تحریک لبیک.... چنگاری سے شعلہ

فیض آباد دھرنے میں25نومبر کو جو کچھ ہوا اگر وہ ذہن سے محو ہو گیا یا دھندلا گیا ہے تو اس کی ایک دل دہلا دینے والی جھلک اگلے روز کے اخبارات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس روز حکومت نے دھرنے والوں کیخلاف آپریشن کیا تھا، اِدھر آپریشن شروع ہوا، اُدھر پورے ملک میں ایک آگ سی لگی محسوس ہوئی۔ اس روز وزیر قانون زاہد حامد اور سابق وزیر داخلہ چودھری نثار کے گھروں پر مشتعل افراد نے حملے کئے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال کے بقول چودھری نثار کے محافظوں کی فائرنگ سے غالباً 7افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اسی روز جھڑپوں میں پولیس اہلکار سمیت6افراد مارے گئے ۔ زخمیوں میں ایف سی اور پولیس کے آفیسرز بھی شامل تھے۔250 زخمی اور سینکڑوں گرفتار ہوئے۔ شیخوپورہ میں ایم این اے جاوید لطیف کو لبیک تحریک کے کارکنوں نے زخمی کردیا۔ موٹروے اور کئی سڑکیں بلاک کی گئیں۔ ٹرینیں معطل رہیں۔ تجارتی سرگرمیاں معطل ہونے سے معیشت کو اربوں کا نقصان ہوا۔ مسلم لیگ (ن) کے کئی ایم این ایز اور ایم پی ایز نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ ظفر اللہ جمالی نے تحریک لبیک کی حمایت کا اعلان کردیا۔ کراچی، گوجرانوالہ اور لاہور سمیت کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ مظاہرین نے تھانوں پر بھی دھاوا بولا، جس پر رینجرز طلب کی گئی۔
لوگوں کے اشتعال میں اضافہ ہو رہا تھا ماضی میں ایسا اشتعال اور انتقامی جذبات دیکھنے میں نہیں آئے۔ فیض آباد دھرنے کے شرکاءناموس رسالت پر کٹ مرنے کے عزم کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ عوامی ہمدردی و حمایت کی لہر بھی ناموس رسالت کے نام پر ہی اٹھی تھی۔ حالات بد سے بدتر صورتحال اختیار کر رہے تھے۔
حکومت نے تحریک لبیک کو دھرنے کے خاتمے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔ آپریشن بھی کرکے دیکھ لیا مگر وہ زاہد حامد کے استعفے کے سوا کچھ مانگ رہے تھے نہ کچھ اور ماننے پر تیار تھے۔ بعد از خرابی بسیار حکومت وزیر قانون کے استعفے پر آمادہ ہو گئی مگر تحریک لبیک کے رہنماﺅں کا حکومت کے قول و فعل پر اعتبار و اعتماد نہیں تھا۔ فوج کو دھرنا والوں کیخلاف سخت کارروائی کیلئے کہا گیا، مقصد دھرنا ختم کرانا تھا سو فوج نے تحریک لبیک کو ان کے مطالبات منظور کرانے کا یقین دلا کر بغیر ایک گول چلائے دھرنا ختم کرنے پر آمادہ کر لیا۔ فوج بیچ میں نہ آتی تو دھرنا جاری رہتا اور خون خرابے کے بغیر اس کا خاتمہ ممکن نہیں تھا۔
فوج کی طرف سے تحریک لبیک سے ان کے مطالبات کی لسٹ مانگی گئی جو حکومت کی طرف سے کسی کمی بیشی کے بغیر منظور کر لئے گئے ایک صفحے پر مشتمل تحریر کو معاہدے کا نام دیا گیا۔ اس کے خاص نکات پر سرسری سی نظر ڈال لیتے ہیں۔ اس کا عنوان معاہدہ مابین تحریک لبیک یا رسول اللہ اور حکومت پاکستان تھا:
”تحریک لبیک یا رسول اللہ جو کہ ایک پرامن جماعت ہے اور کسی قسم کے تشدد اور بدامنی پر یقین نہیں رکھتی۔ یہ جماعت ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت ﷺ میں قانونی ردو بدل کے خلاف اپنا نکتہ نظر لے کر حکومت کے پاس آئی مگر افسوس کہ اس مقدس کام کا صحیح جواب دینے کی بجائے طاقت کا استعمال کیا گیا۔21دنوں پر محیط اس کوشش کو اگر بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہے تو ہمارے مندرجہ ذیل مطالبات کو پورا کیا جائے۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ ان شرائط پر اتفاق ہونے پر ہم نہ صرف ختم نبوت دھرنا ختم کریں گے بلکہ ملک بھر میں اپنے ساتھیوں کو پرامن رہنے کی درخواست بھی کریں گے۔
-1وفاقی وزیر قانون زاہد حامد جن کی وزارت کے ذریعے اس قانون کی ترمیم پیش کی گئی ان کو فوری اپنے عہدے سے برطرف (مستعفی) کیا جائے۔ تحریک لبیک ان کے خلاف کسی قسم کا کوئی فتویٰ جاری نہیں کرے گی۔
-2راجہ ظفر الحق صاحب کی انکوائری رپورٹ30دن میں منظر عام پر لائی جائے گی اور جو اشخاص بھی ذمہ دار قرار پائے گئے ان پر ملکی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
