سنٹرل لائبریری ،بہاولپور

مسلمانوں حکمرانوں نے اہل علم کی خدمات حاصل کرکے علمی موضوعات پر ہزاروں کتابیں لکھوائیں اور ان کی نقلیں کروا کے دور دراز کے کتب خانوں میں رکھوائیں اس طرح لائبریری کے تصور کو عملی جامہ پہنایا موجودہ دور میں لائبریری کا دائرہ عمل، علم اور سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے اب نہ صرف کتابیں ہی کتب خانوں یا لائبریوں میں جمع کی جاتی ہیں بلکہ رسائل نقشہ جات خاکے مخطوطات اور گرامو فون ریکارڈ، مائیکرو فلم اور اس نوع کے دوسرے مواد بھی لائبریوں میں ایک خاصی ترتیب کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔
بہاول پور کی سر زمین میں سب سے زیادہ مشہور سنٹرل لائبریری ہے جو اپنی ہمہ گیر خصوصیات کی وجہ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔مسٹر رچرڈ کرافسٹسن سابق وزیر اعظم بہاولپور کے رخصت ہونے پر وزارت عظمی کی کرسی خالی ہوئی جس پر نواب مشتاق احمد گورمانی کو تعینات کیا گیا۔ 22اپریل 1947ءکوغیر معمولی گزٹ نمبر اے جلد نمبر 83میں باقاعدہ اس کا اعلان بھی کیا گیا جب گورمانی وزیر اعظم مقرر ہوئے انہوں نے ریاست کی خوب دیکھ بھال کی اور اچھے اچھے کام کیے ایک کام بہت اچھا کیا اور وہ یہ کہ یہ عمارت سنٹرل لائبریری کو دلوا دی۔

وزیر اعظم نے فوری طو رپر بلدیہ بہاول پور کی لائبریری کی عمارت بمعہ فرنیچر کتب و دیگر لوازمات سرکاری تحویل میں دے کر سرکاری سطح پر ایک لائبریری قائم کرنے کے احکامات صادر فرما دیئے اور اس لائبریری کے تحت ریاست بہاولپور کے دیگر شہروں میں ذیلی لائبریریاں قائم کی گئیں۔ اس وقت ایک فیصلے کے تحت صادق ریڈنگ بہاولپور کی عمارت کی تبدیلی نام سنٹرل لائبریری کی توثیق کر دی گئی۔ نواب مشتاق احمد گورمانی نے اس لائبریری کے لیے اخراجات کا بجٹ باقاعدہ سرکاری خزانے سے منظور کروایا۔
1947ءسے 1958ءتک یہ لائبریری عمارت کی بالائی منزل میں کام کرتی رہی یہاں کے پہلے لائبریرین ملک نذیر احمد صاحب تھے ان کی مسلسل جدوجہد نے اس کتب خانے کی بنیادیں مضبوط کیں اس زمانے میں لائبریری کے احاطے میں آج کل جو عمارتیں موجود ہیں وہ قطعاً نہیں تھیں مغربی سمت سرکلر روڈ تک کشادہ وسیع پلاٹ تھے چوطرفی سایہ دار درخت تھے چھ سال کی جدوجہد کے بعد 1958ءمیں بلدیہ بہاولپور نے اس عمارت کو آخر کار خیر آباد کہا سابق ریاست کی علمداری کے بعد اس لائبریری نے صوبائی حکومت کی تحویل میں یعنی محکمہ تعلیم حکومت پنجاب کی تحویل میںترقی کی منازل طے کرنا شروع کیں۔

