میرٹ‘ مساوات‘ سسٹم اور سٹیٹسمین

مسلم لیگ نون جوڑ توڑ کی سیاست میں مہارت رکھتی اور اس میدان کی پرانی شہسوار بھی ہے گو آج چھانگامانگا طرز کی سیاست مشکل ہے مگر مسلم لیگ نون حلف برداری تک پنجاب میں پانسہ بھی پلٹ سکتی ہے۔ حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے اور شہباز شریف کے مرکز میں جانے کا اعلان کیاگیا ہے۔اگر اگلے چند دن میں مسلم لیگ نون پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوئی تو شہبازشریف ہی وزیر اعلیٰ ہونگے۔
انتخابات کے دوران دھاندلی کی باتیں کرنیوالوں کیلئے احسن اقبال کا بیان لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ احسن اقبال کہتے ہیں ، پری پول یعنی انتخابات سے قبل دھاندلی ہوئی ۔ پاکستان کی سیاست تعجب خیز اور اس کے رنگ ڈھنگ ازل سے ہی نرالے ہیں۔ عمران خان جس منصب پر 22 سال کی تپسیا کے بعد پہنچ رہے ہیں محمد خان جونیجو اس پر بغیر کسی محنت ،کوشش اور روپیہ پیسہ خرچ کیے پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے بلامقابلہ انتخاب جیتا تھا۔صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے الٰہی بخش سومرو کو وزیراعظم بنانے کا جھانسہ دیا۔ چودھری شجاعت کے ذریعہ الٰہی بخش سومرو کو وزیراعظم بنانے کا پیغام بھیجا گیاپھر جب وہ سیاستدان اکٹھے ہوئے جن کے بارے میں جنرل ضیاء کہتے تھے کہ میں اشارہ کروں تودم ہلاتے چلے آئیں گے۔ ضیاء نے ان کے سامنے محمد خان جونیجو کا نام بطور وزیراعظم پیش کیا تو اس پر سب سے زیادہ سراسیم و ششدرسومرو ہوئے ۔ انہوں نے چودھری شجاعت حسین کی طرف دیکھا ، چوہدری شجاعت بھی کن انکھیوں سے ان کی طرف دیکھ رہے تھے وہ کچھ بولے تو نہیں تاہم تاثرات سے ظاہر ہورہا ہے جیسے کہہ رہے ہوں۔’’ میں کیہہ کراں‘‘۔عمران خان بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے 9سال چانسلر رہے ان کی شخصیت میں ایک گریس اور وقار ہے۔ وہ انتخابات کے بعد بنی گالہ میں بیٹھے ہیں وہیں ملاقاتی آ رہے ہیں۔
عمران خان کی طرح چودھری برادران نے بھی گریس اور وقار کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے پی ٹی آئی کیساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تھی‘ ان کے حصے میں چار قومی اور 7 پنجاب اسمبلی کی سیٹیں آئیں۔ انہوں نے تحریک انصاف کی غیر مشروط حمایت کا فیصلہ کیا۔ انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد حمزہ شہباز نے چودھری شجاعت سے رابطہ کیا ۔ مشاہد حسین سید اور سردار ایاز صادق، چودھری برادران سے بالمشافہ ملے مگر انہوں نے پنجاب میں لیگی حکومت بنانے میں ساتھ دینے سے معذرت کر لی۔ ان کی طرف سے پیغام پہنچایا گیا کہ میاں شہبازشریف خود ملاقات کیلئے آنا چاہتے ہیں مگر چودھریوں نے ’’زور دار‘‘ معذرت کر لی تھی ۔عمران خان سے ملے تو چودھری شجاعت اور پرویزالٰہی نے کسی وزارت یا کسی عہدے کا تقاضا نہیں کیا۔ سب عمران خان کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ عمران خان نے چودھری پرویزالٰہی کو سپیکر پنجاب اسمبلی نامزد کردیا۔ جہانگیر ترین ، علیم خان واقعی عمران خان کے جانثار ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں۔ مگر علیم خان نیب کو مطلوب اور جہانگیر ترین نوزشریف کی طرح نااہل ہو چکے ہیں۔ ترین کی نظرثانی کی اپیل سپریم کورٹ میں ہے۔ جہانگیر ترین کا جہاز ایسی اڑانیں بھرتا رہا دھوکہ منڈی سے ہمارے دوست محمد افضل کے مطابق شہرت میں ترین کا جہاز ایم ایم عالم کے جہاز کی جگہ لے رہا ہے۔بلوچستان عوامی پارٹی کی لیڈر شپ نے بھی عمران خان کی غیر مشروط سپورٹ کرکے گریس دکھائی ہے۔
