مال روڈ جسے لاہور میں رہنے والے لوگ کسی زمانے میں ”ٹھنڈی سڑک“ کے نام سے یاد کرتے تھے ایک سنگل ٹریک سڑک ہوا کرتی تھی جس کے دونوں جانب بڑے بڑے درخت تھے جو اوپر جا کر آپس میں ملے ہوئے تھے ان درختوں کے ملاپ نے پوری سڑک پر ”شیڈ“ کا کام کیا ہوا تھا اور سڑک سے گزرنے والے کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی سرنگ سے گزر رہا ہو میونسپلٹی والے دن میں دو مرتبہ اس سڑک کے دونوں اطراف پانی کا چھڑکاو کرتے تھے تاکہ گردو غبار نہ اڑ سکے۔ قیام پاکستان سے قبل اس سڑک پر زیادہ تعداد پیدل چلنے والوں کو ہوا کرتی تھی کیونکہ اس وقت لاہور میں گاڑی صرف چند افراد کے پاس تھی ان افراد میں لعل دین قیصر، عبد العزیز مالوراڑہ، میاں وحید، چوہدری غلام رسول وغیرہ کے پاس اپنی گاڑیاں موجود تھیں تین چار گھنٹوں کے بعد ایک کار کا مال روڈ سے گذر ہوتا تھا پیدل چلنے والے لوگ اس گاڑی اور اس میں بیٹھے ہوئے شخص کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس کے علاوہ سات آٹھ نوجوان لڑکوں کے گروپ ”ہرکولیس“ سائیکلوں پر بیٹھ کر شام کے وقت مال روڈ کی سیر کرنے آیا کرتے تھے اس وقت سائیکل کو موجودہ ہنڈا کار کا درجہ دیا جاتا تھا مال روڈ حقیقت میں ایک سیر گاہ تھی جہاں پر لاہور کے رہائشی تفریح کے لیے آیا کرتے تھے کیونکہ اس وقت لارنس گارڈن صرف انگریزوں کے لیے مخصوص تھا اور گیٹ پر لکھا ہوا تھا کہ
Dogs and Indians are not Allowed
کتوں اور ہندوستانیوں کا داخلہ ممنوع ہے مال روڈ پر دکانیں عموماً صبح 9بجے کھلتی اور شام 5بجے بند ہو جایا کرتی تھیں اور پھر دور دور تک کوئی شخص نظر نہیں آتا تھا پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد مال روڈ میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں اس سڑک پر زیادہ تر بلڈنگیں ہندووں، سکھوں اور انگریزوں کی ملکیت ہوا کرتی تھیں صرف ایک دو عمارتیں ایسی تھیں جن کے مالک مسلمان تھے ہندو، سکھ اور انگریز جب لاہور سے چلے گئے تو یہ تاریخی عمارتیں ان لوگوں کے نام کر دی گئیں جو ہندوستان میں اپنی زمین جائیداد چھوڑ آئے تھے یا لاہور کے مقامی لوگوں نے ان سے خرید لیں آج بھی مال روڈ پر ایسی تاریخی عمارات موجود ہیں جو اپنی نفاست، پختگی اور اعلی فن تعمیر کا نمونہ ہیں لیکن بہت سی عمارتیں اور یادگار وقت کے ساتھ ساتھ ناپید ہوتی چلی گئیں۔ تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ واپڈا ہاوس، الفلاح بلڈنگ، پینوراما سینٹر، نقی مارکیٹ، اسٹیٹ بینک، وغیرہ کی جگہ پرانی اور تاریخی عمارتیں ہوا کرتی تھیں۔ نقی مارکیٹ میں آج جہاں رانا موٹرز موجود ہے یہاں پر سٹفلیز ز ہوٹل ہوا کرتا تھا۔
