ضمانت ‘ ظرف … جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ

2019 ,مارچ 29



میاں نواز شریف کو چھ ہفتے کی ضمانت کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی مسلم لیگ ن کیساتھ پیپلز پارٹی بھی تحسین کر رہی ہے،ایسا مخصوص حالات کے باعث ہورہا ہے۔آج پی پی نواز لیگ تعلقات پر بہاروں کے سائے ہیں۔جب تعلقات خزاں رسیدہ تھے تو ایسے فیصلوں پر تبصرہ ہوا کرتا تھا۔’’سندھ کے وزیراعظموں کیلئے فیصلے الگ،پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کیلئے الگ ہیں‘‘۔نوازشریف ،صفدر اور مریم کی سزا معطل ہونے پر یہی کچھ کہا گیا۔کرپشن نہ کہیں کرپشن کے الزامات کہہ لیں جن پر پی پی اور نواز لیگ ہم پیالہ ہوگئیں۔بلاول کراچی سے لاڑکانہ تک کاررواں لے کر چلے ۔یہ دنیا کا پہلا اور واحد مارچ، کارواں یا قافلہ ہے جس کا محرک کرپشن کیسز ہیں۔ یہ کارروان کرپشن کیخلاف ہے یا حق میں؟ فیصلہ قارئین کرسکتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان آصف سعید خان کھوسہ نے سچ کے سفر کا اعلان کیا ہے۔بلاول بھی شاید سچ کے سفر پر گامزن ہیں۔پارک لین ریفرنس میں وہ اور انکے وکلا کہتے ہیں، پارک لین کمپنی جب بنی تو بلاول کی عمر ایک سال تھی،یہی سچ ہے ایسا ہی ہے مگر ریفرنس میں بلاول سے ان شیئرزکا جواب مانگا گیا ہے وہ ان کو منتقل ہوئے تو عمر اکیس سال نو دن تھی،یہ شیر خواری کے دوران کا کیس ہے توسچ کا یہیں سے سفر شروع ہوگا۔

شہباز شریف کبھی زرداری اور انکے ساتھیوں کو علی بابا چالیس چور کہا کرتے تھے ،کچھ لکھاریوں نے انکی توجہ اس طرف دلانے کی کوشش کی کہ علی باباچوروں کا سردار نہیں انکا مکو ٹھپنے والا کردار تھا مگر بڑی دانش کے مالک چھوٹے میاں صاحب تسلسل سے یہی کہتے رہے۔اب جب حالات نے پلٹا کھایا اور خیالات کے اونٹ نے کروٹ لی تو گلے شکوے دور اور نزدیکیوں پر مجبور ہوئے زرداری صاحب کو شاید یقین دلا دیا گیا ہو کہ گھسیٹنے لٹکانے کی باتیں تو اوپراوپر سے تھیںاندر سے اصل والا علی بابا کہتا تھا۔زرداری کو یقین آیا ہو یا نہیں بہرحال انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سے شہباز کا پکڑایا ہاتھ تھاما اور جپھی بھی ڈال لی۔آج پی پی اورلیگ اس طرح یکجان اور یک قالب ہیں کہ ایک کیلئے کوئی شادمانی و خوشی کاموقع ہوتو سروردوسری طرف کی لیڈر شپ اور خیر خواہان کو بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی طرح آتاہے۔ایک پریشان ہو تودوسرا بے چین ہوجاتا ہے۔میاں نواز شریف کی شش ہفتہ ضمانت پر مسلم لیگ ن شادیانے بجا رہی ہے تو پی پی ٹھمری گا رہی ہے اور ’’حضرت‘‘ ٹھمکے لگا رہے ہیں۔لیگی، ضمانت کو حق سچ کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ ضمانت پرعمران خان نے نواز شریف کی صحت یابی کی دعا کی۔ کسی پرانے بیان کو لیکر لیگی لیڈر عمران پر برستے رہے، اپنا اپنا ظرف ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا دو درجن چمچے نواز شریف کی علالت پر سیاست کرتے رہے۔ چمچے دونوں طرف ہیں ان کا اشارہ کس طرف کے چمچوں کی طرف ہے؟ سپریم کورٹ نے کہا ضمانت میں توسیع اسلام آباد ہائی کورٹ کرسکتی ہے تو گویا توسیع ہوئی سمجھ لیں۔ضمانت چھ ماہ کی ہو یا چھ سال کی بشرط زندگی ختم ہوجاتی ہے، اسی طرح قید بھی خواہ دس بارہ سال کی ہوکٹ جاتی ہے۔ایسے ہی جو انسان دنیا میں آیا اس نے ایک دن جانا ہے۔ملازم پیشہ لوگوں کا بھی یہی سلسلہ ہے،جس نے ملازمت کی اس نے ایک دن بشرطِ زندگی ریٹائر ہونا ہے۔

