دیکھنے والے غضب کی نگاہ رکھتے ہیں ۔۔۔سالہا سال تک ایک غار میں مراقبہ کرنے والے ولی اللہ کا ایمان افروز واقعہ

لاہور(مہرماہ رپورٹ): حضرت شیخ بہلول دریائی ؒ مشائخ عظام اور اولیائے کرام میں قابل قدر شخصیت تھے ۔ حضرت شاہ لطیف بری امام ؒ کے نامور مرید و خلیفہ تھے۔ صاحب علم و فضل و زہد و تقویٰ تھے۔ اپنے معاصرین میں ممتاز تھے۔خزینۃ الاصفیہ سمیت علم تصوف کے محقق مفتی سرور قادری اور دیگر محقیقین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ بہلول دریائیؒ اپنے مرشد کی وفات کے بعد عراق و عجم کی سیاحت کو نکلے۔ پہلے نجف اشرف پہنچے۔ دو سال تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مزار اقدس پر اعتکاف کیا۔ وہاں سے کربلا آئے۔ حضرت حسینؓ کے مزار پر تین ماہ حاضری دیتے رہے وہاں سے مکمہ معظمہ آئے۔ مناسک حج ادا کیے۔یہاں سے مدینہ منورہ آئے۔ روضہ رسول اکرم صلی اللہ علی وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ پھر مشہد مقدس آئے۔ حضرت علی رضاؓ کے مزار پر حاضری دی تو بشارت پائی ’’ ایک مرد حق فلاں پہاڑ کی غار میں بیٹھا ہوا ہے۔ جو سلسلہ قادریہ ہی سے منسلب ہے اس کے پاس جاؤ اور اپنا حصہ لو۔ اگر چہ وہ مرد مجذوب ہے مگر پیر روشن ضمیر ہے ‘‘اشارہ غیبی پاتے ہی آپ وہاں پہنچے تودیکھا کہ غار میں ایک مرد کئی سال سے مراقبہ میں بیٹھا ہوا ہے۔ سوائے اس کے اور کوئی غار میں نہیں۔ اس کے چند خادم باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ شیخ نے اس بزرگ کا حال ان سے پوچھا۔ انہوں نے کہا ’’ شیخ ہر روز ایک مرتبہ مراقبہ سے سر اٹھاتے ہیں اور حاضرین پر نظر ڈالتے ہیں۔ لیکن ایک روز ان کی نظر میں تاثیر جلالی ہوتی ہے اور دوسرے روز تاثیر جمالی۔ آج نظر جلالی کا دن ہے۔ اس نظر کی کوئی شخص تاب نہیں لا سکتا‘‘ چنانچہ آپؒ نے اس روز توقف کیا۔ دوسرے روز علی الصبح غار میں پہنچے اور مجذوب کی نظر فیض اثر سے فیوض و برکات حاصل کئے۔ حضرت شیخ بہلول دریائی ؒ کا مزار چنیوٹ کے علاقہ میں ہے۔