بھٹو ہمہ جہت شخصیت

2018 ,اپریل 4



ذوالفقار علی بھٹو ہمہ جہت شخصیت تھے، ان کی طلسماتی اور سحر انگیز شخصیت کے جہاں گرویدہ لوگ ہمیشہ سے موجود رہے ہیں ان سے نفرت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں، ان کو 4 اپریل 1979 کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تھا مگر ان سے محبت اور نفرت کا باب بند نہ ہوسکا ۔ 1988ء سے 1999ء تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ دو دو بار اقتدار میں آئیں گو دونوں ایک بار بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکیں۔ ان کا دو دو بار اقتدار میں آنا بھی بھٹو سے محبت اور نفرت کا شاخسانہ تھا۔ بینظیر بھٹو کو فطری طور پر پرو بھٹو ووٹ ملتے تھے جبکہ یہاں نوازشریف کی سربراہی میں مسلم لیگ ن کو اینٹی بھٹو ووٹ ملتے رہے۔ میاں نوازشریف کی سیاست میں کامیابی کی بڑی وجہ ان کا اینٹی بھٹو ووٹ کو اپنی طرف مائل کرنا بتایا جاتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت ہر پاکستانی کے دل میں موجود رہی ہے۔ ہاں بالکل ، ایسا ہی ہے مگر کسی کے دل میں نفرت سے شعلوں کے شرارے بن کر‘ کسی کے دل میں محبت کی شبنم کی پھوار بن کر۔ لہٰذا دونوں پہلوئوں پر سرسری نظر ڈال لیتے ہیں۔ پہلے ان لوگوں کی نظر سے بھٹو کو دیکھتے ہیں جو دل کے مندر میںان کی مورتی بنائے بیٹھے ہیں۔
اپریل کی 4 تاریخ ، دنیا میں اس عہد ساز شخصیت کا یوم وفات ہے جس کے پاکستان پر احسانات سے اس کے دشمن بھی انکار نہیں کر سکتے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی ذات سے کسی کو ہزار اختلاف ہوں، تو ہوں مگر یہ سچائی اپنی جگہ ہے کہ وہ ایک تاریخ ساز اور عہد آفریں شخصیت تھے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا نام اور ناقابل فراموش کردار ہیں۔ وہ انتہائی مدبر سیاستدان، اعلیٰ تعلیم یافتہ، بے حد وسیع المطالعہ، وقت کے نباض شناس اور منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے دنیا سے اپنی خطابت و ذہانت کا لوہا منوایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام خامیوں اور بشری کمزوریوں کے باوجود عوام کی بھاری اکثریت آج بھی ان کا احترام کرتی ہے۔ دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ کے بعد انہوں نے مغربی پاکستان میں اقتدار سنبھالا اور اپنی بہترین صلاحیتوں سے جو اہم کارنامے انجام دئیے وہ قابل ذکر ہیں بھٹوکے دور میں ہونی والی اصلاحات میں بھاری صنعتوں کو قومی تحویل میں لینا، بنکوں، انشورنس کمپنیوں اورپرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے کر انہیں جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کے چنگل سے آزاد کرانا بڑے کاناموں میں شامل ہے۔اسکے علاوہ زرعی اصلاحات کا آغاز، عوام کو سستی ٹرانسپورٹ اور خوراک سمیت بے شمار دوسری سہولیات کی فراہمی، بنیادی مراکز صحت کا قیام اور غریبوں کیلئے علاج کی مفت سہولت، تعلیم اور علاج کیلئے بجٹ کا 43 فیصد مختص کرنا، پاکستانی عوام کو شناخت دینے کیلئے قومی شناختی کارڈ بنوانے کیلئے قانون سازی اور دیگر اصلاحات شامل ہیں۔ حکومت قائم ہونے کے تین سال کی کوششوں کے بعد بالآخر وہ آئین سازی میں سرخرو ہوئے۔ ملک کو ایک متفقہ آئین دینے میں ملک میں جمہوریت کے استحکام ، تسلسل اور پسے ہوئے طبقات کو حقوق دینے کیلئے 73ء کا آئین تاریخ ساز کارنامہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس بات کو محسوس کیا کہ ہندوستان پاکستان کو ایک بار تقسیم کر چکا ہے اور اب وہ یہ کوشش بار بار کریگا۔ لہذا پاکستان کا ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا خطے میں طاقت کے توازن کیلئے ایک لازمی امر ہے چنانچہ بھٹو صاحب نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے دنیا کے 77 ترقی پذیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور مشترکہ مسائل کو ایک ہی پلیٹ فارم سے حل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا۔اسکے ساتھ ساتھ لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کا نہ صرف انعقاد کیا بلکہ مسلم امہ کے اتحاد کیلئے ایسے گراں قدر فیصلے بھی کروائے جس کے سبب بھٹو صاحب مغربی طاقتوں کیلئے ایک خطرہ بن کر ابھرے۔ اللہ تعالی جب کسی سے بڑا کام لینا چاہتا ہے تو اس کیلئے وہ اس پر اپنا خصوصی کرم کر دیتا ہے۔ قادیانیت جسد اسلامی میں ناسور ہے۔ ذوالفقار علی بھٹونے اپنے دور حکومت میں قادیانیوں کو نہ صرف غیر مسلم قرار دیا بلکہ ان پر اپنے عقائد کی تبلیغ پر بھی پابندی عائد کی اور بین الاقوامی طاقتوں کی نفرت مول لی۔ اقوام متحدہ میں اپنی شعلہ بیانی سے جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا کوئی اور لیڈر آج تک ویسے نہیں کر سکا۔ 5 فروری کو یوم کشمیر کے طور پر خاص کرنا اور شملہ معاہدہ بھٹو کے عظیم کارناموں میں سے ایک ہے۔93 ہزار جنگی قیدیوں کی فراہمی کا کریڈٹ بھی بھٹو کو جاتا ہے۔ ‘‘
بھٹو صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو انہیں کچھ لوگوں کی نظر میں متنازعہ بنائے ہوئے ہیں۔ اب ایک نظر ان لوگوں کے موقف پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ یہ جس کی بھی تحریر ہے وہ زیادہ ہی جلا بُھنا لگتا ہے۔ ’’ذوالفقار علی بھٹو بظاہر توعام انسان ہی تھے لیکن ان کا مزاج اور فیصلے آمرانہ رہے وہ اختلاف رائے کو اپنی توہین تصورکرکے اختلا ف کرنیوالوں پر عرصہ حیات تنگ کردیاکرتے تھے۔ انکی انتقامی کارروائیوں کی تفصیل بھی بہت طویل ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر یہاں صرف انکے اسمائے گرامی درج ہیں تاکہ بطور ریفرنس نام محفوظ رہیں۔ مسٹر بھٹو کا سب سے پہلا شکار ڈیرہ غازی خان سے جماعت اسلامی کے ایم این اے ڈاکٹر نذیر احمد بنے۔ دوسرا شکار خواجہ محمد رفیق تیسرا شکار بلوچستان سے جمعیت علماء اسلام کے مولوی شمس الدین، پیر پگاڑا کے چھ حرمرید، نیپ پختون خواہ کے لیڈر عبدالصمد اچکزئی، پیر پگاڑا کے ہی ایک اور خلیفہ فقیرمحمدامین، کراچی کے ضامن علی، پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم رہنما عبدالوحید، صادق آباد کے ممتاز طبیب ڈاکٹر محمد سلیم باجوہ، فیصل آباد کے دو بھائی (جن کا نام خوشنود عالم اور محمدانور تھا) بھی مسٹر بھٹو کے جذبہ انتقام کا نشانہ بن کر اپنی زندگی کی بازی ہار بیٹھے۔‘‘ (اقتباس ہفت روزہ تکبیر کراچی ) مسٹر بھٹو نے جہاں مخالفین کے لہو سے اپنے ہاتھ رنگے وہاں پیپلز پارٹی کے بانی اراکین اور اپنے دیرینہ ساتھیوں کو بھی نہیں بخشا۔ جے اے رحیم کا شمار پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ انہیں اختلاف کی سزا دینے کیلئے بدنام زمانہ تنظیم ایف ایس ایف کو ہی استعمال کیا گیا۔ جن پر اس قدر تشدد کیاگیا کہ انکے چہرے اور ناک پر گہرے زخم آئے۔ملک محمد قاسم، خواجہ خیرالدین۔ مولانا شیر محمد ممتاز شاعر حبیب جالب‘ مولوی سلیم اور جماعت اسلامی کے رکن مجلس عاملہ رانا نذر الرحمن، میاں محمد یاسین خان وٹو، سید قسور گردیزی، غفوراحمد شامل ہیں۔ بھٹو دور میں ہی دلائی کیمپ کو قومی سطح پر شہرت ملی۔ دلائی کیمپ میں بھی میاں افتخار احمد تاری سمیت درجنوں اپنے اور پارٹی مخالف لوگوں کو بہیمانہ تشدید کا نشانہ بنایا گیا۔ بہرکیف مسٹر بھٹو نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور اپنے جذبہ انتقام کو تسکین دینے کیلئے اپنی قائم کردہ تنظیم ایف ایس ایف کے ذریعہ بے شمار قتل بھی کروائے اور ہزاروں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور بھی کیا۔ اس حوالے سے مسٹر بھٹو اس قدر ماہر ہو چکے تھے کہ انکے مخالفین کا ہونے والا کوئی ایک قتل بھی پکڑا نہیں جا سکا۔ سوائے نواب محمداحمد خان قتل کے۔ اس قتل کیس کو بھی شاید وہ مہارت سے دبا دیتے اگر ایف آئی آر میں مسٹر بھٹو کا براہ راست نام شامل نہ ہوتا اور 5 جولائی 1977ء کو ملک میں مارشل لاء نہ لگتا۔ مسٹر بھٹو کے دور اقتدار کی کہانی بہت پر پیچ اور حیرتوں کاسامان لیے ہے۔ جس کی تہہ میں اترنے کیلئے بے شمار تاریخی گوشوں کو وا کرنا پڑا ہے۔ مسٹر بھٹو قدرت اور قانون کی گرفت میں کیسے آئے اور کیسے عدالت میں مقدمہ قتل کی فرد جرم ان پر عائد ہوئی اور کیسے ان کیلئے سزائے موت تجویز ہوئی۔کوٹ لکھپت جیل اور ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں پھانسی کے پھندے پر جھولنے تک ان پر کیا گزری یہ پاکستانی تاریخ کا ایک اہم ترین راز ہے جو دنیا کے سامنے آچکا ہے۔‘‘
ذوالفقار علی بھٹو پر مشرقی پاکستان کے سقوط کا الزام بھی لگتا ہے ۔ وہ اس میں شاید براہِ راست ملوث نہ ہوں مگر حالات ایسے پیدا کردئیے کہ ملک ٹوٹ گیا اور وہ آدھے بچنے والے ملک کے صدر اور بعد ازاں وزیراعظم بنے۔ مجیب کے چھ نکات ملکی سالمیت کیلئے خطرناک تھے مگر وہ بڑی اکثریت سے جیتے تھے اس کیلئے اقتدار پر ان کا حق بنتا تھا۔ یہ بحث اب بھی جاری ہے کہ مجیب کو اقتدار ملتا تو پاکستان پانچ ٹکڑوں میں بٹ جاتا۔ یہ بہرحال ایک الگ موضوع ہے ذوالفقار علی بھٹو نے مایوس کن سیاسی او رتباہ کن جغرافیائی حالات میں مغربی پاکستان کی زمام اقتدار سنبھالی۔ وہ واقعی ایک لی جنڈ اور جینئس تھے، اسی صلاحیت کی بنا پر وہ آدھے پاکستان کے صدر بنے۔ اپنی ذہانت اور اہلیت کے باعث ہی پانچ سال سے بھی کم مدت میں ایسے اقدامات کئے جو ان کو تاریخ میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ انکے پانچ سال پاکستان کی تاریخ سے نکال دیں تو آئین کہیں نظر نہیں آئے گا۔ جنگی قیدیوں کا مستقبل ہولناک ہوسکتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب جاپانی و جرمنی کے جرنیلوں کو پھانسیاں دی جارہی تھیں۔بھٹو کو مزید پانچ سال مل جاتے تو پاکستان معاشی طور پر بھی مستحکم ہوجاتا۔ ان کی اداروں کو قومیانے کی پالیسی پر یقینا دورائے ہیں جس سے کسی کے محلات بنے اور کسی کا آشیاں جل گیا۔ آج بھٹو کی پارٹی کے مدار الہام آصف علی زرداری ہیں جن کی پالیسیوں کے باعث پیپلزپارٹی مقبولیت کی معراج سے پستیوں کی دلدل میں گر چکی ہے۔ زرداری بہرحال ایک جینئس ہیں۔ وہ اپنی ذہانت کا لوہا ایک بار پھر سینٹ کے الیکشن میں منوا چکے ہیں۔ ان کی ذہانت اگر مثبت انداز میں بروئے کار آتی تو وہ پاکستان کو پانچ سال میں کہیں سے کہیں لے جاسکتے تھے۔ بعید نہیں وہ آئندہ وزیراعظم بھی کسی نہ کسی طریقے سے اپنا لے آئیں مگر ماضی کی پانچ سالہ کارکردگی دیکھتے ہوئے خیر کی زیادہ امید نہیں۔

متعلقہ خبریں