-3 6نومبر 2017ءسے دھرنا کے اختتام پذیر ہونے تک ہمارے جتنے بھی افراد ملک بھر میں گرفتار کئے گئے ہیں، ایک سے تین دن تک ضابطہ کی کارروائی کے مطابق رہا کردیئے جائیں گے اور ان پر درج کئے گئے مقدمات اور نظربندیاں ختم کر دی جائیں گی۔
-4 25نومبر 2017ءکو ہونے والے حکومتی ایکشن کے خلاف تحریک لبیک یا رسول اللہ کو اعتماد میں لے کر ایک انکوائری بورڈ تشکیل کیا جائے جو تمام معاملات کی چھان بین کرکے حکومت اور انتظامیہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا تعین کرے اور 30روز کے اندر انکوائری مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے۔
-5 6نومبر 2017ءسے دھرنا کے اختتام تک جو سرکاری و غیر سرکاری املاک کا نقصان ہوا، اس کا تعین کرکے ازالہ وفاقی و صوبائی حکومت کرے گی۔
-6حکومت پنجاب سے متعلقہ جن نکات پر اتفاق ہو چکا ہے، ان پر من و عن عمل کیا جائے گا۔
یہ تمام معاہدہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور ان کی نمائندہ ٹیم کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے طے پایا، جس کیلئے ہم انکے مشکور ہیں کہ انہوں نے قوم کو ایک بہت بڑے سانحہ سے بچا لیا۔“
اس معاہدے پر علامہ خادم حسین رضوی مرکزی امیر‘ پیر محمد افضل قادری، محمد وحید نور اور حکومت کی طرف سے وزیر داخلہ احسن اقبال اور وفاقی سیکرٹری خارجہ ارشد مرزا کے دستخط ہیں۔ احسن اقبال نے ایک روز قبل کہا تھا کہ دھرنے والوں کے بھارت سے رابطے ہیں اور پھر ان کے ساتھ معاہدہ بھی کر لیا۔ معاہدے پر میجر جنرل فیض حمید کے بوساطت کے طور پر دستخط ہیں۔
جنرل صاحب نے تحریک لبیک کے رہنماﺅں کو معاہدے پر من و عن عمل کا یقین دلایا تھا۔ فوج کو اس معاہدے میں ثالث کہیں یا ضامن، فوج کردار ادا نہ کرتی تو معاہدہ ممکن نہیں تھا۔ اب علامہ خادم حسین رضوی اور دیگر 480لوگوں کی گرفتاری کے احکامات جاری ہو چکے ہیں جو معاہدے کی سرا سر نفی ہے ۔ باجوہ ڈاکٹرائن کے علمبردار فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ فیض آباد دھرنا ختم کرانے میں پاک فوج کا وساطت کا کردار تھا ضمانتی کا نہیں۔
جنرل صاحب! وساطت کو ذرا معاہدے سے نکال دیں تو حکومت اور تحریک لبیک دو انتہاﺅں پراور درمیان میں خون خرابہ نظر آتا ہے۔ جہاں ایک غیر جانبدارانہ رپورٹ پر بھی نظر ڈالی جائے۔
انصار عباس نے درست کہا جس پر عمل درآمد کرنے کی ذمہ داری دونوں فریقین پر لازم تھی۔ اسی معاہدہ کی صورت میں احتجاج کے خاتمہ کا اعلان ہوا لیکن ریاست نے معاہدہ کے تحت جو اقدامات کرنے تھے وہ نہ کیے اور اب ایک بار پھر عدالتوں کی طرف سے احتجاج کرنے والوں کی قیادت کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے جا رہے ہیں۔ کچھ مداری اور درباری بے چینی سے چاہتے ہیں کہ جس آگ کو بجھانے کے لیے ریاست کو انتہائی نازک حالات میںمعاہدہ کرنا پڑا، وہ حالات دوبارہ پیدا ہو جائیں۔ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو طعنے دیے جا رہے ہیں اور اشتعال دلایا جا رہا ہے کہ علامہ خادم رضوی اور دوسرے افراد کو کیوں گرفتار نہیں کیا جا رہا؟؟ کوئی معاہدہ کی بات نہیں کرتا کہ اس میں کیا کچھ لکھا تھا اور یہ کہ کیا اب حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ معاہدہ پر عمل درآمد کرتے ہوئے جو مقدمات احتجاج کرنے والوں کے خلاف قائم کیے گئے تھے انہیں وعدہ کے مطابق ختم کرایا جائے۔ ریاست کیسے اپنے وعدہ سے پھر سکتی ہے؟؟؟ اگر اس طرح معاہدہ کر کے ریاست وعدہ خلافی کرتی ہے تو پھر کوئی دوسرا ریاست اور ریاستی اداروں پر اعتبار کیسے کرے گا۔“دھرنا ختم ہو گیا، حالات نارمل ہو گئے، حکومت نے بہت سے نکات پر عمل نہیں کیایہ چنگاری بھی دوسرے فریق کے دل میں موجود تھی۔ گرفتاریوں سے وہ شعلہ بحوالہ بن سکتی ہے، لوگوں کے دلوں میں ناموس رسالت کی شمع کبھی مدھم نہیں ہوئی۔ گرفتاریوں سے حالات پھر بے قابو ہو سکتے ہیں۔ حکومت اپنی مدت کے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ گویا اقتدار چراغ سحری کی مانند ہے۔ انتخابات میں اس کے لئے پہلے ہی بڑی مشکلات ہیں ان میں اپنے معاہدے سے انحراف سے مزید اضافہ نہ کرے اور معاملہ ناموس رسالت کا ہے۔ وزیروں مشیروں اور نمائندوں کو سکیورٹی کے باوجود چھپنے اور بکنے کو جگہ نہیں مل رہی تھی۔ کل تو سکیورٹی بھی نہیں ہو گی۔