ثاقب نثار کس طرح جج بنے؟

2018 ,اپریل 28



خواجہ آصف کو بھی میاں نواز شریف کی طرح اقامہ پر نااہل قرار دیدیا گیا۔ خواجہ آصف نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔ وہی سپریم کورٹ جس پر کھل کر تنقید کی جاتی اور چیف جسٹس کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ سسٹم میں رہتے ہوئے عدالتوں ہی سے انصاف ملے گا۔ میاں نواز شریف کا کیس براہِ راست سپریم کورٹ گیا اس لیے وہ اپیل کے حق سے محروم رہے۔ خواجہ آصف کو اپیل کا ایک فورم مل گیا ہے۔ نیب کورٹ کے فیصلے کے بعد میاں نواز شریف کے پاس سزا ملنے کی صورت میں اپیل کے دو فورم اور نظرثانی کی اپیل کی مزید گنجائش ہو گی۔ اپیل بہرحال انہی عدالتوں میں ہونی ہے جن کے سامنے شیر دھاڑ رہا ہے۔ نیب اور عدالتیں یکساں فعال ہیں۔ مسلم لیگ ن زیادہ زد پر ہے۔ نیب کے نوٹس لینے کی سپیڈ دیکھیں تو لگتا ہے فراڈیوں نے سرزمین پاک کو فراڈستان بنایا ہے۔ 
نیب خوف کی علامت بن چکا ہے۔ حکومتیں اسے اپنے مخالفین کو ڈرانے اور ”راہِ راست“ پر لانے کے لیے اسے استعمال کرتی رہی ہیں۔ آج اس کی کریڈیبلٹی اور کارکردگی بہتر ہے۔ گو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نیب کو اپنے خلاف استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہیں مگر اس پر اعتماد کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ جس کی ایک مثال ان کی طرف سے مطالبہ ہے، وہ تحقیقات کرے، میاں ثاقب نثار سیکرٹری قانون اور جج کیسے بنے! ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ان سے حساب لیں گے۔ انکو حساب دینا پڑے گا۔
پاکستانی سیاست کے اعلیٰ مدارج تک پہنچنے اور صحافتی اشرافیہ سے عالمی مدبر کا خطاب پانے والے نواز شریف سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ نیب کو کسی سے بھی بلاوجہ انکوائری کا کہیں گے۔ بہتر تھا وہ بتا دیتے کہ میاں ثاقب نثار کے سیکرٹری قانون اور جج بننے میں کیا فراڈ ہوا، یا کیا دو نمبری کی گئی ہے۔ اپنے طور پر تحقیق کرنے کی کوشش کی تو آج کے چیف جسٹس کی شخصیت کے کئی نئے پہلو سامنے آئے جو میاں نواز شریف کی خواہش کے مطابق نیب کی تحقیقات میں شاید معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایک لاہوری میاں نے دوسرے لاہوری میاں کے خلاف نیب کو ایکشن لینے کو کہا تو فوری طور پر ذہن میں آیاکہ ہو سکتا ہے میاں ثاقب نثار نے سیکرٹری قانون اور بعدازاں جج بننے میں جسٹس صفدر علی شاہ نے بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے سے کیا اختلاف کیا تھا۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ میٹرک کی سند جعلی ہے۔ انہوں نے پاکستان سے فرار ہونے میں عافیت جانی۔ بھٹو کو سزائے موت سنانے والے بنچ کے سربراہ جسٹس انوارالحق تھے۔ضیاءحکومت نے ان کو عالمی عدالت کا جج نامزد کیا تو جسٹس صفدر کی مہم کے باعث ان کو صرف ایک ووٹ ملا تھا۔ 
آج تحقیق بڑی آسان ہو گئی۔ ”ثاقب نثار جج کس طرح بنے“ دستیاب معلومات کے مطابق جسٹس ثاقب نثار نے بی اے کے بعد لاءکرنے پر 1980 میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا 1982 میں ہائی کورٹ 1994 میں سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ بنے ۔1997ءوزیر قانون خالد انور کے اصرارپر انہوں نے سیکرٹری قانون بننے برآمادگی ظاہر کی ۔ میاں ثاقب نثار اور خالد انور وکالت میں ایک دوسرے کے معاون رہے۔ خالد انور کراچی اور ثاقب نثار کا تعلق لاہور سے ہے۔ خالد انور ان کی اہلیت اور صلاحیتوں سے واقف تھے ۔ ثاقب نثار کی میاں نواز شریف سے قربت کا بھی تاثر ہے۔ کچھ واقفان حال کہتے ہیں کہ میاں ثاقب کے چیمبر میں نواز شریف کی سالگرہ کا کیک بھی کاٹا جاتا تھا۔ مشرف نے ٹیک اوور کے بعد جسٹس ثاقب نثار کو پی سی او کے تحت حلف کیلئے ان کی میاں نواز شریف سے قربت کے تاثر کے باعث نہیں بلایا تھا۔ 
میاں ثاقب نثار قانون اور قاعدے کے پابند ہیں۔ انہوں فرائض کی راہ میں دوستی، تعلق اور قربت کو کبھی حائل نہیں ہونے دیا۔
