکوں‘ خدا نے سن لی اور اسے دن میں کرکٹ کھیلنے کا موقع مل گیا‘اتفاق سے اس نوجوان کو ایسے ہمدردوں کا ساتھ میسر آ گیا جنہوں نے اس کی کرکٹ ختم نہیں ہونے دی اورپھر اس نوجوان نے ٹی 20 انٹرنیشنل میں سری لنکا کے خلاف پاکستان کی سب سے یادگار جیت میں مرکزی کردار ادا کیا۔جی ہاں! چار چھکوں اور تین چوکوں کی مدد سے صرف 17 گیندوں پر بنائے گئے 46 رنز نے سری لنکا کے خلاف دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی ایک وکٹ کی ڈرامائی جیت میں اہم کردار ادا کرنے والا انور علی ہی وہ نوجوان ہے۔ انورعلی کہتے ہیں جو سوچا تھا سب کچھ اسی کے مطابق ہوا‘مجھے گزرا ہوا وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب اعظم بھائی اور ظفر بھائی نے میری قدم قدم پر رہنمائی کی جبکہ ندیم عمر اور طارق ہارون نے بھی ہروقت میری حوصلہ افزائی کی‘ میں محنت پر یقین رکھتا ہوں‘انسان کی محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ انور علی نے اپنی جارحانہ بیٹنگ سے پاکستان کو ہاتھ سے نکلتا ہوا میچ جتوایا ہے۔سنہ 2013 میں جنوبی افریقہ کے خلاف کیپ ٹاؤن میں اپنے اولین ون ڈے انٹرنیشنل میں بھی انھوں نے ناقابل شکست 43 رنز بنانے کے بعد یاک کیلس اور ڈیوڈ ملر کی وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کی 23 رنز کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔انور علی کہتے ہیں ’’میں ہمیشہ یہی کوشش کرتا ہوں کہ سو فیصد کارکردگی دکھاؤں اور مجھ میں جتنی بھی صلاحیت ہے اس کا کھل کر مظاہرہ کروں‘ نتیجہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے
لیکن نتیجہ اپنے حق میں کرنے کے لیے محنت کرنا میرے ہاتھ میں ہے‘‘۔انور علی کی کرکٹ میں زون چھ کے اعظم خان اور ظفراحمد کا عمل دخل بہت نمایاں رہا ہے۔یہ اعظم خان ہی تھے جنھوں نے انور علی کو پہلی بار پاکستان کرکٹ کلب کی نیٹ پریکٹس میں دیکھا اور زونل ٹرائلز میں آنے کے لیے کہا جس پر انورعلی نے کہا کہ اگر وہ ٹرائلز میں آئے تو انھیں فیکٹری سے یومیہ اجرت نہیں ملے گی۔ اس پر اعظم خان نے کہا کہ یہ پیسے وہ انھیں دیں گے، ساتھ ہی انھوں نے کراچی کے سلیکٹر ظفر احمد کو اس نوجوان کی بولنگ دیکھنے کے لیے بھی کہا۔انور علی ٹرائلز میں آئے اور سب کو متاثر کیا۔ اعظم خان کے کہنے پر ظفراحمد نے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی ٹیم میں انھیں 4600 روپے پر ملازمت بھی دلوادی۔انور علی نے پہلی بار شہ سرخیوں میں اس وقت جگہ بنائی جب انھوں نے سنہ 2006 کے انڈر 19 ورلڈ کپ کے فائنل میں بھارت کی پانچ وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کو فتح دلوائی۔انور علی کے ہاتھوں آؤٹ ہونے والوں میں روہت شرما، پجارا اور رویندرا جدیجہ بھی شامل تھے، اور یہ میچ اسی پریما داسا سٹیڈیم میں کھیلا گیا تھا جہاں انور علی نے پاکستان کو دوسرے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں کامیابی سے ہمکنار کیا۔اس انڈر 19 ٹیم کے کپتان وکٹ کیپر سرفراز احمد تھے، ان کے علاوہ عماد وسیم بھی اس ٹیم کا حصہ تھے۔ آج یہ دونوں کھلاڑی بھی پاکستان کی سینئر ٹیم کا حصہ ہیں۔انور علی آج کے ان نوجوانوں کیلئے رول ماڈل ہیں جو زندگی سے مایوس ہیں‘ انور علی نے ثابت کر دیا کہ اگر جذبہ سچا ہو تو ناممکن کو ممکن کیا جا سکتا ہے۔