لاہور میں موجود شاہی قلعہ سے پہلے یہاں ایک کچا قلعہ تھا۔ شہنشاہ اکبر نے اسے گرا کر اس جگہ نئے سرے سے ایک عالیشان پختہ قلعہ بنوایا۔ اکبر کے بعد جہانگیر نے اس میں کئی ایک عمارتیں تعمیر کروائیں کہتے ہیں کہ انصاف کی زنجیر اس قلعہ میں تھی جیسے بجا کر فریاد ی بادشاہ سے انصاف طلب کرتے تھے۔ جہانگیر اور نور جہاں نے اپنی زندگی کے آخری ایام اسی قلعے میں گزارے پھر ان کے بعد شاہ جہاں نے اسے کافی ترقی دی۔
پہلے دریائے راوی قلعے کی دیوار کے ساتھ بہتا تھا اور بادشاہ روشن جھروکے میں بیٹھ کر صبح کے وقت دریا کا نظارہ کرتا تھا مگر جب مغل دور حکومت ختم ہوگیا اور دریائے راوی کا نظارہ کرنے والے بھی مرکھپ گئے تو شاید اس غم میں راوی نے بھی اپنا رخ بدل لیا۔ اب وہ قلعہ سے دو میل دور بہتا ہے قلعے کا بیرونی حصہ پچی کاری کے نہایت ہی خوبصورت نمونوں سے مزین ہے اس پر جا بجا انسانوں، گھوڑوں اور ہاتھیوں کی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔
قلعے کے اردگرد ایک اونچی سی فصیل ہے جس کے تین بڑے دروازے ہیں ایک مشرق کی سمت، دوسرا جنوب کی سمت، اور تیسرا شمال مغرب کی جانب، شمال مغربی دروازے ہی سے بادشاہ اور بیگمات ہاتھی پر سوار ہو کر گزرتے تھے اس دروازے پر شاہ جہاں کا نام کندہ ہے یہ دروازہ انگریزوں کے حکم سے بند کر دیا گیا تھا۔ مگر 20نومبر 1949ءکو سابق گورنر پنجاب نے پورے تین سو سال بعد اسے دوبارہ کھلوا دیا۔
قلعے کے اندر ایک دیوان ہے جس کی چھت ستونوں کے سہارے کھڑی ہے اسے دیوان عام کہتے ہیں اس میں ایک جھروکا بنا ہوا ہے جہاں بیٹھ کر شاہ جہان اپنی رعایا کو اپنا دیدار کراتا تھا۔
دیوان خاص بادشاہ کا شاہی دربار تھا جہاں وہ اپنے وزیروں مشیروں، شہزادوں اور دوسرے راجاوں مہاراجوں سے ملاقات کیا کرتا تھا اور سلطنت کے بارے میں صلاح مشورہ لیتا تھا۔ جب بادشاہ کی سواری دیوان خاص میں پہنچتی تھی تو چوبدار نقارے پر چوٹ لگاکر یہ اطلاع دیتا تھا کہ شاہی سواری آرہی ہے تمام محافظ دستے ہوشیار ہو جاتے پھر بادشاہ ”با ادب با ملاحظہ ہوشیار“ کے نعروں کے درمیان دیوان خاص میں داخل ہوتا اس وقت تمام لوگ ادب سے کھڑے ہو کر کورنش بجالاتے پھر بادشاہ تخت شاہی پر بیٹھ جاتا اور ہاتھ کے اشارے سے درباریوں کو اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھنے کی اجازت دے دیتا۔
قلعے کے اندر ایک شیش محل ہے جو فن تعمیر اور فن نقاشی کا بہترین نمونہ ہے اس کی دیواریں اور چھتیں رنگ برنگ کے شیشوں اور پچکاری کے کام سے مزین ہیں ان کی چمک دمک آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے اب بھی شیش محل کے کسی کمرے میں دیا سلائی روشن کی جائے تو تمام کمرہ جھلمل جھلمل کرنے لگتا ہے کہتے ہیں کہ اسے شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا۔
شیش محل کے قریب ہی موتی مسجد ہے یہ بھی فن تعمیر کا ایک دلکش نمونہ ہے اسے جہانگیر نے شاہی بیگمات کے لیے تعمیر کروایا تھا تاکہ وہ اس مسجد میں باپردہ نماز ادا کر سکیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی حکومت کے زمانے میں اس قلعہ پر قبضہ کیا تو اس نے موتی مسجد کا نام بدل کر ”موتی مندر“ رکھ دیا تھا اگرچہ سکھوں نے مسجد سے قیمتی ہیرے جواہرات نکال کر اس کی خوبصورتی کو سخت نقصان پہنچایا۔ لیکن اس کے باوجود اس کی عظمت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے۔
قلعے کے اندر ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے جس میں بہت سی نادر اشیاءمحفوظ ہیں بہت سی الماریوں میں پرانے زمانے کے اوزار، اسلحہ، تصویریں اور لباس وغیرہ بڑے قرینے سے سجائے گئے ہیں اتنی مدت گذر جانے کے باوجود بھی ان چیزوں کی سج دھج میں کوئی فرق نہیں آیا۔
شاہی قلعہ، مغل بادشاہوں کی وہ قیمتی یادگار ہے جو ہمیشہ آنے والی نسلوں کو ان کے شاہانہ دبدبے اور شان و شوکت کی یاد دلاتی رہے گی۔ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی کثیر تعداد اس قلعہ کو دور دور سے دیکھنے کے لیے آتے ہیں خصوصا سکول و کالجوں اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس میں کئی سامان موجود ہیں۔