 حکومت میں لاءسیکرٹری اہم ترین عہدیدار ہوتا ہے‘ حکومت کی 90 فیصد فائلیں لاءسیکرٹری کے پاس آتی ہیں اور اس کی منظوری سے آگے جاتی ہیں‘ یہ ٹریبونلز کا باس بھی ہوتا اور عدالتوں کے سینکڑوں چھوٹے بڑے ایشوز بھی دیکھتا ہے ۔میاں نواز شریف نے ایک دن چلتے چلتے میاں ثاقب نثار سے کہا ”میاں صاحب آپ کرنل مشتاق طاہر خیلی کو پی آئی اے کا ایم ڈی لگا دیں“ میاں ثاقب نثار نے جواب دیا ”سر یہ کوالی فائی نہیں کرتے“ وزیراعظم مائنڈ کر گئے اور کہا ”میں کہہ رہا ہوں بس آپ لگا دیں“ میاں ثاقب نثار نے جواب دیا ”سر کیا آپ اس شخص کو اتفاق فاونڈری کا سربراہ لگا سکتے ہیں۔“
 1997ء میں ہی دوسرا اختلاف کسٹم ٹربیونل کے ایک ممبر کے تبادلے پر ہوا، جنہیں اس وقت کے ہائیکورٹ کے جج اور ٹربیونل کے سربراہ مجیب اللہ صدیقی نے کرپشن کی شکایات پر پشاور سے کراچی ٹرانسفر کیا تھا اور فاٹا کے ارکان نے حکومت کی حمایت کیلئے اس ممبر کسٹم کی واپسی کی شرط رکھ دی، جس پر وزیراعظم نواز شریف نے سیکرٹری قانون سے تبادلہ واپس لینے کیلئے کہا، مگر اس پر بھی انہوں نے انکار کر دیا۔ آئی بی کی 17 درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھیِں، چودھری منظور اس وقت ڈی جی آئی بی تھے۔ وہ سیکرٹری قانون میاں ثاقب نثار کے پاس آئے اور بتایا کہ ہم نے اٹارنی جنرل چودھری فاروق سے عدالت میں پیش ہونے کیلئے درخواست کی مگر وہ 35 لاکھ روپے فی کیس مانگ رہے ہیں۔ ہم نے جسٹس (ر) صمدانی کو پانچ لاکھ روپے میں وکالت کیلئے رضا مند کرلیا ہے۔ آپ جسٹس (ر) صمدانی کو وکیل کرنے کی منظوری دے دیں، جس کی میاں ثاقب نثار نے منظوری دے دی۔ اس پر اٹارنی جنرل چودھری فاروق نے وزیراعظم کو بھڑکا دیا ۔ وزیراعظم نے اٹارنی جنرل سمیت تمام شکایات کنندگان کو بلا لیا، جو ڈیڑھ سو افراد کے قریب تھے۔ میاں ثاقب نثار سے اس کا جواب طلب کیا، جس پر میاں ثاقب نثار سیکرٹری قانون کے عہدے سے الگ ہوگئے۔ اس پر خالد انور بڑے رنجیدہ ہوئے۔
ایک ملاقات میں سابق چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) ارشاد حسن خان بتا رہے تھے کہ ثاقب نثار کا جج کے لیے نام چیف جسٹس اجمل میاں کے پاس آیا تو ایک حلقے نے یہ کہہ کر مخالفت کی کہ ان کے والد میاں نثار اپنے بیٹے کاچیمبر چلاتے ہیں۔ ایسے بے جا تحفظات پر ثاقب نثار چیف جسٹس اجمل میاں سے ملے اور اپنا نام واپس لینے کی درخواست کی۔ جسٹس اجمل میاں نے اس درخواست کو ان کے اپ رائٹ ہونے کی دلیل کے طور پر لیا۔ جسٹس ارشاد حسن خان بھی ثاقب نثار کو اپ رائٹ اور دلیر چیف جسٹس سمجھتے اور کہتے ہیں عوام کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے جسٹس ثاقب نثار کی کوششیں رنگ لائیں تو یہ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہو گا۔ 
حساب لینے اور ادھار چکانے میں میاں نواز شریف شہرت رکھتے ہیں۔ وہ جن سے حساب لینے کی بات کررہے ہیں اگر وہ واقعی میاں نواز شریف کے بقول ان کونشانہ بنائے ہوئے اور انتقام لے رہے ہیں۔ یہ میاں صاحب نے کبھی نہیں بتایا کہ انہوں نے کیا کس پر ستم ڈھایا تھا جس کا انتقام لیا جا رہا ہے۔ میاں صاحب جن سے حساب لینے کی بات کرتے ہیں تو کیا وہ میاں صاحب کو حساب لینے اور ادھار چکانے کے قابل رہنے دیں گے!
ووٹ کوعزت دو نعرہ بڑا مقبول ہو رہا ہے۔ بوٹ کو عزت دینے والے بھی سیاسی منظرنامے پر ابھر رہے ہیں۔ پہلے احتساب پھر انتخاب کی مہم بھی چل رہی ہے مگر بے سود ہے۔ کیونکہ اس غیر آئینی اقدام کی کسی میں جرات نہیں ہے۔ الیکشن وقت پر ہوں گے تاہم ان میں کاریگری ہو سکتی ہے۔ یہ کام صرف فوج کر سکتی ہے جو کھل کر سامنے آنے پر تیار نہیں جن کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلا رہی ہے ان کے لیے اُس وقت حالات ناساز گار ہو سکتے ہیں جب کندھے سے بندوق ہٹ جائے گی، کچھ لوگوں سے میاں نواز شریف کے ادھار چکانے کا یہی موقع ہو گا۔ بہرحال کورٹ کوعزت دینے کے سوا کسی کے پاس معروضی حالات میں کوئی چارہ نہیں ہے۔ 

متعلقہ خبریں