شاہ دین بلڈنگ میں ”لورپنگ“ قائم تھا ریگل سینما کے ساتھ سٹینڈرڈ ہوٹل تعمیر تھا اور واپڈا ہاوس کی جگہ پر میٹرو ہوٹل ہوا کرتا تھا ان ہوٹلوں میں ڈانس اور شراب کی محفلیں جمتی تھیں نواب امیر محمد خان آف کالا باغ نے ان ہوٹلوں میں ہونے والی محفلوں کو ختم کروایا اس طرح باغ جناح میں جو پہاڑیاں موجود ہیں حقیقت میں ان چا ر پہاڑیوں کو ”آوے“ کہتے تھے ہندوان پہاڑیوں پر مٹی کے برتن بنایا کرتے تھے ان پہاڑیوں کے اردگرد کھجور کے درخت ہوا کرتے تھے اسلامک سمٹ مینار کے ساتھ ساتھ آج جہاں قرآن مجید رکھا گیا ہے وہاں پر ملکہ وکٹوریہ کا بت نصب تھا۔ فضل دین اینڈ سنز کے ساتھ جارج پنجم کا بت نسب تھا عجائب گھر کے سامنے اورنئٹیل کالج کے پرنسپل کا مجسمہ آج بھی موجود ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد اس نے اپنی تمام جائیداد کالج کے نام وقف کر دی تھی واپس اوربرطانیہ چلا گیا تھا الفلاح بلڈنگ کی جگہ کوآپرٹیو کا دفتر موجود تھا اور اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی مسجد ہوا کرتی اس طرح مال روڈ پر دو سینما گھر یعنی ریگل اور پلازہ پہلے تھیٹر ہوا کرتے تھے پلازہ تھیٹر میں ڈانسنگ ہال اور بلیئرڈ کلب موجو د تھا بنایا جاتا ہے کہ باغ جناح جسے لارنس گارڈن کہتے تھے کو سیراب کرنے کے لیے مغلپورہ نہر سے ایک چھوٹی سی نہر نکالی گئی تھی
جو مال روڈ کے ساتھ ساتھ چلتی تھی اس کے آثار آج بھی موجود ہیں پینوراما سنٹر کی جگہ پر سول اینڈ ملٹری گزٹ آفس ہوا کرتا تھا آج جس جگہ صادق پلازہ موجود ہے وہاں ایک بلڈنگ موجود تھی یہ بلڈنگ خان بہادر نقی کے بیٹے ایم ڈی کمہار کی ملکیت تھی اسے فلموں میں کام کرنے کا شوق تھا لہٰذا اس شوق میں یہ بلڈنگ نیلا م ہوئی اور لوگوں نے اسے خستہ حال میں دیکھا غلام رسول بلڈنگ میں آج جہاں ماورا بک ہاوس ہے اس کی اوپر والی منزل پر ڈانسنگ ہال ہوا کرتا تھا اس کے ساتھ انڈس ہوٹل میں پہلے ریسٹورنٹ تھا یہ ریسٹورنٹ ایک جرمن جوڑے کے ملکیت تھا فیروز سنز کے سامنے ارجنٹینا ہوٹل تھا اس عمارت کی خصوصیت تھی کہ نیچے والا حصہ یورپی طرز کا تھا واپڈا ہاوس کی جگہ میٹرو ہوٹل موجود تھا اور آگے چند دکانیں تھیںان دکانوں میں ایک دکان پولیس اور آرمی کے یونیفارم کے حوالے سے بڑی شہرت رکھتی تھی۔ استنبول چوک میں موجود ”زمزمہ توپ”جسے ”بھینگوں کی توپ“ کہتے ہیں یہ رنجیت سنگھ کے دور میں دہلی دروازہ کے سامنے رکھی ہوئی تھی انگریزوں نے اس توپ کو موجودہ جگہ پر لا کر رکھا اس طرح مسجد شہداءکی جگہ ایک پٹرول پمپ ہوا کرتا تھا اور اس کے ساتھ چار پانچ آدمی نماز پڑھا کرتے تھے مال روڈ کو 1964ءمیں د و رویہ سڑک کا درجہ دیا گیا ان تمام چیزوں کے باوجود آج بھی مال روڈ پر تقریباً70 عمارات ایسی ہیں جو ایک تاریخی ورثہ ہیں عدالت کے حکم کے مطابق ان عمارتوں کی پرانی شکل کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا چنانچہ ان عمارتوں کی حفاظت کرنا ایک قومی فریضہ ہے ان عمارتوں میں سٹیٹ گیسٹ ہاوس، ایچی سن کالج، پنجاب یونیورسٹی، ٹاون ہال، عجائب گھر، جی پی او، ہائی کورٹ اور دیا ل سنگھ منیشن، وغیرہ شامل ہیں۔ مال روڈ جو کبھی ٹھنڈی سڑک کے نام سے مشہور تھی آج اسے گاڑیوں کے دھوئیں اور گردو غبار نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے شہر بھر کے تجارتی مراکز اور سرکاری دفاتر کے باعث بے پناہ رش نے اس سڑک کا افسانوی حسن چھین لیا ہے۔ سٹیٹ گیسٹ ہاوس
