اچھالی جھیل

وادی سون شمال وسطی پنجاب کا ایک تاریخی علاقہ ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انسانی ارتقاءکے چند مراحل کا آغاز یہاں ہی ہوا اچالی اور دھدادو گاوں کے درمیان کوہستان نمک کی اونچی نیچی پہاڑیوں کی بکل میں الگ تین جھیلیں اچالی، کھبیکی اور جھلر واقع ہیں جو اچالی کمپلیکس کے نام سے معروف ہیں۔ سائبیریا سے ہجرت کرکے آنے والے مہمان پرندے قراقرم اور ہندو کش کے اوپر سے پرواز کر کے (گرین روٹ ) سے موسم سرما گذارنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔

جھیلوں میں پانی کی مقدار اور جھیلوں کا رقبہ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے علاقے میں بارش کم ہو تو جھیل کا رقبہ خطرناک حد تک کم ہو جاتا ہے اور لوگ وہاں کھیتی باڑی شروع کر دیتے ہیں جھیلوں کے آس پاس کے علاقے میں بھی کھیتی باڑی ہوتی ہے کسی زمانے میں یہاں جنگلی کیکر ہوا کرتے تھے مگر اب انہیں کاٹ کر اراضی کو قابل کاشت بنا لیا گیا ہے اور اب یہاں سفیدہ یا پاپولر نظر آتے ہیں۔

کوہستان نمک سے پہاڑی نالے بارشوں کا پانی جھیلوں میں لاتے ہیں اور ایک چھوٹا سا چشمہ انہیں سیراب کرتا ہے علاقے میں 300ملی میٹر سے 800ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی ہے خشک موسم میں جھیلوں کی گہرائی آدھ میٹر سے بھی کم رہ جاتی ہے جبکہ برسات میں یہاں زیادہ سے زیادہ 6میٹر تک پانی ہوتا ہے جھیلوں کا پانی قدرتی طور پر کھارا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ یہ جلد کی کی کئی بیماریوں کے لیے شافی ہے۔
وائلڈ لائف اپیل پر سب سے پہلے 1966ءمیں اچھالی کمپلیکس کو جنگلی حیات کے لیے محفوظ قرار دیا گیا۔ 1976ءمیں جب پاکستان نے رامسر کنونشن میںشمولیت اختیار کی تو ہجرت کرکے آنے والے نایاب پرندوں کی آماہ جگاہ ہونے کی وجہ سے اچالی کمپلیکس کور امسر بین الاقوامی آبگاہ کا درجہ دے دیا گیا۔ یوں اچالی کمپلیکس پنجاب کی قدرتی جھیلوں میں سے پہلی آبگاہ ہے جسے رامسر آب گاہ کا درجہ اور بین الاقوامی شہرت ملی اور یہ رامسر سائٹس نمبر 818ہے ر امسر آب گاہوں میں شامل پنجاب کے دیگر آبی ذخائر قدرتی نہیں بلکہ دریا پر بیراج بننے کے نتیجے میں معروضی وجود میں آئے ہیں۔ رامسر آب گاہ کا درجہ ملنے کے بعد اچھالی کمپلیکس میں متعدد تحقیقاتی منصوبے شروع کیے جاچکے ہیں۔

شمال سے ہجرت کرکے آنے والے مہمان پرندوں میں سب سے اہم سفید سر والی خوبصورت بطخیں ہیں جو دنیا میں ختم ہونے کو ہیں اس کے علاوہ لم ڈھینگ سارس، چتکبرا فار، سفید آنکھ والی مرغابی خاکستری رنگ کے گد وہ اور شاہی عقاب بھی اس علاقے میں پائے جاتے ہیں پرندوں کے علاوہ مچھلیوں میں مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں لیکن 1982ءمیں ان مچھلیوں میں فارس مچھلیاں خاص طور پر کارپ ٹیلفاء چھوڑ دی گئی ہیں اور تجارتی بنیادوں پر ماہی گیری ہو رہی ہے۔ مچھلیوں کے اردگرد کوہستان نمک کے پہاڑ عام طور پر ننگے ہیں کہیں کہیں پھلائی، سنتھا، کرگدہ اور ٹپائی وغیرہ کے درخت ملتے ہیں جنہیں کاٹ کاٹ کر لوگ جلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اچھالی اور دھدرد دیہاتوں کے لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ اچھالی کمپلیکس کو ترقی دے کر سیاحتی مقام بنا دیا جائے تاکہ علاقے میں ترقی ہو اور یہاں کے لوگوں کو اس سے فائدہ حاصل ہو اسکول بنیں اور سڑکیں تعمیر ہوں جیسا کہ کوہستان نمک کی دوسری قدرتی جھیل کلر کہار کو فروغ دینے کے لیے منصوبے فروغ دیئے گئے۔