2019ء کئی بڑے بڑوں کی ریٹائرمنٹ کا بھی سال ہے۔ کئی کے لیے یہ ریٹائرمنٹس خزاں بن کراُتریں گی‘ کئی پر پُرمسرت بہار کی طرح برسیںگی۔ میاں ثاقب نثار کی فعالیت کئی کے لیے سوہانِ روح تھی تاہم انکے کام کارکردگی اور کارناموں کو سراہنے والوں کی کمی نہیں۔ وہ رواں سال ہی ریٹائر ہو ئے۔ انکے جاں نشیں آصف سعید خان کھوسہ بھی انہی کی طرح فعال ، تاہم ازخود نوٹسز پر محتاط ہیں۔ کھوسہ صاحب بھی اسی سال ریٹائر ہونگے۔ تین سال پورے کرکے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال اگلے سال اکتوبرمیں ریٹائر ہونگے۔ وہ کچھ لوگوں کے اعصاب پر ایسے سوار ہیں، ان کو یہ مدت سو سال لگتی ہے۔ رواں سال نومبر میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ریٹائر ہونا ہے۔ یہ سب سے اہم ریٹائرمنٹ ہے۔ انکی توسیع کے حوالے سے ابھی سے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ کچھ لوگ جنرل پر بھی انکی ناگزیریت واضح کر رہے ہیں۔ ماضی میں بھی یہی روایت رہی ہے۔جنرل راحیل شریف کو دہشتگردی کیخلاف جنگ کے باعث زیادہ ناگزیر قراردیا گیا تھا انکے پیشرو جنرل کیانی کی تین تین سال کی مدت پوری ہوئی تو ان کیلئے نئے عہدے کی تشکیل کی تجاویز سامنے آنے لگی تھیں۔ جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنانے پر زور دیا گیا۔ انکے قائم کردہ ہائی سٹینڈرز پر پورا اترنا کسی بھی جنرل کیلئے ممکن دکھائی نہیں دیتا تھا مگر انکی ریٹائرمنٹ کے بعد آج تک جنرل باجوہ نے کسی کو اپنے کام اور کارکردگی سے جنرل راحیل کی یاد نہیں آنے دی۔ جنرل باجوہ جنرل راحیل شریف کے بہترین جاں نشیں ثابت ہوئے ہیں ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا جو بھی جاں نشیں ہو گا وہ ان سے کم نہیں ہو سکتا۔

چیف جسٹس کیلئے سنیارٹی کا اصول طے ہے تاہم آرمی چیف حکومت مرضی سے لگاتی ہے اور جب بھی آرمی چیف میرٹ سے ہٹ کر لگایا گیا ، لگانے والے اس سے پریشان رہے۔ بھٹو کو ان کا لگایا آرمی چیف تختہ دار پر لے گیا جبکہ نواز شریف پھانسی گھاٹ کو چھو کر واپس آئے۔آرمی چیف کی تقرری کو ایڈونچر بنانے کے بجائے میرٹ کو ملحوظ رکھا جائے تو کسی کی حق تلفی ہوگی اورنہ حکومت پر تنقید کے تیر برسیں گے۔آرمی چیف سمیت کسی کی بھی مدت ملازمت میں عدم توسیع کو پتھر پر لکیر بنا لیا جائے۔ سول میں حق تلفی پر عدالت کے دروازے پر دستک دی جاسکتی ہے۔کیا فوج کیلئے ایسا کوئی فورم ہے؟ اگر انا کی تسکین کیلئے نیچے سے اوپر لا کر مرضی کا چیف بنانا ہی ہے تو سپرسیڈ ہونے والوںکو جنرل کا رینک دے کر ریٹائرمنٹ کے آپشن سے ان کی کسی حد تک دلجوئی کی جا سکتی ہے۔

متعلقہ خبریں