سٹیٹ گیسٹ ہاوس کو مال روڈ پر منفرد حیثیت حاصل ہے یہ عمارت 1874ءمیں تعمیر ہوئی وائسرائے ہند جب لاہور آتا تو اس عمارت میں قیام کرتا تھا تقسیم ہند کے بعد یہ عمارت
Re-Habilitation
محکمہ بحالیاتی اراضی والوں کے قبضہ میں آگئی 1954ءمیں اسے سول سروسز اکیڈیمی میں تبدیل کر دیا گیا 1972ءکے وسط تک یہ اکیڈیمی ہی رہی لیکن اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب غلام مصطفےٰ کھر نے اس عمارت کو وزیر اعلیٰ ہاوس کا درجہ دے دیا۔ 1974ءمیں اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوران وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس عمارت کے ایک حصے کو سٹیٹ گیسٹ ہاوس بنا دیا جبکہ باقی حصہ سول سروسز اکیڈیمی کو دے دیا گیا اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوران سعودی عرب کے شاہ فیصل اور کویت کے امیر صالح الصباح نے سٹیٹ گیسٹ ہاوس میں قیام کیا۔ 1974ءسے لے کر آج تک اس عمارت کو سٹیٹ گیسٹ ہاوس کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اس عمارت میں شاہ ایران، شاہ حسین ( اردن) چین کے سابق وزیر اعظم مازوے تنگ، فلسطین کے سربراہ یاسرعرفات خاتون اول امریکہ ہیلری کلنٹن، پرنس کریم آغا خان جیسی شخصیات قیام کر چکی ہیں سٹیٹ گیسٹ ہاوس وزرات خارجہ کے تحت ہے اور پاک پی ڈبلیو ڈی کا محکمہ عمارت اس کی دیکھ بھال اور مرمت کے فرائض سر انجامدے رہا ہے عمارت کی موجودہ حالت اس طرح ہے جیسے 1874ءمیں ہوا کرتی تھی ۔ یہ عمارت اور اس کے اردگرد باغات 14ایکڑ اراضی پر پھیلے ہوئے ہیں۔ سٹیٹ گیسٹ ہاوس میں دوسربراہان مملکت اپنے سٹاف سیمت بیک وقت رہ سکتے ہیں 1981ءمیں سٹیٹ گیسٹ ہاوس میں ائیر کنڈیشنز لگوائے گئے سٹیٹ گیسٹ ہاوس میں موجود فرنیچر، قالین اور دیگر دوسری اشیاءکروڑوں کی مالیت کی ہیں لاہور کا سٹیٹ گیسٹ ہاوس ساوتھ ایشیاءکا بہترین گیسٹ ہاوس ہے تاریخی اور آسائش کے اعتبار سے دوسری کوئی عمارت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ایک قد آور تصویر تمغے کے طور پر دی تھی جو کہ ہال کے ساتھ آویزاں ہے سٹیٹ گیسٹ ہاوس میں 25کمرے میں جن میں 5کمرے وی آئی پی روم ہیں ایک ڈرائنگ روم ہے جہاں تقریباً 40افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے دربار ہال میں 100افراد بیٹھ سکتے ہیں ڈائنگ ہال میں بوفہ کھانا کھا سکتے ہیں اس عمارت کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں کوئی اینٹ یا پتھر استعمال نہیں ہوا یہ عمارت خالص مصالحہ سے تیار ہوئی ہے جس میں چونا، کوئلہ اور دوسری چیزیں شامل ہیں اس عمارت کی دیواریں اتنی چوڑی ہیں کہ اگر گرم ہوں تو جلدی ٹھنڈی نہیں ہوسکتیں اور اگر ٹھنڈی ہوں تو جلدی گرم نہیں ہوسکتیں۔ ایچی سن کالج
