جب زندگی شروع ہو گی

2018 ,فروری 3



جب کبھی انہیں بھوک لگے گی تو انھیں کھانے کے لیے خاردار جھاڑیاں اور کڑوے زہریلے تھوہر کے درخت کے وہ پھل دیے جائیں گے جن پر کانٹے لگے ہوں گے۔ جبکہ پینے کے لیے غلیظ اور بدبودار پیپ، ابلتا پانی اور کھولتے تیل کی تلچھٹ ہوگی جو پیٹ میں جاکر آگ کی طرح کھولے گا اور پیاس کا عالم یہ ہوگا کہ یہ لوگ اس کو تونس لگے ہوئے اونٹ کی طرح پینے پر مجبور ہوں گے۔ وہ پانی ان کی پیٹ کی انتڑیاں کاٹ کر باہر نکال دے گا۔
جمشید کو ابھی حساب کے لیے پیش نہیں کیا گیا تھا۔ دو فرشتے اس کو عرش کے قریب لے کر کھڑے ہوئے تھے اور وہ اپنی باری کا انتظار کررہا تھا۔ اس کا چہرہ ستا ہوا تھا جس پر دنیا کے پچاس ساٹھ برسوں کی دولتمندی کا تو کوئی اثر نظر نہیں آتا تھا، لیکن حشر کے ہزاروں برس کی خواری کی پوری داستان لکھی ہوئی تھی۔ اس کے قریب جانے سے قبل میںنے اپنے دل کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ قریب پہنچا تو اس کے قریب کھڑے فرشتوں نے مجھے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ مگر صالح کی مداخلت پر انہوں نے ہمیں اجازت دے دی۔ جمشید نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ وہ بے اختیار میرے قریب آیا اور میرے سینے سے لپٹ گیا۔ پھر وہ میری طرف دیکھ کر بولا:
”ابو میں اتنا رویا ہوں کہ اب آنسو بھی نہیں نکل رہے۔“
میں اس کی کمر تھپتھپانے کے سوا کچھ نہ کہہ سکا۔ پھر اس نے آہستگی سے کہا:
”ابو شاید میں اتنا برا نہیں تھا۔“
”مگر تم بروں کے ساتھ ضرور تھے بیٹا !بروں کا ساتھ کبھی اچھے نتائج تک نہیں پہنچاتا۔ تم نے شادی کی تو ایسی لڑکی سے جس کی واحد خوبی اس کا حسن اور دولت تھی۔ خدا کی نظر میں یہ کوئی خوبی نہیں ہوتی۔ تم ہم سے الگ ہوگئے اور اپنے سسر کے ایسے کاروبار میں شریک ہوگئے جس کے بارے میں تمھیں معلوم تھا کہ اس میں حرام کی آمیزش ہے۔ مگر بیوی، بچوں اور مال و دولت کے لیے تم حرام میں تعاون کے مرتکب ہوتے رہے۔ یہی چیزیں تمھیں اس مقام تک لے آئیں۔“
”آپ ٹھیک کہتے ہیں ابو، مگر میں نے نیکیاں بھی کی تھیں۔ تو کیا کوئی امید ہے؟“
میں خاموش رہا۔ میری خاموشی نے اسے میرا جواب سمجھادیا۔ وہ مایوس کن لہجے میں بولا:
”مجھے اندازہ ہوگیا ہے ابو۔ اپنے بیوی بچوں اور ساس سسر کو جہنم میں جاتا دیکھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوچکا ہے کہ آج کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ سارا اختیار اس رب کے پاس ہے جس کے احکام کو میں بھولا رہا۔ آج جس کا عمل اسے نہیں بچاسکا اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچاسکے گی۔ میں ہزاروں برس سے اس میدان میں پریشان پھر رہا ہوں۔ میں ان گنت لوگوں کو جہنم میں جاتا دیکھ چکا ہوں۔ مجھے اب اپنی نجات کی کوئی امید نہیں رہی ہے۔ میں نے اللہ سے بہت معافی مانگی ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ آج معافی مانگنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ابو! اللہ میاں شاید مجھے معاف نہ کریں۔ مگر آپ مجھے ضرور معاف کردیجیے۔ آپ تو میرے باپ ہیں نا۔“
یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ میری آنکھوں سے آنسو نہ بہیں، مگر نہ چاہتے ہوئے بھی میری آنکھیں برسنے لگیں۔ اسی اثنا میں جمشید کا نام پکارا گیا۔ فرشتوں نے فوراً اسے مجھ سے الگ کیا اور بارگاہ ربوبیت میں پیش کردیا۔
وہ ہاتھ باندھ کر اور سر جھکاکر سارے جہانوں کے پروردگار کے حضور پیش ہوگیا۔ ایک خاموشی طاری تھی۔ جمشید کھڑاتھا مگر اس سے کوئی سوال نہیں کیاجارہا تھا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس خاموشی کی وجہ کیا ہے۔ تھوڑی دیر میں وجہ بھی ظاہر ہوگئی۔ کچھ فرشتوں کے ساتھ ناعمہ وہاں آگئی۔ اس کے ساتھ ہی صالح نے مجھے اشارہ کیا تو میں ناعمہ کے ساتھ جاکر کھڑا ہوگیا۔ ناعمہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ وہ مجھ سے کچھ پوچھنا چاہ رہی تھی، مگر بارگاہ احدیت کا رعب اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا ا س نے میرے دل کی دھڑکن تیز کردی۔ حکم ہوا اس کے اعمال ترازو میں رکھو۔ پہلے گناہ رکھے گئے۔ جن سے الٹے ہاتھ کا پلڑا بھاری ہوتا چلا گیا۔ فرشتے نے پہلی نیکی اٹھائی۔ یہ ناعمہ کے ساتھ کیا گیا اس کا حسن سلوک تھا۔ حیرت انگیز طور پر سیدھے ہاتھ کا پلڑا بلند ہونا شروع ہوا۔ میں نے اپنے برابر کھڑی ناعمہ کو جھنجھوڑ کر کہا :”ناعمہ! آنکھیں کھولو۔“اٹھتے پلڑے کے ساتھ اس کی آس بھی بن گئی۔لیکن ایک جگہ پہنچ کر سیدھے ہاتھ کا پلڑا ٹھہرگیا۔ الٹے ہاتھ کا پلڑا ابھی بھی بھاری تھا۔ ہمارے دلوں میں جلنے والی امید کی شمع پھر بجھنے لگی۔ فرشتے نے آخری نیکی اٹھائی اور بلند آواز سے کہا۔ یہ توحید پر ایمان ہے۔ اس کے رکھتے ہی پلڑے کا توازن بدل گیا
”ناعمہ! آنکھیں کھولو۔“
میری آواز جمشید تک بھی چلی گئی۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور آہستہ آہستہ کھڑا ہوگیا۔اٹھتے پلڑے کے ساتھ اس کی آس بھی بن گئی۔لیکن ایک جگہ پہنچ کر سیدھے ہاتھ کا پلڑا ٹھہرگیا۔ الٹے ہاتھ کا پلڑا ابھی بھی بھاری تھا۔ ہمارے دلوں میں جلنے والی امید کی شمع پھر بجھنے لگی۔ فرشتے نے آخری نیکی اٹھائی اور بلند آواز سے کہا۔ یہ توحید پر ایمان ہے۔ اس کے رکھتے ہی پلڑے کا توازن بدل گیا۔
فرشتے نے نجات کا فیصلہ تحریر کرکے نام؟ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دے دیا۔ جمشید کے منہ سے شدت جذبات میں ایک چیخ نکلی۔ اسے جنت کا پروانہ مل گیا تھا۔
ہمارا پورا خاندان حوض کوثر کے وی آئی پی لاو نج میں جمع تھا۔ میری تینوں بیٹیاں لیلیٰ، عارفہ اور عالیہ اور دونوں بیٹے انور اور جمشید اپنی ماں ناعمہ کے ہمراہ موجود تھے۔ جمشید کے آنے سے ہمارا خاندان مکمل ہوگیا تھا۔ اس لیے اس دفعہ خوشی اور مسرت کا جو عالم تھا وہ بیان سے باہر تھا۔پھر میں نے اپنے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”میرے بچوں! اب دنیا کی زندگی قص? ماضی ہوچکی ہے۔ اب تمھاری منزل ختم نہ ہونے والی جنت کی بادشاہی ہے۔ سکون، آسودگی، آسانی، محبت، رحمت، لطف و سرور۔۔۔ تمھیں یہ سب مبارک ہو۔ دیکھا تم نے ہمارا رب کتنا کریم و رحیم ہے۔ آو ہم سب مل کر اپنے رب کریم کی حمد کریں اور مل کر کہیں ’الحمد للہ رب العالمین‘۔“
