حضرت بلالؓ

لاہور(مہرماہ رپورٹ): حضرت بلالؓ حبشہ کے رہنے والے تھے اور اُمیہ بن خلف کے نام کے ایک یہودی کے غلام تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب ان کو ایمان نصیب ہوا تو اسلام کا ابتدائی ز مانہ تھا، دشمنان اسلام مسلمانوں کو چین سے دیکھنا نہ چاہتے تھے۔ اللہ کے نور کو بجھانے کے لئے دن رات ہر ممکن کوشش میں مشغول تھے۔ لیکن حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ: ”ہم تو اپنا نور مکمل کر کے رہیں گے چاہے کفار کو کتنا ہی ناگوار ہو“۔
حضرت بلالؓ اگر چاہتے تو ایمان مخفی رکھ سکتے تھے اور اس اخفاءکی بدولت کفار کی ایذا رسانی سے محفوظ رہ سکتے تھے، لیکن حق تعالیٰ کی محبت نے کلمہ توحید ظاہر کرنے پر انہیں مجبور کر دیا اور نعرہ ”احد“ لگانے پر عشق حقیقی نے ان کو معطر کر دیا۔
اُمیہ بن خلف کا غیظ و غضب، ظلم اور زدوکوب کی صورت میں برس پڑا آپ کو اتنا مارا کہ لہولہان کر دیا اور اسی زخم کی حالت میں گرم گرم ریت پر گھسیٹا اور کہنے لگا۔” اب آئندہ نعرہ وحدانیت لگانے کی جرا¿ت نہ کرنا“۔ حضرت بلالؓ بزبان حال عرض کرتے:
بجرم عشق تو ہم میکشند و غوغا ئیست
تو نیز برسربام آ کہ خوش تماشا ئیست
”آپ کی محبت کے جرم میں یہ کفار مجھ کو قتل کر رہے ہیں اور شور برپا کر رہے ہیں۔ اے محبوب حقیقی! آپ بھی آسمان سے دنیا پر تشریف لائیے اور اپنے عاشق کے اس تماشہ کو دیکھئے کہ کیا اچھا تماشہ ہے“۔
ایک دن حضرت ابوبکر صدیقؓ اس طرف سے گزرے۔ حضرت بلالؓ اسی خستہ و خراب لہولہان حالت میں احد، احد کا نعرہ لگا رہے تھے۔ یہ آواز سن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ کھڑے ہو گئے اور اس آواز میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی جان پاک کو بوئے محبوب حقیقی محسوس ہوئی جس سے آپ محو لذت ہو گئے۔
حضرت بلالؓ کی اس مظلومیت کو دیکھ کر حضرت صدیق اکبرؓ کا دل تڑپ گیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔انہوں نے حضرت بلالؓ کو الگ بلا کر سمجھایا کہ تنہائی میں اللہ کا نام لیا کرو۔ اس موذی کے سامنے ظاہر مت کرو، ورنہ یہ ملعون ناحق تم کو ستائے گا۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ” اے محترم! آپ حضور اکرمﷺ کے صدیق ہیں۔ آپ کی نصیحت کو قبول کرتا ہوں“۔
دوسرے دن پھر حضرت صدیق اکبرؓ کا ادھر سے گزر ہوا ۔دیکھتے ہیں کہ پھر وہی ماجرا ہے۔ حضرت بلالؓ احد، احد، پکار رہے ہیں اور وہ یہودی ان کو بری طرح زدوکوب کر رہا ہے ،یہاں تک کہ جسم خون سے لہولہان ہو گیا ہے۔ اس دردناک منظر کو دیکھ کر آپ تڑپ گئے اور حضرت بلالؓ کو پھر نصیحت فرمائی کہ ”بھائی کیوں اس موذی کے سامنے احد کہتے ہو۔ دل ہی دل میں خاموشی کے ساتھ احد احد کرتے رہا کرو “۔حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ” اچھا پھر توبہ کرتا ہوں۔ اب آپ کے مشورہ کے خلاف نہ کروں گا“۔ الغرض حضرت بلالؓ باجود ہزار مصائب و آلام کے راز عشق کو مخفی نہ رکھ سکے اور نعرہ احد ظاہر ہوتا رہا۔ مولانا فرماتے ہیں!
تن بہ پیش زخم خارآں جہود
جان و مست و خراب و آں ودود
حضرت بلالؓ کا جسم تو اس ظالم یہودی کے سامنے زخم خوردہ تھا لیکن ان کی روح حق تعالیٰ شانہ کی بارگاہ قرب ہو رہی تھی ۔ اسی محبت کا نام حقیقی محبت ہے۔
حضرت صدیق اکبرؓ نے متعدد بار نصیحت فرمانے کے باوجود جب ہر بار یہی دیکھا کہ وہ یہودی ظلم کر رہا ہے اور حضرت بلالؓ احد، احد کا نعرہ لگا رہے ہیں تو اس ماجرے کو محبوب رب العالمین رحمت اللعالمینﷺ کے سامنے پیش کیا۔ حضرت بلالؓ کے مصائب سن کر آپﷺ کی آنکھیں درد سے اشکبار ہو گئیں۔ ارشاد فرمایا کہ” اے صدیقؓ پھر کیا تدبیر ہے کہ بلالؓ کو اس بلا سے نجات ملے“۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے عرض کیا ”یارسول اللہ ﷺمیں انہیں خرید لیتا ہوں“۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ” اچھا تو بلالؓ کی خریداری میں میری بھی شرکت ہو گی“۔ اللہ اکبر! کیا نصیب تھا حضرت بلالؓ کا کہ خود رسول ﷺان کو خرید رہے ہیں۔ اس کالے جسم میں اللہ کی محبت سے ایسا نورانی دل تھا کہ بارگاہ رسالتﷺ اس کی خریدار ہو گئی۔
الغرض حضرت ابوبکرؓ اس یہودی کے پاس گئے۔ اس وقت بھی وہ حضرت بلالؓ کو زدوکوب کر رہا تھا۔ فرمایا کہ” اس ولی کو کیوں مارتا ہے“۔ یہودی نے کہا کہ” اگر تمہیں ایسی ہمدردی ہے تو پیسہ لا اور اس کو لے جا“۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا کہ” سفید جسم اور کالے دل والا میرا یہودی غلام تو لے لے اس کے بدلے میں کالے جسم اور روشن دل والا یہ حبشی غلام مجھے دے دے“۔
حضرت صدیق اکبرؓ حضرت بلالؓ کو لے کر بارگاہ رسالتﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ” یارسولﷺ میں نے کیسا سودا کیا ہے؟۔ سفید جسم اور کالا دل دے آیا ہوں اور کالا جسم اور نورانی دل لے آیا ہوں“۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ” بہت اچھا سودا کیا ہے تم نے اے صدیق“۔ؓ اور حضورﷺ نے حضرت بلالؓ کو اپنے سینہ مبارک سے لگا لیا۔