انیسویں صدی کے آخر میں برطانوی ہند نے تعلیمی میدان میں سرعت سے ترقی شروع کی پرانی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم کا آغاز ہوا عوام کے لیے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی گئی لیکن نوجوان اور راجاوں کے بیٹوں کی تعلیم کا ابھی کوئی خاص انتظام نہ ہوسکا تھا اس مقصد کے پیش نظر 1886ءمیں ایچی سن کالج تعمیر کیا گیا۔ مہاراجاوں اور روساءکے لڑکے انگریزوں کے کہنے پر اس کالج میں داخل ہونے لگے زمانہ بدلتا گیااس کالج نے بھی زمانے کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو تبدیل کر دیا اور اس کے دروازے عوام کے لیے بھی کھلتے گئے پاکستان بننے کے بعد یہ کالج ایک قومی ادارہ بن گیا اس ادارے نے پاکستان کو صدر، وزیر اعظم، وزیر اور بڑے بڑے سرکاری افسر پیدا کرکے دیئے۔ ایڈمنسٹر ٹیو سٹاف کالج گورنر ہاوس کے بائیں جانب بڑے بڑے ستونوں پر کھڑی ایک وسیع عمارت ہے جسے اب پاکستان ایڈ منسٹر یٹو کالج کہا جاتا ہے یہ عمارت 1901ءمیں تعمیر کی گئی اس کا کل رقبہ 169کنال 09مرلہ اور 179مربع میٹر ہے۔اس عمارت کے ستون عہد قدیم کے یونانی طرز کے ہیں عمارت تعمیر ہونے کے بعد انگریزوں نے اسے کلب کی شکل دے دی یہاں پر صرف انگڑیز افسران آیا کرتے تھے اس کے علاوہ عام انگریز بھی اس کلب کا ممبر نہیں بن سکتا تھا پاکستان بننے کے بعد بھی یہ عمارت انگریزوں کے قبضے میں رہی 1960ءمیں کلب کے سیکرٹری مسٹر جی آر لورڈ گس سے یہ عمارت خرید کر اسے کالج بنا دیا گیا اب یہ کالج وفاقی حکومت کی اسٹبلیشمنٹ ڈویژن کے ماتحت کام کرتا ہے اس کالج اور عمارت کی دیکھ بھال کے لیے سالانہ 16لاکھ 93ہزار کا بجٹ مختص کیا گیا ہے آج بھی اس کی پرانی شکل برقرار رکھی گئی ہے ذرائع کے مطابق جب اس عمارت کو کالج میں تبدیل کیا گیا تو یہاں پر کروڑوں روپے کی نوادرات بھی موجود تھیں جن میں اعلی قسم کا فرنیچر اور دوسرا سامان بھی تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بعض چیزیں یہاں سے غائب ہوچکی ہیں ان میں کمرشل کراکری بھی موجود تھی جو اب ناپید ہوچکی ہے اب صرف ایک بلیئرڈ ٹیبل اور بار روم کی آدھی ٹیبل موجود ہے بلیئرڈ کی ٹیبل 100سال سے زائد پرانی ہے اور یہ کلکتہ کی بنی ہوئی ہے جبکہ بار روم کی آدھی ٹیبل انگریز یہاں سے جاتے ہوئے لندن لے گئے تھے اس کے علاوہ آج بھی ڈائننگ ہال اور ڈرائنگ روم میں نایاب لکڑی کا بنا ہوا فرینچر موجود ہے۔ گورنر ہاوس
گورنر ہاوس لاہور کی عمارت دراصل چار صدیوں کی تاریخی کہانی ہے مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے یہاں ایک خوبصورت مقبرہ تعمیر کرایا تھا سکھ عہد کے آخری اور برطانوی دور کے ابتدائی برسوں میں یہ مقبرہ ”گنبد لشتی والا“ یا ”گنبد پہلوانوں والا“ کہلاتا تھا مورخین نے اسے اکبر بادشاہ کے انتہائی وفادار سردار اور ماموں زاد بھائی قاسم خان سے منسوب کیا یہ مقبرہ باہر سے دو منزلہ نظر آتا ہے اصل قبر تہہ خانے میں ہے اور قبر تک پہنچنے کے لیے ایک زمین دوز راستے سے گزرنا پڑتا ہے اس مقبرے کو اب گورنر ہاوس کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے دوسر ی منزل ہشت پہلو اور سب سے زیادہ بلند ہے سکھوں کے عہد 1839-1764میں کئی مساجد اور مقبروں کو بارود خانہ اور اسلحہ خانہ بنا دیا گیا ان میں رد و بدل کرکے رہائش اختیار کر لی گئی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ (1839-1799ئ) کے محافظ دستہ کے جمدار خوشحال سنگھ نے قاسم کے مقبرے کے گرد حویلی تعمیر کر دی جس میں وہ خود اور اس کے ماتحت افسر رہتے تھے حویلی کے اردگرد ایک وسیع باغ تھا جس کے ایک گوشے میں محافظ دستے کی رہائش کے لیے بارکی ںبنا دی گئیں الحاق پنجاب 29مارچ 1849کے بعد یہ حویلی یک بعد دیگرے دو ڈپٹی کمشنروں مسٹر بودنگ اور میجر ملیگر یگر کے ذاتی استعمال میں رہیں پھر انتظامی بورڈ کے صدر سر لارنس نے اسے اپنی ذاتی رہائش گاہ بنا لیا اس حویلی کی وسیع پیمانے پر مرمت کی گئی اور بیشتر حصے گرا کر دوبارہ تعمیر کیے گئے تعمیر و مرمت کا یہ کام 1853ءمیں ہوا اور اس پر ساڑے سولہ ہزار روپے سے زائد رقم صرف ہوئی اس سال انتظامی بورڈ کو ختم کرکے سر جان لارنس کو پہلا چیف کمشنر مقرر کیا گیا 1859میں جب پنجاب کو لیفٹیننٹ گورنر کا صوبہ بنا دیا گیا تو عمارت ہی مزید توسیع کرکے اسے گورنمنٹ ہاوس کے نام سے موسوم کر دیا گیا موجودہ گورنر ہاوس کا کل رقبہ 168ایکڑ ہے اس میں سے 25ایکڑ رقبے میں وسیع سبزہ ازار اور پھولوں کی کیاریاں ہیں تقریباً 20ایکڑ رقبے میں باغات و کاشت ہے یہاں ایک خوبصورت مصنوعی جھیل اور اس پر واقع بارہ دری بھی ہے جھیل قریباً تین ایکڑ رقبے پر محیط ہے گورنر ہاوس کے احاطے میں ایک پہاڑی بھی ہے کسی زمانے میں یہاں اینٹوں کا بھٹہ ہوا کرتا تھا چار ایکڑ پر پھیلی ہوئی یہ پہاڑی خوبصورت سیر گاہ ہے گورنر ہاوس کا کل تعمیر شدہ رقبہ 37409مربع فٹ ہے اس کے مشرقی حصے میں واقع شتر خانے فیل خانے اور بارکوں کو عملے کے رہائشی مکانات میں تبدیل کر دیا گیا ہے گورنر ہاوس کے گرد چار دیواری میں تین صدر دروازے ہیں چار دیواری کے ساتھ درختوں اور بانسوں کی قطاریں بہت خوبصورت منظر پیش کرتی ہیں گورنر ہاوس 1903ءمیں پہلی بار بجلی کے قمقموں سے روشن ہوا تھا اور ایک سال بعد اس میں بجلی کے پنکھے لگائے گئے۔ گورنر ہاوس میں قیام کرنے والے پہلے گورنر سرایڈورڈ میکلیگن 1921-1919ءتھے قیام پاکستان کے بعد پہلے گورنر سر فرانس موڈی 1947-49ءتھے صوبہ پنجاب کے پہلے پاکستانی گورنر سردار عبد الرب نشتر بھی اس عمارت میں 1949ءسے 1951ءتک قیام پذیر رہے اب تک اس عمارت میں پنجاب کے ایک صدر انتظامی بورڈ ایک چیف کمشنر بیس لیفٹنینٹ گورنر اور 37گورنر اپنی رہائش اور دفاتر رکھ چکے ہیں ۔گورنر ہاوس کو سٹیٹ گیسٹ ہاوس کا درجہ بھی حاصل ہے یہاں پر غیر ملکی سربراہان مملکت وزراءاعظم و اعلیٰ شخصیات کو بھی ٹھہرایا جاتا ہے اس عمارت کے بارے میں باز گشت بھی سنائی دی کہ اسے خواتین یونیورسٹی بنایا جا رہا ہے لیکن اس بارے میں ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ قائداعظم لائبریری
باغ جناح میں موجود قائداعظم لائبریری جس عظیم الشان عمارت میں قائم کی گئی ہے حقیقت میں جمخانہ کلب کے نام سے موسوم تھی یہ عمارت بنیاد ی طور پر دو بڑے ہالوں پر مشتمل ہے جنہیں ایک خوبصورت گیلری کے ساتھ ملایا گیا ہے لیفٹیننٹ گورنر سر جان لارنس اور لیفٹیننٹ گورنر سررابرٹ منٹگمری کی نسبت سے ایک ہال کو لارنس ہال اور دوسرے کو منٹگمری ہال کہا جاتا تھا یہ دو وسیع ہال انگریز حکام اور مخیر حضرات کے چندے سے تعمیر ہوئے لارنس ہال 1861ءمیں تعمیر ہوا اس عمارت کا خاکہ مسٹر سٹون سول انجینئر نے تیار کیا یہ ہال ساڑھے بتیس میٹر لمبا، ساڑھے تیس فٹ چوڑا اور تنتیس فٹ اونچا ہے اس کا فرش لکڑی کا ہے پوری عمارت کی لمبائی 65فٹ ہے اس عمارت میں سٹیج ڈرامے ہوتے تھے اور عوامی اجتماعات بھی منعقد کیے جاتے تھے اس عمارت کی تعمیر پر 34ہزار روپے صرف ہوئے تھے منٹگمری ہال 1866ءمیں تعمیر ہوا عمارت کا خاکہ سول انجینئر مسٹر گرو¿ن نے تیار کیا اس عمارت پر ایک لاکھ چوہتر ہزار روپے خرچ ہوئے جس میں 66ہزار روپے مرمت کی مد میں شامل تھے عمارت کی چھت ناقص ہونے کے باعث 1875ءمیں ایگزیکٹو انجینئر رائے بہادر کہنیا لال کی زیر نگرانی مرمت کی گئی۔ ہال کا بڑا کمرہ 106فٹ لمبا 46فٹ چوڑا اور 38فٹ اونچا ہے اس کا فرش بھی لکڑی کا ہے یہ ہال ڈانس کے لیے استعمال ہوتا تھا لارنس گارڈن اور ان ہالوں میںانگریزوں کے علاوہ کسی اور کا داخلہ ممنوع تھا کیونکہ پاکستان بننے کے بعد اس عمارت کو سول سروسز اکیڈیمی کا درجہ دے دیا گیا تھا کچھ عرصہ یہ عمارت مارشل لاءہیڈ کوارٹر کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی بعد ازاں اس عمارت کو پنجاب جمخانہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ 1980ءمیں پنجاب جمخانہ موجودہ جگہ یعنی اپر مال شفٹ ہوگیا۔ 1981ءمیں اس عمارت کو لائبریری بنانے کا منصوبہ بنایا گیا لہٰذا 25دسمبر 1984ءکو سابق صدر جنرل محمد ضیاءالحق نے اس کا افتتاح کیا۔ جناح لائبریری کے چیف لائبریرین کے مطابق پنجاب پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ نے اس عمارت کی دیکھ بھال کرتی ہے لائبریری بناتے وقت اس کی اندرونی اوربیرونی شکل تبدیل نہیں کی گئی لائبریری میں ایک لاکھ پانچ ہزار کتابیں موجود ہیں اور روزانہ سینکڑوں افراد اپنی علم کی پیاس بجھانے یہاں آتے ہیں ۔اب لارنس ہال کو علامہ اقبال اور منٹگمری ہال کو قائد اعظم ہال کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے لائبریری میں جو خوبصورت فانوس نصب ہے وہ عظیم دوست ملک چین نے تحفتاً دیئے ہیں۔ ماضی کا ”ناچ گھر“ آج علم و دانش کا گہوارہ ہے۔ لاہور چڑیا گھر
