’’پارلیمنٹ کا منہ کالا ہوا‘‘ ہماری ضرب کاری!!!

2018 ,مارچ 15



چیئرمین سینٹ کا انتخاب کچھ لوگوں کے لئے متوقع کچھ کے لئے حیران کن اور کئی کی توقعات و خدشات کے عین مطابق ہوا ہے۔ پہلی بار پسماندہ صوبے سے چیئرمین سینٹ آیا ہے۔ سینٹ انتخابات پر ایک حلقے نے بے یقینی کی فضا طاری کر دی تھی۔ کئی تھیوریاں پیش کی جا رہی تھیں اور تھیوریوں کا سلسلہ ابھی تھما نہیں ہے۔ تاہم سینٹ کے بروقت الیکشن سے کئی حلقوں کی امیدوں پر اوس پڑ گئی مگر چیئرمین سینٹ کے الیکشن سے ان کے چہرے رونق افروز ہو گئے۔
سینٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ ن 33 سیٹوں کے ساتھ سینٹ میں سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی کی سیٹیں 20 تھیں۔ اِدھر الیکشن ہوا اُدھر آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کا چیئرمین لانے کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی اپنے گھوڑے بھی دوڑا دئیے۔ ویسے سینٹ الیکشن میں اس مرتبہ ماضی کے مقابلے میں گھوڑے زیادہ اور سرپٹ دوڑے ہیں۔ میاں نواز شریف نے اکثریت کے باوجود پیپلز پارٹی کو پیشکش کی کہ وہ رضا ربانی کو امیدوار بنائیں تو حمایت کریں گے۔ سینٹ میں اکثریت حاصل کرکے مسلم لیگ ن جو مقاصد حاصل کرنا چاہتی تھی رضا ربانی اس کے لئے مکمل فٹ تھے۔ ربانی صاحب پارلیمان کی بالادستی پر میاں نواز شریف سے زیادہ نہیں تو کم بھی یقین نہیں رکھتے۔ میاں صاحب کا مقصد رضا ربانی کے چیئرمین بننے سے پورا ہو جاتا تھا مگر زرداری نے رضا ربانی پر اتفاق کرنے سے انکار کر دیا۔ بلوچستان سے آزاد امیدوار صادق سنجرانی کو امیدوار نامزد کرکے مسلم لیگ ن کے امیدوار کی کامیابی کی راہ آسان بنا دی۔ بظاہر یہی نظر آتا تھا۔ تحریک انصاف نے ہر صورت لیگی امیدوار کا راستہ کاٹنے کا اعلان کیا تھا، اسے متحدہ اپوزیشن کا محاذ بنانے کے لئے بہانے کی تلاش تھی۔ بلوچستان سے امیدوار کی حمایت کا اعلان کر رکھا تھا زرداری نے وہیں سے اپنے امیدوار کا اعلان کرکے پی ٹی آئی کی حمایت حاصل کر لی۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار راجہ ظفرالحق سامنے لائے گئے حاصل بزنجو کا نام کئی روز تک گونجتا رہا۔ کڑے مقابلے کی پیشگوئیاں کی جا رہی تھیں لیگی حلقے اپنے چیئرمین کی کامیابی کے لئے پریقین تھے۔ اسے اپنے اتحادیوں کو ملا کر صرف تین ووٹ درکار تھے۔ اپوزیشن کو بھانت بھانت کا کنبہ جوڑنا تھا۔ مسلم لیگ ن کی 33 تو اپنی سیٹیں تھیں یہ ٹوٹل پی پی پی کی بیس اور پی ٹی آئی کی 13 سیٹوں سے برابر ہو گیا۔ اب فاٹا اُدھڑی ہوئی متحدہ اور بلوچستان کے تھوک کے حساب سے کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کا رول اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ فاٹا کے امیدواروں نے میاں نواز شریف سے بھی ملاقات کی۔ یہ حضرات ہمیشہ حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اب بھی ایسا ہی نظر آ رہا تھا مگر یہ زرداری سے بھی ملے تو آٹھ کے آٹھ سینٹرز نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے شاید آئندہ حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ فاٹا سینٹرز کے فیصلے سے ہوا کا رخ بدلا نظر آنے لگا، ان کے حکومت کا ساتھ نہ دینے کے اعلان نے واضح کر دیا کہ چیئرمین کون بنے گا۔ سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے پاکستان کی مستقبل کی سیاست کا منظر نامہ واضح کر دیا ہے۔ اپوزیشن کو 53 ووٹ درکار تھے جبکہ 57 ملے ہیں اوپر کے چار احتیاط کے ہیں۔ 57 میں مسلم لیگ ن کے بغیر ٹکٹ کے جیتنے والوں کے ووٹ بھی ہو سکتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی طرف سے سنجرانی کے چیئرمین منتخب ہونے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ لیگی حلقوں میں سوگ کی کیفیت ہے۔ ایک لیگی دھڑے کا یہ افسوس شہباز شریف کے مسلم لیگ کا صدر منتخب ہونے سے خوشی میں بدل گیا۔ دوسرے دھڑے کا افسوس مزید بڑھ گیا۔ سینٹ کے انتخابات واقعی لیگی حکومت اور سیاست کے لئے ایک سنگ میل تھا جو نامساعد حالات کے باوجود عبور ہوا۔ اگر سازشی تھیوریوں کے باوجود سینٹ الیکشن ہوئے تو سنجرانی کے چیئرمین سینٹ بننے پر راجہ ظفرالحق کی طرح مسلم لیگ ن کی طرف مجموعی طور پر مثبت بیانیہ سامنے آتا تو بہتر تھا مگر ردعمل میں کہے گئے الفاظ سے نفرت ٹپکتی اور آگ برستی ہے۔ حاصل بزنجو کہتے ہیں پارلیمان کا منہ کالا ہوا، عمران خان پارلیمنٹ پر لعنت بھیجے تو مطعون مقصد حاصل نہ ہونے پر حاصل برسیں تو افلاطون۔
مریم نواز شریف کا ٹوئٹر سب سے زیادہ دلچسپ ’’شطرنج کے مہرو تم جیتے نہیں ہارے ہو تمہیں بدترین شکست ہوئی ہے، عوام میں آئو تو پتہ چلے گا۔‘‘ مریم نواز صاحبہ کس کو کہہ رہی ہیں کہ تمہیں شکست ہوئی؟۔ 272کی 272 سیٹیں بھی کوئی پارٹی جیت لے قانونی فیصلے عدالت نے ہی کرنے ہیں۔ اس سے تو کسی کو اختلاف نہیں کہ آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کو ڈبو دیا ہے آج پی پی پی راندۂ درگاہ ہے۔ مسلم لیگ ن ہری بھری تھی ثمر بار تھی بااقتدار تھی کئی لیگی حلقے بھی کہتے ہیں کہ محترمہ کے عمل دخل سے پارٹی کتنی مضبوط اور مقبول ہوئی اس کا فیصلہ تو آئندہ الیکشن میں ہو گا اگر ہوئے تو۔ سرِدست میاں نواز شریف وزیراعظم ہائوس سے عوام کی عدالت میں آ گئے ہیں۔ سیاسی شو بڑے کامیاب ہو رہے ہیں۔سیاسی منظر نامہ کیا ہو گا؟ اس پر بات کرنے سے پہلے آرمی چیف کے اس بیان کو ضرور دیکھ لیں جو ان کی آف دی ریکارڈ بڑے صحافیوں سے گفتگو کا ماخذہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ کاکہناہے کہ ’’اگر ضرورت پڑی تو ہم عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ 
سینٹ کے الیکشن اور فاٹا سینٹرز کے حکومت کے مدمقابل ہونے کو دیکھیں تو مسلم لیگ ن اگلے الیکشن میں نظر نہیں آتی۔ جس قوت نے چیئرمین سینٹ کا الیکشن چینج کیا اور بھی بہت کچھ کر سکتی ہے تاہم مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ کو کہیں تو رکنا ہے ابھی بریکیں لگا کے اداروں کی مخالفت کی پالیسی سے گریز کرے تو عوامی مینڈیٹ اس کی طرف لوٹ سکتا ہے ورنہ وہی ہو گا جو سنجرانی کی جیت کی صورت میں ہوا۔ مولانا فضل الرحمن نے بڑی زبردست بات کی ہے کہ بھاری وہ ہے جو زرداری سے بھی بھاری ہے۔

متعلقہ خبریں