عمران خان کے ساتھ غیر ملکی سفیروں کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسرے ممالک کے سربراہان بھی تہنیتی پیغامات بھیج رہے ہیں۔عمران خان کو سب سے اہم کال بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی طرف سے آئی۔ انہوں نے ہر بھارتی وزیراعظم کی طرح روایتی طور پر پاکستان کے متوقع وزیراعظم کو مبارکباد دی۔مگر ان کا دل شاید میاں محمد نواز شریف کی دوستی میں اٹکا ہوا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو گہرا دوست قرار دیتے اور فیملی مراسم بھی ہیں۔انتخابات کے دوران انتخابات سے قبل اور انتخابات کے بعد بھی بھارتی میڈیا عمران خان کے خلاف زہر اگلتا رہا۔ عمران خان کی کرکٹ سٹار کے طور پر پوری دنیا میں شہرت ہے۔ بھارت میں بھی عمران کو پسند کرنے والا ایک حلقہ موجود ہے۔ان میں فنکار کھلاڑی شامل ہیں۔بھارت میں ایسے لوگوں کی طرف سے عمران خان کی وسیع سطح پر پذیرائی کی گئی۔خصوصی طور پر عمران خان کے ساتھ کھیلنے والے بھارتی کھلاڑی خوشی کا اظہار کر رہے اور پیغامات بھیج رہے ہیں۔اس پر بھی بھارتی میڈیا آگ بگولا ہے۔
مودی نے عمران خان سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ تعلقات میں نئے دور کے آغاز پر تیار ہیں۔عمران خان نے مودی سے کہا کہ عوام کو غربت سے نکالنے کے لیے مشترکہ تدبیر کرنا ہوگی۔یقینا غربت پاکستان اور بھارت میں بہت بڑا مسئلہ ہے۔عمران خان کے پاس نہ جانے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کونسی مشترکہ تدبیر اختیار کرنے کا فارمولا ہے؟۔پاکستان اور بھارت کے درمیان سنگین ترین معاملہ مسئلہ کشمیر ہے۔اس مسئلہ سے صرف نظر کرتے ہوئے آپ نہ تو مودی کے دوست بن سکتے ہیں نہ ہی پاکستان بھارت تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں اور نہ ہی غربت کے خاتمہ کے لیے کوئی مشترکہ تدبیر قابل عمل ہو سکتی ہے۔مودی کی طرف سے تعلقات میں نئے دور کے آغاز پر تیار ہونے کا بیان مناسب ہے اگر وہ خلوص کیساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف آتے ہیں تو بلاشبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان نئے دور اور بہتر تعلقات کا آغاز ہو سکتا ہے۔مسئلہ کشمیر کے حل میں پیش رفت کے بغیر عمران خان ، مودی کے ساتھ اسی طرح چلتے ہیں جس طرح نواز شریف چلتے تھے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے پس و پیش سے کام لیتے ہیں تو خان پاکستان کے میڈیا اور سپورٹر کی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ایسی صورت میں یہ سلوگن دہرانے میں ایک لمحہ ضائع نہیں کریں گے ’’ مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے ‘‘ غیر جانبدار حلقے کہتے ہیں پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے عمران کو انتہائی محتاط رہنا ہوگا۔ (ختم شد)