لاہور کا چڑیا گھر برصغیر کے بہترین چڑیا گھروں میں شمار کیا جاتا رہا ہے اسے عوامی تفریح گاہ کی حیثیت حاصل ہے 1872ءمیں لفٹیننٹ گورنر سر رابرٹ ڈیوبر کے دور میں یہ چڑیا گھر قائم ہوا اس وقت چڑیا گھر کی صورت آج کے چڑیا گھر سے بہت مختلف تھی یہ تھوڑے رقبے میں قائم ہوا تھا بعد میں ترقی اور توسیع ہوتے ہوئے 1942میں یہ اس صورت کو پہنچا جس میں ہم آج اسے دیکھتے ہیں۔ موجودہ چڑیا گھر کا رقبہ 24ایکڑ پر مشتمل ہے اس احاطے میں عجیب و غریب جانوروں کا وہ انبوہ کثیر ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے چڑیا گھر کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے مطابق یہاں پر 842کے قریب مختلف اقسام کے جانور موجود ہیں جانوروں اور عمارت کی دیکھ بھال کے لیے تقریبا دو کروڑ روپے سالانہ خرچ کے لیے جاتے ہیں ابتدا میں یہ میونسپلٹی کے تحت کام کرتا تھا اب وائلڈ لائف کے تحت کام کرتا ہے چڑیا گھر سے تقریبا ساٹھ لاکھ سالانہ منافع آمدنی ہوتی ہے اور تقریبا پانچ ہزار افراد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ دنیا میں دوسرے نمبر کا چڑیا گھر ہے جو سب سے پرانا ہے پہلا چڑیا گھر 1854ءمیں برطانیہ میں بنا تھا۔ فری میسن ہال
چڑیا گھر کے بائیں جانب ایک پرانی عمارت موجود ہ ہے جسے آج 90شاہرا قائد اعظم کہتے ہیں یہ عمارت 1859ءمیں تعمیر ہوئی تھی لوگ اسے میجک ہاوس کے نام سے یاد کرتے تھے اس عمارت میں مسلمانوں کا داخلہ سختی سے منع تھا کہا جاتا ہے کہ اس عمارت میں انگریزوں کے خفیہ اجلاس ہوا کرتے تھے پاکستان بننے کے بعد اسے پنجاب آرٹس کونسل میں تبدیل کر دیا گیا پھر جب پنجاب میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے ایک اعلی سطحی فیصلہ کیا گیا تو پنجاب ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کا ضلعی ہیڈ آفس بھی اسی عمارت میں قائم کیا گیا جس کا افتتاح پی ٹی ڈی سی کی بانی چیئرمین اور پرتگال میں پاکستان کی سابق سفیر بیگم وقار النساءنون نے کیا پھر اسے تحریک پاکستان کا میوزیم بنا دیا گیا اب اسے وزیر اعلیٰ ہاوس کا درجہ حاصل ہے۔ انگریزوں کے دور کی تاریخی عمارت ”فری میسن ہال“ مختلف مرحلوں کا قیا م عمل میں لایا گیا ہے جس کا افتتاح صدر پاکستان سردار فاروق احمد خان لغاری نے جنور ی 1994ءمیں کیا۔ اس تاریخی عمارت کو 1972ءکے بعد کی کئی حکومتوں نے سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا اور 1989ءسے یہ عمارت 90شارع قائد اعظم کے نام پر مختلف وزرائے اعلیٰ کے سرکاری دفاتر کے طور پر استعمال ہو رہی ہے جس میں اعلیٰ سطح کے حکومتی اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس تاریخی عمارت پر 1989ءکے بعد سے لے کر اب تک یعنی 1996ءکے اعداد و شمار کے مطابق اب تک تقریبا تین کروڑ روپے کے اخراجات مرمت و توسیع کے منصوبوں پر خرچ کیے گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ میاں افضل حیات نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد اخراجات میںکمی کے لیے جاری کردہ پہلے احکامات کے تحت ہی اس تاریخی عمارت میں موجود اپنے سیکرٹریٹ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد محکمہ اطلاعات و ثقافت پنجاب کو اس عمارت کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپ دی گئی جس کے بعد یہاں ”تحریک پاکستان میوزیم“ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ تاریخی عمارت 1911ءمیں مکمل ہوئی تھی۔ 1972ءمیں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسے قومی تحویل میںلے لیا تھا۔ اس کے بعد یہ جگہ پی پی پی کے سیکرٹری جنرل کے دفتر کے طور پر استعمال میں رہی اس کے بعد پیپلز پارٹی خواتین ونگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اور بیگم نصرت بھٹو ویمن ونگ کی پہلی چیئرمین پرسن بھی اسی جگہ منتخب ہوئیں۔ 1977ءمیں بھٹو دور کے خاتمہ کے بعد فری میسن ہال کو کچھ عرصہ کے لیے بند کر دیا گیا۔ اس کے بعد ایل ڈی اے نے پارکنگ پلازہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔ جس پر سخت عوامی رد عمل کے بعد عمل درآمد موخر کر دیا گیا۔ 1976ءمیں فری میسن ہال کو پنجاب آرٹس کونسل کے سپرد کر دیا گیا۔ 1984ءمیں یہاں محکمہ سیاحت کا صوبائی صدر دفتر قائم کیا گیا جس کا افتتاح پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی بانی چیئرمین بیگم وقار النساءنون نے کیا۔ 1985ءمیں اس عمارت کی تعمیر نو کا ایک جامع منصوبہ تیار کیا گیا جس کے تحت یہاں پنجاب فوک آرٹس اینڈ کرافٹ کمپلیکس بنانے کا فیصلہ کیا گیا اس منصوبے پر 29.68ملین روپے لاگت آئی اس کے بعد اچانک ہی اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیا گیا اور اسے وزیراعلیٰ پنجاب کا سیکرٹریٹ بنا دیا گیا۔ اس وقت صوبے کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف تھے جن کی ہدایت پر اس عمارت کی خوبصورتی اور حسن کو بحال کرنے کے منصوبہ پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے۔ اس حوالے سے ہال کی آرٹ گیلری کو ڈرائنگ روم میں تبدیل کر دیا گیا۔ بالائی حصہ پر نہایت خوبصورت ڈائینگ ہال بنایا گیا۔ اس کے بعد سابق وزرائے اعلیٰ میاں منظور وٹو، سردار عارف نکئی اور چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں بھی اس تاریخی عمارت میں سیاسی نوعیت کی اہم تقریبات منعقد کی جاتی رہیں۔