لارنس آف عربیہ کی حقیقی داستان:حصّہ 3

2019 ,جولائی 20



گذشتہ سے پیوستہ:
 عقبہ کی مہم ابتدائی بیسویں صدی کے عظیم الشّان کارناموں میں شمار کی جاتی ہے اور فوجی کالجوں میں اب بھی اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے، لیکن لارنس نے اس کے فوراً بعد ہی ایک شاطرانہ چال چلی جس کے نتائج کہیں زیادہ دور رس تھے۔ اپنی کارگزاری کے بارے میں قاہرہ میں مقیم برطانوی اعلیٰ قیادت کو یہ سب بتانے کے لیے تیزی سے سفر کرتے ہوئے لارنس کو پتہ چلا کہ پچھلے برطانوی سالار کو، جو عرب بغاوت کا کچھ زیادہ حامی نہیں تھا، ترکوں کے خلاف دو محاذوں پر ناکام حملوں کی پاداش میں برطرف کر دیا گیا ہے۔ اس کی جگہ آنے والے شہہ سوار فوج کے سالار کا نام ایڈمنڈ ایلن بی تھا، اور جب اس نے نحیف و نزار اور شکستہ پا لارنس کو اپنے دفتر میں طلب کیا تو اسے اپنا نیا عہدہ سنبھالنے میں بمشکل دو ہفتے ہوئے تھے۔
اگر جنرل کے ذہن میں ایسا کوئی سوال تھا بھی کہ اس ماتحت افسر نے اپنی اسکیم کے بارے میں اپنی اعلی قیادت کو کیوں مطّلع نہیں کیا تھا تو وہ عقبہ سے آنے والی اس ذہنوں میں بجلی دوڑاتی خبر اور اس کے ممکنہ سیاسی نتائج کے نیچے دب گیا تھا۔ بجائے جواب دہی کے، لارنس نے اپنی نو حاصل کردہ اہمیّت کو کام میں لاتے ہوئے، جوان ذہن ایلن بی کو ایک تشنہئ عمل ممکنہ کامیابی کے لیے راضی کرنے کا تہیّہ کر لیا۔
اپنی صحرائی مشقّت کے دوران لارنس نے صرف دو ہمراہیوں کے ساتھ دشمن کے زیر نگر شام کا ایک قابلِ قدر مطالعاتی سفر بھی کیا تھا۔ اس نے ایلن بی کو بتایا کہ وہاں اسے یہ اندازہ ہوا ہے کہ شامیوں کی ایک بہت بڑی تعداد باغیوں سے ملنے پر آمادہ ہے۔ 
لارنس نے اس تباہ کن فوجی دیو کی پر فریب تصویر کشی کرتے ہوئے اپنے پہلے سے متحرّک اسلحہ بند باغیوں کی طاقت اور صلاحیتوں کو بھی بڑے مبالغے کے ساتھ بیان کیا – برطانوی فلسطین کے ساحل کی طرف پیش قدمی کریں جبکہ عرب شام کے اندرونی علاقوں میں جنگ کریں۔ جیسا کہ لارنس نے اپنی کتاب “سات ستون” میں یادوں کو تازہ کرتے ہوئے لکھا: “ایلن بی کوئی اندازہ نہیں لگا سکا کہ میں کس حد تک واقعی کارگزار تھا اور کس حد تک تیس مار خانی کا اظہار کر رہا تھا۔ یہ کشمکش اس کی آنکھوں سے عیاں تھی اور میں اسے کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے بے یار و مددگار چھوڑ کر آگیا۔ “
لیکن ایلن بی نے ہامی بھر لی، اور یہ وعدہ کر لیا کہ وہ باغیوں کو بھرپور امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو برابر کا شریکِ کار سمجھے گا۔ اس لمحے سے، لارنس کے اندازے کے مطابق، برطانوی فوج اور عرب باغی جگری یار ہو گئے، جبکہ فرانسیسوں کو ایک طرف کر دیا گیا۔ اگر باغی پہلے دمشق پہنچ جاتے تو وہ شام کو پورے کا پورا فرانس سے اچک لینے کے قابل ہوتے۔ کم از کم لارنس کی یہی امیدیں تھیں۔ 
***
استقبالیہ خیمے میں چائے کا دور ختم ہو جانے کے بعد شیخ العطون مجھے اپنی فور- وھیل ڈرائیو ٹویوٹا میں ایک جھانکتی ہوئی چٹان پر لے جا رہا ہے جہاں سے المدوّرةپوری طرح سے نظر آتا ہے۔ اس کے بیٹوں اور بھانجوں بھتیجوں میں سے پانچ مہم جوئی کی غرض سے ٹویوٹا کے کھلے فرش پر پیچھے کھڑے ہوئے ہیں – اور کم کم کامیابی کے ساتھ – کوشش کر رہے ہیں کہ بد مست گاڑی کی اٹھا پٹخ کی وجہ سے ان کے قدم نہ لڑکھڑائیں۔ 
پہاڑی کی چوٹی پر حلقہ بنائے ان خندقوں کے آثار ہیں جہاں سے ترکوں نے قصبے پر ہونے والے برطانوی حملوں کا تواتر کے ساتھ منہ توڑ جواب دیا تھا۔ “بکتر بند گاڑیوں اور ہوائی جہازوں کے ہوتے ہوئے بھی برطانویوں کا شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا”، شیخ کہہ رہاتھا۔ “ترک واقعی بہت بہادر جنگجو تھے۔ “
العطون کے الفاظ اس جذباتی پیچیدگی کی نشاندہی کرتے ہیں جو پہلی جنگ عظیم اور عرب انقلاب نے عرب دنیا کے اس خطّے میں پیدا کر دی ہے: اپنے عثمانی حاکموں کو 400 سال کی برتری کے بعد اٹھا پھینکنے کا فخر ایک طرف، اور ان کی جگہ لینے والی صورتحال کی دائمی یاس دوسری طرف۔ شیخ تقریباً دس میل کے فاصلے پر واقع سفیدی کیے ہوئے مکانوں کے ایک جھنڈ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ 
“وہ سعودی عرب ہے۔ وہاں میرے خاندان کے لوگ اور میرے دوست ہیں، لیکن اگر میں ان سے ملنا چاہوں – یا وہ مجھے ملنے آنا چاہیں — تو ہم کو ویزا لینا پڑے گا اور کسٹم کروانا ہوگا۔ کیوں؟ ایسا کیوں ہے؟ ہم ایک وحدت ہیں، عرب، اور ہم کو ایک قوم ہونا چاہیے۔ اس کی جگہ جانتے ہو ہمیں کتنا بانٹا گیا ہے — 22، کتنا؟ 22 مختلف ممالک میں۔ یہ غلط بات ہے۔ ہم سب کو ایک ہونا چاہیے”۔ 
شیخ العطون بجا طور پر اس صورتحال کی ذمّہ داری اس امن پر ڈالتا ہے جو پہلی جنگ عظیم کے ختم ہونے پر سامراجی طقتوں نے اس علاقے پر تھوپا تھا، وہ امن جس سے اس علاقے کو بچانے کی لارنس نے اپنی بھرپور طاقت سے جد و جہد کی۔ 
جنوبی فلسطین میں ترکوں کی صفوں میں دراