اسلام اور غامدی صاحب

2019 ,اپریل 8



اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک): غامدی صاحب کو جب بھی سنا یہ تاثر شدت سے ابھرا کہ ان سے جب کبھی ایسا سوال پوچھا جاتا ہے، جس کا جواب، مغرب، لبرل ازم یا سیکیولرازم کے پیروکاروں پر گراں گزرنے کا احتمال ہوتا ہے تو وہ بجائے صاف اور سیدھا جواب دینے کے گول مول بات کرتے ہیں۔۔۔۔لیکن جب معاملہ مدرسہ، مولوی یا اسلام کے روایتی بیانیہ کا ہو تو جواب، واضح، سخت، دو ٹوک اور مفصل ہوتا ہے۔ مثلاً،کل، ڈبلیو ڈی چینل پر عاطف توقیر نے برونائی میں نافذ ہونے والے اس قانون کے بارے میں پوچھا جس کے مطابق آئندہ وہاں ہم جنس پرستوں کو لواطت کے جرم میں رجم کیا جائے گا تو غامدی صاحب نے فرمایا کہ ایسی کسی سزا کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ قرآن میں حد 80 کوڑوں کی ہے وہ بھی زنا کی سزا کے طور پر۔ رجم وغیرہ جیسی سزاؤں کا ذکر آپ کو بس فقہا کے ہاں ہی ملے گا۔ (اب دیکھیں کہ کس طرح غامدی صاحب، سائل کے اصل سوال کو گول کر کے دوسری طرف پھیر لے گئے اور خود کو مغرب کے عتاب سے بچا لیا ورنہ مفتی مینک کی طرح یورپ میں داخل نہیں ہو سکتے تھے) پھر سائل نے پوچھا کہ کہا جاتا ہے کہ قومِ لوط علیہ السلام پر عذاب اسی جرم کی بنایا پر آیا تھا تو غامدی صاحب نے اس کی بھی تردید کر دی بلکہ فرمایا کہ یہ جرم تو عرصہ سے ہوتا چلا آ رہا تھا اور ہوتا چلا آ رہا ہے۔ کئی ملکوں میں اب بھی ہو رہا ہے تو وہاں عذاب کیوں نہیں آتا۔ (“ہوتا چلا آ رہا تھا” کہتے ہوئے غامدی صاحب شاید بھول گئے کہ حضرتِ لوط علیہ السلام نے قوم سے یہی کہا تھا کہ یہ ایسا کام ہے جو تم سے پہلے کسی نے نہیں کیا) ۔ قوم لوط کی تباہی اور عذاب کی غامدی صاحب کی زبانی ایسی تاویل سن کر یقین جانیں بہت حیرت ہوئی۔ یہ رائے تو سراسر قرآن کی بیان کردہ حقیقت ہی کے خلاف ہے کہ قوم لوط کی تباہی کی اصل وجہ قوم کا فعلِ بد نہیں بلکہ کچھ اور تھی۔ کیا عذاب سے محض ایک دن قبل فرشتے بھیج کر قوم کی آزمائش نہیں کی گئی تھی اور کیا قوم کو رنگے ہاتھوں نہیں دھر لیا گیا تھا؟ حدیث تو چھوڑیں، جس کو غامدی صاحب زیادہ اہمیت نہیں دیتے، اب قرآن کے بیان کردہ واضح حقائق کو بھی محض اس لیے چھپایا جا رہا ہے کہ کہیں وہ مغرب اور مغربی تہذیب کے دلدادہ افراد کی طبع نازک پہ گراں نہ گزریں۔

اللہم اھدناالصراط المستقیم

متعلقہ خبریں