سب نے مل کر ’الحمد للہ رب العالمین‘کو ایک نعرے کی شکل میں بلند کیا۔”عبد اللہ! حشر کے دن کے معاملات اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تمھیں اگر حشر کے معاملات سے کوئی دلچسپی باقی رہ گئی ہے تو دوبارہ وہاں چلے چلو۔“، کچھ دیر بعد صالح نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا۔
”اس وقت حساب کتاب کہاں تک پہنچا ہے؟“، ناعمہ نے دریافت کیا۔
”لوگوں کی زیادہ بڑی تعداد آخری زمانے میں پیدا ہوئی تھی۔ وہ سب اب نمٹ چکے ہیں۔ مسلمانوں اور مسیحیوں اور ان کے معاصرین کا عمومی حساب کتاب ہوچکا ہے۔ اس وقت یہود کا حساب چل رہا ہے۔ یوں سمجھ لو کہ بیشتر انسانیت کی تقدیر کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ دیگر امتوں میں لوگوں کی تعداد بہت ہی کم تھی اس لیے اب بہت زیادہ وقت نہیں لگے گا۔“”ٹھیک ہے۔ ہم لوگ چلتے ہیں۔“، میں نے نشست سے اٹھتے ہوئے کہا۔
ناعمہ اور بچے بھی اپنی نشستوں سے اٹھ گئے۔ ناعمہ نے اٹھتے ہوئے کہا:
”میں ان بچوں کے ہمراہ ان کے خاندانوں کے پاس جارہی ہوں۔ یہاں وی آئی پی لاونج میں تو صرف آپ کے بچے آسکتے ہیں۔ ان کے بچے تو نیچے انتظار کررہے ہیں۔ میں ان کے پاس جارہی ہوں۔ اور ہاں مجھے اپنے جمشید کے لیے کوئی نئی دلہن بھی ڈھونڈنی ہے۔“میں اس دفعہ حشر میں دیر تک کھڑا رہا اور لوگوں کا حساب کتاب دیکھتا رہا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس سے قبل میں نے چند ہی لوگوں کا حساب کتاب دیکھا تھا۔ مگر اب اندازہ ہورہا تھا کہ اللہ تعالیٰ انتہائی مکمل اور جامع حساب کررہے ہیں۔ لوگوں نے رائی کے دانے کے برابر بھی عمل کیا تو وہ ان کی کتاب اعمال میں موجود تھا۔ ان کی نیت، محرکات اور اعمال ہر چیز کو پرکھا جارہا تھا۔ فرشتوں کا ریکارڈ، دیگر انسان، در و دیوار اور سب سے بڑھ کر انسان کے اپنے اعضا گواہی میں پیش ہورہے تھے۔ ان سب کی روشنی ہی میں کسی شخص کے ابدی مستقبل کا فیصلہ سنایا جاتا۔ یوں انسان پر رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں ہورہا تھا۔ جس کو معاف کرنے کی ذرا بھی گنجائش ہوتی اسے معاف کردیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ کے عدل کامل اور رحمت کامل کا ایسا ظہور تھا کہ الفاظ اسے بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
میں اسی حال میں تھا کہ صالح نے میرے کان میں سرگوشی کی:
”ناعمہ بڑی شدت سے تمھیں ڈھونڈرہی ہے۔“
”خیریت؟“، میں نے دریافت کیا۔
”بڑا دلچسپ معاملہ ہے۔ بہتر ہے تم چلے چلو۔“
یہ کہہ کر صالح نے میرا ہاتھ پکڑا اور تھوڑی ہی دیر میں ہم ناعمہ کے پاس کھڑے تھے۔ مگر مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ناعمہ کے ساتھ ایک بہت خوبصورت پری پیکر لڑکی کھڑی ہوئی تھی۔ میں نے اپنی یادداشت پر بہت زور ڈالا مگر میں اسے پہچان نہ سکا۔
ناعمہ نے خود ہی اس کا تعارف کرایا:
”یہ امورہ ہیں۔ ان کا تعلق حضرت نوح کی امت سے ہے۔ یہ مجھے یہیں پر ملی ہیں۔ یہ آخری نبی یا ان کے کسی نمایاں امتی سے ملنے کی خواہشمند تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک تو میں انہیں نہیں لے جاسکتی تھی۔ البتہ میں نے سوچا کہ آپ سے انہیں ملوادوں۔ آخر آپ بھی بڑے نمایاں لوگوں میں سے ہیں۔“”ان کے اماں ابا سے بھی میری ملاقات ہوئی ہے۔“
