موٹروے پر گاڑی کی سپیڈ 120کلومیٹر سے اوپر تھی کہ ایک گاڑی نے کراس کیا اور رولز کے مطابق بائیں طرف کا انڈیکیٹر دے کر گاڑی سامنے آگئی۔ یہ موٹروے کی روٹین ہے مگر اس گاڑی نے تین بار دائیںبائیں والے انڈیکیٹر جلائے جو عموماً دھند یا گاڑی کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو سلو سپیڈ رکھنے کے لئے جلائے جاتے ہیں ۔ سردی کی شام نہ دھند تھی نہ گاڑی کو کوئی مسئلہ کیونکہ وہ بدستور فراٹے بھرتی جارہی تھی۔ میں نے فرنٹ سیٹ پر ساتھ بیٹھے بیٹے طاہر سے سامنے والی گاڑی کے انڈیکیٹر جلنے کے بارے میں پوچھا‘ اس نے بتایا یوں انڈیکشن دینے کا مطلب ہوتا ہے "کیچ اِف یو کین" میں نے کہا ”اچھا“ اور ایکسی لیٹر پر دباﺅ بڑھا دیا۔ میرے سامنے ہونڈا سوکس تھی جو ٹویوٹا کرولاالٹس سے بہتر ہے مگر الٹس کے نئے ماڈل میں پہلی مرتبہ ایک فیچر انٹروڈیوس کرایا گیا ہے، آپ جس سپیڈ پر بھی جارہے ہیں ریس پر دباﺅ بڑھائیں تو گیئر خودکار طریقے سے کم ہوکر سپیڈ یکدم بڑھا دیتا ہے۔
میں نے ریس پر پاﺅں رکھا تو دس سیکنڈ سے بھی قبل یہ گاڑی سامنے والی کے بالمقابل آگئی، اس سے قبل میں ہارن دیکر اگلی گاڑی کے ڈرائیور کو خبردار کرچکا تھا۔ اس نے بھی ریس پر پاﺅں پر دباﺅ بڑھا دیا ہوگا،مگر سپیڈ میں یکدم اضافہ ممکن نہیں تھا۔ میری گاڑی اسے کراس کیا چاہتی تھی، میں نے ڈرائیور کی طرف دیکھا وہ سنہرے بالوں والی خاتون تھی۔ اس کے ساتھ آنکھیں چار نہیں ہوئیں‘ میں نے اس کا سائیڈ ویودیکھا تھا‘ اسے پہچاننے کے لئے یہی کافی تھا۔ میں نے اسی وقت ریس سے پاﺅں اٹھالیا۔ گاڑی کی رفتار کم ہوئی اور برابر چلنے والی گاڑی آگے نکل گئی۔ جتنی تیزی سے وہ گاڑی آگے گئی اتنی تیزی سے میں ماضی میں 20سال پیچھے چلا گیا۔ ادیب جاودانی مرحوم پرائیویٹ سکولوں کی تنظیم کے صدر رہے ہیں۔ میں ان کے مون ڈائجسٹ میں کام کرتا تھا۔1996ءمارچ اپریل میں انہوں نے اساتذہ میں تقسیم انعامات کی تقریب کا انعقاد کیا۔ مہمانوں میں گورنر سندھ حکیم سعید‘ اداکار محمدعلی‘ مجید نظامی‘ جسٹس نسیم حسن شاہ مدعو تھے۔ انعامات کی تقسیم کے دوران میں بھی سٹیج پر کھڑا تھا۔ ایک خاتون سٹیج پر انعام وصول کرنے آئی تو میں اسے دیکھتا رہ گیا۔ اس کے سنہرے بال کھلے ہوئے تھے‘ مجھے لگا اسے کہیں دیکھا ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے اس نے بھی مجھے معمول سے زیادہ غور سے دیکھا اور اپنی سیٹ پر جاتے ہوئے بھی مڑ کر دیکھا تھا۔ میں قطعی طور پر اس کی زلف گرہ گیر کا اسیر نہیں ہوگیا تھا‘ نہ دل دے بیٹھنے والا کوئی ماجرا تھا۔ اسی وقت اور اسی دن ہی نہیں کئی دن سوچتا رہا کہ اس خاتون کو کہاں دیکھا ہے۔ان دنوں میں مساوات میں کالم بھی لکھا کرتا تھا۔ آج کی طرح انٹرنیٹ سے سرچ آسان نہیں تھی کتابیں اور جرائد دیکھنا پڑتے تھے۔ ایک دن قلوپطرہ کے حوالے سے باتصویر کتاب دیکھ رہا تھا‘ چند ایک تصویریں دیکھیں تو لگا کہ قلوپطرہ ایسی خاتون کو کہیں دیکھا ہے،اور یہ وہی تھی یوں وہ معمہ حل اور مخمصہ دور ہوگیا۔ فلیٹیز ہوٹل میں تقریب میں نظر آنیوالی خاتون کی شکل قلو پطرہ کی تصویر سے ملتی تھی۔ چونکہ کئی روز تک ”یہ خاتون کون‘ اسے کہاں دیکھا ہے“ کی جستجو رہی تھی۔ اس لئے یہ تصویر دل میں تو نہیں بسی البتہ دماغ پر نقش ہوگئی تھی۔ گاڑی چلاتے ہوئے اسے دیکھا تو نہ جانے کونسے جذبے کے تحت پاﺅں ریس سے اٹھ گیا‘ شاید احتراماً ایسا ہوا تھا۔ اس خاتون نے بھی محسوس کرلیا کہ کراس کرتی گاڑی کی سپیڈ دانستہ کم کی گئی ہے۔ اس کے تھوری دیر بعد اس نے اپنی گاڑی کی سپیڈ اتنی کم کی کہ مجھے اس گاڑی کو کراس کرنا پڑا۔ دونوں گاڑیوں کی محتاط سے بھی کم رفتار تھی۔ برابر آنے پر اس نے ایک لمحے کے لئے میری طرف دیکھا اور دو انگلیوں کو سر کی طرف لے جاتے ہوئے سر کو تھوڑا سا نیچے کیا جسے سلام اور اظہارتشکر کہا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ سفر معمولی سے ارتعاش کے بعد استوار ہوگیا۔
طاہر کے دوست سردار اعجاز کی ایبٹ آباد میں شادی تھی‘ اس میں شرکت کیلئے جارہے تھے۔ ایک دن اسلام آباد میں ٹھہرنااور اگلے روز نتھیاگلی سے ہوکر ایبٹ آباد جانا تھا۔ہم لوگ تین بجے لاہور سے روانہ ہوئے، گاڑی کی فلنگ کے بعد میں نے دن کی روشنی میں گاڑی چلانے کی بات کی تھی‘ شام کے سائے پھیلے تو میں نے ڈرائیونگ سیٹ طاہر کے حوالے کر دی۔ رات کو گیسٹ ہاﺅس جانے سے قبل ہم لوگ سیدھے مونال چلے گئے جہاں ڈنر کے بعد گیسٹ ہاﺅس آگئے۔ سردی لاہور کے مقابلے میں زیادہ مگر ناقابل برداشت نہیں تھی۔ اسلام آباد سے اگلے روز نتھیاگلی جانا تھا‘ فیصلہ کیا کہ ایبٹ آباد کی طرف سے جائیں۔ حسن ابدال موٹر وے پر سفر کیا‘ جہاں سڑکوں کے درمیان ڈیوائیڈر نہیں،خوبصورت گرین بیلٹ ہے۔ موٹروے پر ایک جگہ گائیں آگئیں‘ ایمرجنسی بریک لگانا پڑی۔ حسن ابدال موٹروے سے نتھیاگلی پانچ چھ گھنٹے میں پہنچے۔ واپسی پر حویلیاں سے موٹروے پر رواں ہوئے،جہاں ہارڈلین پر موٹرسائیکل بھی خراماں خراماں چل رہے تھے۔موٹر وے پر وقفے وقفے سے ٹائروں پر توجہ دینے کی تنبیہ کے بورڈ لگے ہوئے تھے ۔واپسی پر ہم نے چکری انٹر چینج کے قیام و طعام ایریا میں آغاز شب پر چائے کا کپ پیا، اس روز جنرل خالدشمیم وائیں کی گاڑی چکری انٹر چینج کے قریب ٹائر پھٹنے سے الٹی جس میں وہ جاں بحق ہو گئے ۔ جاتے ہوئے ہری پور سے وہاںکے سرخ مالٹوں کے بارے میں پوچھا تو پھل فروشوں نے بتایا کہ دس پندرہ دن میں وہ سوغات دستیاب ہوگی۔ اسی فروٹ والے سے بڑے سے گریپ فروٹ کی طرف اشارہ کرکے اس کا ریٹ پوچھا تو اس نے کہا یہ گریپ فروٹ نہیں میٹھا ہے۔ اس سائز اور زرد رنگ کے میٹھے ہمارے ہاں نہیں پائے جاتے۔ سارا دن گھوم پھر کر ایبٹ آباد میں اعجاز کے گھر آگئے۔ اعجازاس کے بھائی بلال اور انکے والد وحیدصاحب نے ہماری بڑی آﺅ بھگت کی۔ مری‘ نتھیا گلی اور مانسہرہ میں سردار کڑلال قبیلہ بڑی تعداد میں مقیم ہے‘ یہ چند صدیاں قبل وسط ہند سے ہجرت کرکے اس علاقے میں آئے۔ بچیوں کی شادی کی اس قبیلے کی روایت حیران کن اور قابل تقلید ہے۔ اعجاز نے بتایا کہ گزشتہ دنوں ان کی ہمشیرہ کی شادی تھی جس پر چاولوں کی صرف ڈیڑھ دیگ صرف ہوئی۔ عزیز رشتہ دار بچی کو سلامی تو دیتے ہیں، کھانا نہیں کھاتے۔ اعجاز کی بارات لاہور آئی تھی، جن کا قیام کا اپنا انتظام تھا۔ اتفاق سے اس روز دلہن کے بھائی کا ولیمہ تھااس لئے کھانا کھایا ورنہ تو قیام کے ساتھ خود طعام کا بندوبست بھی کرنا پڑتا۔ رات کو دولہے کی مہندی کا فنکشن تھا‘ پورے دن کی سیاحت سے تھکاوٹ اور نیند کا زور تھا مگر سرداروں کا کلچر دیکھنے کے لئے مہندی دیکھی۔ جہاں دولہے کا کوئی شہ بالا نہیں ہوتا ‘ شہ بالا یا سربالہ بہت سے علاقوں میں دولہے کے ساتھ نتھی چھوٹے بچے کو کہتے ہیں۔ جہاں سربالا دولہے کا دوست ہوتا ہے‘ یہ ایک سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں جو کیک مٹھائیاں، کباب اور فروٹ وغیرہ لے کر آتے ہیں۔ جو ایک دوسرے کوکھلائے جاتے ہیں ۔ اس رسم کا نقطہ¿ عروج کیک اور کھیر وغیرہ دولہے کے سر اور پاﺅں تک مل دیئے جاتے ہیں۔ دولہے کی قمیص پھاڑنا بھی رسم کا حصہ ہے۔ ہم نے یہ تقریب ذرا فاصلے سے دیکھی۔ رات کو تھوڑی دیر کے لئے ہم باہر نکلے تو شہر کے ارد گرد پہاڑوں اور روشنیوں سے لگا کہکشائیں زمین پر اتر آئی ہیں۔ اعجاز نے روشنی کی ایک لکیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ لائٹننگ نہیں، جنگل کو آگ لگی ہوئی ، چیڑ کے درخت سے خارج ہونیوالا مادہ پٹرول کی طرح آتشگیر ہوتا ہے، بے حس اور شرارتی لوگ تیلی پھینک کر تماشا دیکھتے ہیں، یہ آگ تو بہت دور تھی واپسی پر کلر کہار کے پہاڑوںپر شعلہ فشاں درخت واضح نظر آ رہے تھے۔
ولیمہ ایک شادی ہال میں تھا‘ چار سو مہمان تھے مگر نظم وضبط مثالی تھا، کوئی افراتفری نظر نہیں آئی۔صبح اٹھے تو نہانے کیلئے کسی حمام کی تلاش تھی‘ پتہ چلا کہ شہر میں ابھی تک حمام ایجاد نہیں ہوئے۔شادی ہال کے قریب ہی خوبصورت گراﺅنڈ ہے جس میں پاک فوج نے کرکٹ ٹیم کی جسمانی فٹنس کیلئے تربیت کی تھی،اسے نیشنل تربیت گاہ بنایا جاسکتا ہے۔ ایبٹ آباد آنے سے قبل ہم لوگ نتھیا گلی گئے‘ بل کھاتی سڑک کافی کشادہ اور محفوظ ہے۔ ایبٹ آباد سے نکلتے ہی میں نے پہلی چڑھائی سے قبل گاڑی رکوائی۔ خزاں کے باعث اکثر درخت ٹنڈمنڈ تھے۔ میں نے ایک درخت کی شاخ توڑ کر مسواک بنائی جس سے کافی دنوں سے مسوڑھوں میں محسوس ہونے والی جلن دور ہوگئی۔ گاڑیاں نتھیاگلی کی طرف فراٹے بھرتی جارہی تھیں۔ مسافروں کے لئے ویگن کے ساتھ جیپیں بھی چلتی ہیں۔ کیری ڈبے بڑی تعداد میں موجود اور کرائے پر دستیاب ہیں۔ راستے میں جگہ جگہ بچے شاپر پکڑے گاڑیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک موڑ پر گاڑی رکوا کر پوچھا تو پتہ چلا ان کے پاس ملوک ہیں۔ ہماری طرف دو بچے بڑھ آئے دونوں اپنا سودا بیچنے پر مصر تھے۔ ہم نے دونوں سے خرید لیے۔ ہم نے لاہور سے یہ سفر 28دسمبر کو شروع کیا، 30کی رات کو واپسی ہوئی۔ گو سردیوں کا موسم تھا مگر سردی کی شدت زیادہ نہیں تھی۔سڑکوں اور پہاڑوں پر برف کی ٹکڑیاں نظر آئیں تو اندازہ ہوگیا کہ نتھیا گلی کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں۔ دو تین ہفتے قبل ان علاقوں میں شدید برفباری ہوئی تھی۔ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے سڑک کے اطراف میلی کچیلی برف کے ڈھیر بھی بڑھتے گئے۔ پہاڑوں پر اب مخمل کی سفید چادر پڑی نظر آرہی تھی۔ ہم نے نتھیاگلی سے ذرا آگے نکل کر سڑک کی سائیڈ پر گاڑی روکی۔ میں باہر نکلتے ہی پھسل کر گر گیا۔ اس جگہ روئی کی طرح سفید کافی برف تھی، کہیں روئی کی طرح نرم اور کہیں پتھر کی طرح سخت۔ نرم برف گالے بناکر اڑائی جاتی رہی۔ ہم نے لالہ زار تک جانا تھا۔ یہ کوئی آدھے پونے گھنٹے کی مسافت پر ہے جہاں گاڑی نہیں جاسکتی۔ پیدل جائیں یا گھوڑے پر جاسکتے ہیں۔ سڑک پر گاڑی پارک کی‘ لالہ زار کی طرف روانگی پر اوپن انٹرنس سے چائے کا کپ پیا۔ چائے کا زیادہ شوقین نہیں ہوں مگر یہاں چائے پینے کا منفرد مزا تھا۔ سفر کے دوران بسیار خوری سے گریز کرتا ہوں۔ صبح 8بجے ہلکا ناشتہ کیا تھا۔ اب اڑھائی بج رہے تھے‘ بھوک لگی تھی اس لئے چائے کا سواد دوبالا ہوگیا۔
فوٹو گرافی ساتھ ساتھ ہوتی رہی۔ ہماری ٹیم میں بیٹی طاہرہ‘ دامادعمران‘ ان کی چارسال کی بیٹی دعا عروج اور گاﺅں سے آئی انٹر کی سٹوڈنٹ بھتیجی صبا بھی شامل تھی۔ ہم خراماں خراماں لالہ زار کی طرف روانہ ہوئے‘ برف پوش پہاڑ خزاں کے باوجود بہت سے ہرے بھرے درختوں کی بہار نظارے کو حسین بنائے ہوئے تھی۔ یہ کوئی برفباری کا منظر نہیں تھا تاہم دل پشوری کے لئے سنو ہائیکنگ کہنے میں ہمارا کوئی خرچ نہیں ہوتا۔ قافلہ چلا‘ چلتا گیا‘ ابھی ڈیڑھ دو سو میٹر ہی چلا ہوگا کہ خطرات کی بو آنے لگی۔ لوگوں کی آمدورفت سے برف جم کر شیشہ بن چکی تھی۔ دعا کا طاہر نے ہاتھ پکڑا ہوا تھا وہ ہر دو قدموں کے بعد پھسلتی مگر گرنے سے محفوظ رہتی۔ جس راستے پر ہم ہائیکنگ کر رہے تھے یہ ساڑھے چار سے پانچ فٹ چوڑا تھا۔ کہیں اس کے ایک طرف پہاڑ اور درخت جبکہ دوسری طرف سینکڑوں فٹ گہری کھائیاں تھیں۔ ہر کسی کی کوشش تھی کہ کھائیوں کی گہرائی میں نہ جھانکے مگر اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ ہمارے آگے پہلے سے ایک فیملی جاتے جاتے رک گئی تھی۔ ایک پچاس سالہ شخص ان کا سالار تھا‘ وہ کہہ رہا تھا کہ اس کے بوٹوں کے تلوے فلیٹ ہیں‘ بار بار پھسل رہے ہیں۔ ان کے گروپ میں دو جوان بیٹیاں‘ ایک نوجوان، ایک خاتون جو شاید ان کی بیوی ہو‘ اسے بیوہ ہونے سے بچانے کے لئے اس نے سب کو واپس جانے کی نصیحت کی‘ مگران کے بچے سنی ان سنی کر رہے تھے۔اس دوران ہماری ٹیم اس خاندان سے آگے بڑھ رہی تھی۔ میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا اور کھائی والے کنارے کے دوسری طرف تھا۔ کھائی والے کنارے پر خاردار تار لگی ہوئی تھی جو کبھی دو تین فٹ اونچی ہوگی اب زمین سے صرف دو تین انچ اوپر تھی جو کھائی کی طرف لڑھکتے شخص کو سہارا نہیں دے سکتی۔ اس دوران ہمارے قافلہ میں سب سے آگے طاہرہ پیٹ کے بل راہداری کے درمیان گری جہاں پتھر ابھرے ہوئے تھے۔ اس کے بعد صباءبھی پھسل کر گرتے گرتے بچی‘ صحیح سلامت کھڑی ہوگئی۔ میں پوری ٹیم کو صحیح سلامت گھر لانا چاہتا تھا۔ واپس مڑنے کو کہا تو خطرے کا ادراک کرتے ہوئے کسی نے بھی آگے جانے پر اصرار تو کیا بات تک نہ کی۔ دوسرا قافلہ جو آگے جائیں‘ واپس آئیں کی کشمکش میں تھا اس نے بھی واپسی کی راہ لی۔ اترائی چڑھائی سے زیادہ خطرناک محسوس ہو رہی تھی۔ اوپر تک گھوڑے جاتے ہیں، ان کے پاﺅں بھی پھسلتے ہیں‘ ایک پاﺅں،دو پاﺅں پھسلیں تو باقی سہارا بن جاتے ہیں۔ گھوڑے کے تینوں پاﺅں پھسل جائیں تو گھوڑے کا سنبھلنا بھی اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا انسان کا ایک پاﺅں پھسلنے پرسنبھلنا ممکن نہیں رہتا۔ واپسی پر کھائیاں مزید خوفناک نظر آرہی تھیں۔ گھوڑوں نے راستے کی ایک سائیڈ پر راستہ بنایا ہوا ہے مگر یہ کھائی کی طرف ہے۔
پھونک پھونک کر قدم رکھنے سے بھی زیادہ احتیاط سے اترائی اتر رہا تھا،تمام تر احتیاط کے باوجود میرا پاﺅں پھسلا اور میں دائیں پسلیوں کے بل گر پڑا۔ راہداری پر نیچے تک لڑھکنے سے بچنے کے لئے ایک ہاتھ کسی سہارے کے لئے زور سے بڑھایا تو برف کی چھوٹی سے ڈھیری پر پڑا‘ ہاتھ میں نرم برف آئی۔ اس سے ڈیڑھ فٹ دور درخت کی چار پانچ انچ ابھری ہوئی جڑ تھی۔ دوسرا ہاتھ تھوڑا گھسٹ کر اس ڈالا۔ اگر پھسلنا شروع ہو جاتا تو اس جڑ کو پکڑنا ممکن نہیں تھا۔ طاہر میرے پیچھے اور سب سے قریب تھا اس نے بڑھ کر اٹھنے میں میری مدد کی۔ اس کے بعد تھوڑا اس نے مجھے سہارا دے کر چلایا اب قدرے راستہ آسان تھا۔ اس دوران جہاں سے ہم واپس ہوئے تھے موڑ کی وجہ سے وہ لوگ نظر نہیں آرہے تھے تاہم لڑکی کی دلدوز چیخ بلند ہوئی جس نے دہلا کے رکھ دیا۔ زبان سے بے ساختہ نکلا یا اللہ خیر!۔ تھوڑی دیر میں طاہرہ وہاں سے آئی اس نے بتایا کہ دوسرے قافلے کا سالار عین کھائی کے کنارے پر گراچیخ اس کی ایک بیٹی نے خوفزدہ ہوکر ماری تھی۔ ابھی ہم خطرے سے پوری طرح نکلے نہیں تھے کہ مجھے اپنے عقب سے کسی کے لڑکھڑانے کا احساس ہوا۔ میں نے غیر ادرادی طوراپنا بایاں بازو تھوڑا سا کھولاجو ایک لڑکی نے تھام لیا مگر وہ زیادہ لڑکھڑائی نہیں تھی ورنہ آسمان سے گرکر کھجور میں اٹکنا یقینی تھا۔ اس کے بعد خوفزدہ لڑکی چند قدم میرا ہاتھ تھام کر چلی جب سمجھا کہ خطرے سے باہر ہے تو انکل شکریہ کہہ کر اپنی فیملی کے ساتھ جاملی۔ یہیں یہ معاملہ ختم نہیں ہوا‘ اب وہاں سنہرے بالوں والی وہی خاتون ہاتھوں پر دستانے چڑھائے خوفزدہ کھڑی،شایدپھسلنے کے تجربے سے دوچار ہو چکی تھی‘ اسے بھی اترائی کے دریا کا سامنا تھا‘ اس نے اپنا ایک دستانہ اتارا اور خطرے سے مکمل طور پر نکلنے کیلئے میرا و ہی ہاتھ پکڑ لیا جو چند قدم پہلے میری بیٹیوں کی طرح کی کسی بیٹی نے خطرہ کم ہونے پر چھوڑاتھا۔ سردی تو جہاں خاصی تھی، گرنے کے بعد اٹھتے ہوئے شیشہ بنی برف پر پڑنے سے ہاتھ سُن ہوچکے تھے۔ اس خاتون نے چمڑے کے دستانے سے ہاتھ نکال کر میرے ہاتھ پر رکھا چونکہ دل میں بدی اور نیت میں کھوٹ نہیں تھی، اس لئے کیفیت قطعاً ایسی نہ تھی کہ: روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
تاہم یخ بستہ ہاتھ کو گرمائش ضرور محسوس ہوئی۔ دس بارہ قدموں کے بعد راستہ مکمل طور پر صاف اور محفوظ ہوگیا۔ سامنے چائے والا تھا۔ یہ لڑکا بجلی کی مشین سے چائے کافی بناتا ہے۔ میں نے چائے کی آفر کی تو اس خاتون نے ہاں میں جواب دیا۔ ہماری ٹیم گاڑی لینے چلی گئی تھی جو تھوڑے فاصلے پر کھڑی کی تھی۔ اس خاتون نے بھی کہا کہ 20سال قبل فلیٹیز میں آپ سے سامنا ہوا تو لگا آپ کو کہیںدیکھا ہے مگر کہاں یہ ذہن میں نہیں آرہا تھا۔ کئی روز اس مخمصے میں گزرے‘ ہسٹری میرا سبجیکٹ ہے اور انٹرنیشنل پرسنالٹی میں خصوصی دلچسپی ہے پھر ایک روز سٹڈی کے دوران معمہ حل ہوگیا دراصل مارک انطونی کی تصویر سے آپ کی کافی مشابہت تھی۔ مارک انطونی سے میری شکل کا ملنا میرے لئے قابل فخر نہیں‘ حجاج بن یوسف سے بھی مشابہت ہوسکتی تھی۔ ایک مرتبہ پروفیسر اسرار بخاری نے بھی کہا تھا کہ میری شکل مارک انطونی سے ملتی ہے۔ اس کا تو مجھے کچھ علم ہے نہ کوئی کریز ہے تاہم میری شکل ڈاکٹر منور صابر سے، جو پنجاب یونیورسٹی میں جغرافیہ کے استاد ہیں‘ ضرور ملتی ہے اور کافی زیادہ ملتی ہے۔ وہ بہترین شاعر اور کالم نگار بھی ہیں اور میں ان کے دوستوں میں سے بھی ہوں۔ حیران کن حد تک ہماری عادتوں اور پسند ناپسند میں بھی یکسانیت ہے۔ ایک دن ڈاکٹر منور صاحب گھر ملنے آئے وہ بیل دے رہے تھے سوشل ورکر رمضان چشتی بھی اس دوران گھر تلاش کر رہے تھے ۔ انہوں نے منور صاحب کو دیکھ کر سمجھا کہ یہ میرے بھائی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آپ کے بھائی کو دیکھ کر گھر تلاش کر سکا۔ پنجاب یونیورسٹی کے کلب سے کئی مرتبہ کھانا کھایا عملہ ڈاکٹر منور ہی سمجھ کر سرو کرتا ہے۔ ڈیلی دنیا میں ایک مرتبہ گیا تو سہیل وڑائچ نے ڈاکٹر منور سمجھ کر چائے پلائی میں ایک دن ان کے آفس ایک دوست کے ساتھ چلا گیا ٹیبل پر شیشے کے نیچے پانی کے استعمال میں احتیاط کے حوالے سے تحریر پڑی تھی اسے پڑھتے پڑھتے میں ان کی چیئر پر بیٹھ گیا۔ آفس بوائے آیا تو وہ بھی پہچان نہ سکا فقط اتنا کہا سر آپ نے ٹائی لگانا بھی شروع کر دی ہے، ڈاکٹر صاحب ذرا لیٹ تھے میں وہاں سے چلا آیا تو ان کے آنے پر آفس بوائے نے حیرانی سے کہا سر آپ کپڑے بدل کر آئے ہیں؟ ہمارا قد، ویٹ اور جسامت اتفاقاً ایک جیسی ہے، کتابی ذوق بھی یکساں ہے، اکٹھے کھانا کھانے گئے تو حیران کن طور پر الگ الگ مینو سے ایک جیسا آرڈر دیا۔ جاوید چودھری کے ساتھ ڈاکٹر منور صاحب کی تصویر فیس بک پر اپ لوڈ کی گئی تھی ذرا غور سے دیکھیں یہ ڈاکٹر منور نہیں، جاوید چودھری سے میں نے ملاقات کی۔ ڈاکٹر صاحب کی والدہ شدید بیمار تھیں، اس دوران جاوید چودھری کا فون آ گیا تو میں نے ایڈونچر کے لئے جانے کی تجویز دی۔ جاوید چودھری نے یہ ملاقات اپنی دانست میں ڈاکٹر منور صاحب سے کی تھی۔
ایک بار پھر نتھیا گلی کے ٹی پوائنٹ پر آئیے ۔ خاتون نے بھی گاڑی میں پہچان لیا تھا۔ یہ سوال بھی کیا کہ میں نے جان بوجھ کر اسے کراس نہیں کیااور یہ بھی پوچھا ٹویوٹا کرولا پاور فل ہنڈا سوک کو اتنی تیزی سے کیسے پکڑ سکتی ہے‘ اس کو الٹس کے نئے فیچر کے بارے میں بتایا۔وہ اپنے میاں کے ساتھ دسمبر کی چھٹیوں میں سیر کے لئے آئی تھی جو اس وقت قریبی ہوٹل میں تھا، ناسازی طبع کے باعث وہ باہر نہیں آیا تھا۔ اس نے مجھے فیملی سمیت کھانے کی دعوت دی جس پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ چائے پی چکے تو میں نے ادائیگی کیلئے ویلٹ نکالا‘ اس نے اس سے پہلے ہی پیسے دیدیئے۔ ادائیگی پراصرار کرنے کے بجائے میں نے کہا کہ کیوں نہ ایک ایک کپ کافی کا پی لی جائے۔ اس کی کافی بھی زبردست ہوتی ہے،سردی بھی ہے۔ اس نے اتفاق میں سر ہلایا۔ لڑکے کو کافی بنانے کا کہنے کے ساتھ ہی میں نے اس کی ادائیگی بھی کردی۔اس دوران ہماری گاڑی آچکی تھی‘ ہم نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا‘ وہ اپنے ہوٹل کی طرف چل دی‘ میں گاڑی میں بیٹھ گیا۔ ہم نے ایک دوسرے کا نام پوچھا نہ فون نمبروں کا تبادلہ کیا۔ میں دانستہ اس باب کو مزید کھولنا نہیں چاہتا تھا شاید اس کی بھی یہی سوچ ہو۔