یہ مقام علم کا سرچشمہ ہے تشنگان علم و ادب کی پیاس بجھا رہی ہے قارئین اور اہل علم و فکر اس پرسکون ماحول میں یکسوئی کے ساتھ کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں عمارت ایسی عمدہ جو گرمیوں میں اپنی اونچی چھتوں کے سائے میں سب کو ٹھنڈک بہم پہنچاتی ہے عوام اور طلبا کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی تنظیم و ترتیب کے لیے تجربہ کار لائبریرین ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں ان کے تجربہ کار انہ انداز فکر نے لائبریری میں مندرجہ ذیل شعبوں کا اضافہ کیا۔
-1سنٹرل لائبریری شعبہ خاص، -2شعبہ اطفال ، -3 شعبہ سفری، -4شعبہ دستاویزی فلم -5غیر ملکی زبانوں کا تدریسی شعبہ، -6مائیکرو ویو کا شعبہ، -7شعبہ خواتین ، -8اخبارات و رسائل کا شعبہ، -9سمی و بصری شعبہ، -10شعبہ جلد سازی ۔
اس وقت لائبریری میں چھیاسی ہزارکتابیں، لسانیات، اسلامیات، سائنسی فنون، فنون لطیفہ، تاریخ، جغرافیہ، سوانح عمریاں، معاشرتی علوم،علوم اجرام فلکی، سیاسیات اور قلمی نسخوں سے الماریاں بھری پڑی ہیں ان کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں اخبارات و رسائل بھی موجود ہیںجن میں خصوصاً آج سے ایک صدی قبل تک کے اخبارات و رسائل کے فائل قابل ستائش ہیں۔

شعبہ اطفال ریاست کے زمانے ہی میں گلستان اطفال کے نام سے یہاں موجود تھا سنٹرل لائبریری کے کھلے میدان میں پندرہ کنال اراضی اس کے لیے مختص تھی جس میں ایک کمرہ تعمیر شدہ تھا باقی کھلا میدان تھا کمرے میں بچوں کی لائبریری تھی اور کھلے میدان میںبچوں کے لیے جھولے، پھسلنے والا زینہ اور دیگر کھیل کود کے سامان موجود تھے جب عمارت فاریہ سے واپس لے لی گئی تو اس عمارت کے ایک کمرے میں بچوں کی لائبریری سمودی گئی جہاں بچوں کی کتابیں وغیرہ پڑی رہتی تھیں یہ سلسلہ 1981ءتک چلتا رہا گورنر سوار خان جب پنجاب کے گورنر تھے اس وقت ان کی منظوری سے ایک اسکیم تیاری کی گئی جس میں یہاں کے چیف لائبریرین نے بڑا موثر کردار ادا کیا بچوں کی لائبریری کی ایک الگ عمارت کے لیے نقشہ ہی پاس نہیںکروایا بلکہ تعمیر بھی شروع کروائی اس عمارت کا تعمیری رقبہ چھ ہزار پانچ مربع فٹ رکھا گیا۔ 1981ءسے 1983ءکے مالی سالوں میں دس لاکھ چوراسی ہزار روپیہ کی لاگت سے انتہائی دلکش عمارت تعمیراتی اسلوب کو پیش نظر رکھتے ہوئے پایہ تکمیل کو پہنچی اس وقت لائبریری میں بارہ ہزار سے زائد اردو اور انگریزی کتابیں موجود ہیں بچوں کے لیے بہت ساری کہانیاں اور معلوماتی مضامین جمع کیے گئے ہیں سینکڑوں کتابیں دلکش و ضاحتی تصاویر سے مزین ہیںجن کے باعث بچوں کی دلچسپی پڑھتے وقت برقرار رہتی ہے بارہ سال کی عمر کے بچے اس لائبریری کے ممبر بن سکتے ہیںاس کے علاوہ اس شعبہ کی تنظیم کچھ اس طریقے پر سائنٹیفک انداز میں کی گئی ہے کہ یہاں صحت مند بچوں کے علاوہ معذور اور نابینا بچوں کے سیکشن بھی موجود ہیں جن سے وہ استفادہ حاصل کرتے ہیں ایک لیڈی اسٹنٹ لائبریرین بھی بچوں کی رہنمائی کے لیے یہاں موجود رہتی ہیں اس طرح یہ شعبہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں بہت فعال اور کارآمد کردار ادا کر رہا ہے۔

سنٹرل لائبریری بہاول پور کی عمارت کا کل رقبہ 22ہزار نو سو مربع فٹ ہے تمام اراضی میں سے 25بیگھے دس مرلے زمین اطراف میں رکھی گئی ہے جس میںبچوں کا پارک اور متعدد سبزہ زار بنائے گئے جگہ جگہ پھلدار درخت اور متعدد آرائش پودے لگائے گئے۔
تحریر:ڈاکٹر سید زاہد علی واسطی
”سرزمین بہاولپور“