ناعمہ بیچ میں بولی، مگر یہ اس کا اگلا خوشی سے بھرپور جملہ تھا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ امورہ سے مل کر اتنا خوش کیوں ہے اور کیوں اس نے مجھے میدان حشر سے واپس بلوایا ہے۔
”امورہ کے شوہر نہیں ہیں۔“
میرے اندازے کی تصدیق صالح نے کردی۔وہ میرے کان میں بولا:
”ناعمہ نے تمھاری ہونے والی بہو سے ملوانے کے لیے تمھیں بلایا ہے۔“
میرا اندازہ بالکل درست تھا۔ ناعمہ جمشید کے لیے دلہن ڈھونڈ رہی تھی اور آخرکار اسے اس کوشش میں اس حد تک کامیابی ہوچکی تھی کہ لڑکی اسے پسند آگئی تھی۔ مگر لڑکے لڑکی نے ایک دوسرے کو پسند کیا یا دیکھا بھی ہے یہ مجھے علم نہیں تھا۔ مگر ناعمہ کو اس سے کوئی زیادہ فرق بھی نہیں پڑتا تھا۔ اس کے خیال میں اس کا راضی ہوجانا ہی اس رشتے کے لیے کافی تھا۔
میں نے دریافت کیا:
”امورہ آپ کے شوہر کہاں ہیں؟“
امورہ نے نسبتاً شرماکر کہا:
”دنیا میں صرف 15 سال کی عمر میں میرا انتقال ہوگیا تھا۔ میں بچپن سے ہی بہت بیمار رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت نے اس کا یہ بدلہ دیا کہ بغیر کسی حساب کتاب کے شروع ہی میں میرے لیے جنت کا فیصلہ ہوگیا۔“”ذرا سامنے دیکھیے سماں بدل رہا ہے۔“
میں نے اس کے کہنے سے توجہ کی تو احساس ہوا کہ واقعی اب شام ڈھلنے کے بالکل قریب ہوچکی ہے۔ اب مغرب کے جھٹپٹے کا سا وقت ہورہا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ یہ تبدیلی کسی اہم بات کا پیش خیمہ ہے۔
پیچھے سے ایک آواز آئی:
”ہاں تم ٹھیک سمجھے۔“
یہ صالح کی آواز تھی۔ وہ میرے قریب بیٹھتے ہوئے بولا:
”اس تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ حساب کتاب ختم ہورہا ہے۔ تمام لوگوں کا حساب کتاب ہوچکا ہے۔“اس کے ساتھ ہی امثائیل پیچھے سے نکل کر سلام کرتا ہوا سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ یہ میرے الٹے ہاتھ کا فرشتہ تھا۔ میں نے سلام کا جواب دیا اور ہنستے ہوئے صالح سے دریافت کیا:
 ”ان کی وجہ نزول؟“
”حساب کتاب ختم ہوچکا اب تمھیں پیش ہونا ہے۔ ہم دونوں مل کر تمھیں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کریں گے۔“
پیشی کا سن کر مجھے پہلی دفعہ گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ میں نے گھبرا کر سوال کیا:
”حساب اتنی جلدی کیسے ختم ہوگیا؟“
”میں تمھیں پہلے بتاچکا ہوں کہ یہاں وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور حشر میں وقت بہت آہستہ۔ اس لیے جتنا عرصہ تم یہاں رہے ہو اتنے عرصے میں وہاں حساب کتاب ختم ہوچکا۔“
”وہاں میرے پیچھے کیا ہوا تھا؟“
”تمام امتوں کا جب عمومی حساب کتاب ہوگیا تو میدان حشر میں صرف وہ لوگ رہ گئے جو ایمان والے تھے، مگر ان کے گناہوں کی کثرت کی بنا پر انھیں روک لیا گیا تھا۔ آخر کار حضور کی درخواست پر ان کا بھی حساب ہوگیا۔ اب آخر میں سارے انبیا اور شہدا پیش ہوں گے۔“ اب جنت و جہنم میں داخلے کا وقت آرہا ہے۔ چنانچہ اب اہل جنت اور اہل جہنم سب کو میدان حشر میں جمع کردیا جائے گا۔ ان سب کے سامنے انبیا اور شہدا کی کامیابی کا اعلان ہوگا۔ پھر گروہ در گروہ نیک وبد لوگوں کو جنت و جہنم میں بھیجا جائے گا۔ جس کے بعد ختم نہ ہونے والی زندگی شروع ہوجائے گی۔
(جاری ہے)

متعلقہ خبریں