ٹرینو ں کے حادثات اور قیمتی جانی نقصان : شیخ رشید ہو یا کوئی اور ایسے شخص کی تحریک انصاف میں کوئی جگہ نہیں ؟ پی ٹی آئی کے اندر سے مضبوط آواز بلند ہو گئی

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) قارئین کرام ہم ٹی وی دیکھنے لگے اور رحیم یار خان میں ہونیوالے ٹرین حادثے پر وزیر ریلوے شیخ رشید کے بیانات پڑھنے لگے۔ اس حادثے کے نقصانات کی تفصیل بھی نشر ہو رہی تھیں۔ مالی نقصان اپنی جگہ کیا اکیس قیمتی جانوں کا کوئی نعم البدل ہو سکتا ہے، نامور کالم نگار اور مشیر وزیراعلیٰ پنجاب محمد اکرم چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔کوئی امداد، کوئی دلاسہ، کوئی حوصلہ، کوئی دلیل ان اکیس خاندانوں کا دکھ کم کر سکتی ہے، کیا ان اکیس خاندانوں کے نقصان کی ذمہ دار وزارت ریلوے نہیں ہے، کیا ان کی مجرم وزارت ریلوے ہے، کیا وزیر ریلوے سے پوچھا جائے گا کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟؟؟ یہ میرے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے، یہ وزیر ریلوے کیا کرتے پھر رہے ہیں، شیخ رشید کے وزیر بننے سے اب تک لگ بھگ چھ درجن حادثے ہو چکے ہیں، ان حادثات کا ذمہ دار کون ہے، تشویشناک حد تک حادثوں کی بڑھتی ہوئی تعداد یہ ظاہر کر رہی ہے کہ نظام میں کہیں نہ کہیں ایسی خرابی ضرور پیدا ہوئی ہے جسے مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیخ رشید کی ساری توجہ زبانی جمع خرچ پر ہے۔ وہ بغیر کسی حکمت عملی کے نئی ٹرینیں چلانے کے چکر میں سارے نظام کو داؤ پر لگا رہے ہیں، نئی ٹرینوں کی سرکس میں، اپنے نمبر بنانے کے چکر میں، سادہ لوح عوام کی معصومیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں قیمتی زندگیوں کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ نئے ٹرینوں کے اعلان کی رفتار موجود ٹرینوں کی رفتار سے بھی کہیں تیز نظر آتی ہے۔ جتنے بروقت وزیر ریلوے کے بیانات ہوتے ہیں وقت کی اتنی پابندی ٹرینوں کی آمدورفت میں ہونی چاہیے، جتنی تیز رفتاری سے وزیر ریلوے بیانات دیتے ہیں اس تیز رفتاری سے ٹرین کو چلنا چاہیے، وہ ہوتا نہیں جو ان کا کام ہے اور جو وہ کر رہے ہیں اس میں صرف تباہی ہے۔ کیا وزیر ریلوے نہیں جاتے کہ ایک ٹرین کو دوبارہ چلنے کے لیے کم از کم دس سے بارہ گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے۔ کیا وزیر ریلوے نہیں جانتے کہ ہمارے نظام میں اتنی ٹرینیں چلانے کے لیے سٹاف موجود ہے نہ ٹریک اس قابل ہیں کہ ان پر اتنا وزن ڈالا جائے، نہ نظام میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اتنی ٹریفک کو برداشت کر سکے، نہ اتنی صلاحیت ہے کہ اتنی ٹرینیں سنبھال سکیں، نہ قابلیت ہے کہ اتنی ٹرینوں کی دیکھ بھال کر سکیں پھر کیا وجہ ہے سب کچھ جانتے ہوئے بھی دھڑا دھڑ ٹرینوں کے نمبر بڑھائے چلے جا رہے ہیں۔ جس تعداد میں ٹرینیں بڑھا رہے ہیں اسی تناسب سے حادثات بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ وزیر ریلوے ہوش کے ناخن لیں اپنی بناوٹی پھرتی، چستی ثابت کرنے کے لیے ملک و قوم کا نقصان نہ کریں۔ اگر ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو پہلے نظام کو بہتر بنائیں۔ دعووں کے بجائے دفتر کو وقت دیں نظام کو سمجھیں، حادثات کی وجوہات جاننے کی کوشش کریں تاکہ مسائل حل کرنے میں آسانی ہو، انسانی جانوں پر سیاست نہ کریں، سیاست کے شوقین ہیں تو اسے لال حویلی تک محدود رکھیں۔ عوام کے جان و مال سے کھیلنے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ پاکستان ریلویز کی موجودہ صورت حال تشویشناک ہے وزیراعظم عمران خان کو اسکا نوٹس لینا چاہیے۔ اتحادی کسی بھی حکومت کی ضرورت ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی اتحادی نہ ملک سے بڑا ہو سکتا ہے نہ عوام سے مقدم، موجودہ صورت حال میں وزیر ریلوے کی کارکردگی اور ان کے سطحی فیصلوں کا جائزہ لینے، ان کی کارکردگی پر ایک آزاد اور خودمختار کمشن تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ حقیقت عوام تک پہنچے اور ذمہ داروں کو کیفرِ کردار اور منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔ مختلف ریلوے حادثات میں متاثر ہونے والے پاکستانیوں کی نظریں ایوان وزیراعظم کے عارضی مکین عمران خان پر ہیں دیکھتے ہیں کہ ایوان وزیراعظم وزیر ریلوے کی ناقص پالیسیوں پر کیا ردعمل دیتا ہے، کیا ایکشن لیتا ہے، کیا کارروائی کرتا ہے۔ یقینا ملک و قوم کا نقصان کرنے والوں اور معصوم پاکستانیوں کی جان سے کھیلنے والوں کی نئے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ شیخ رشید ہوں یا کوئی اور!!!!!!!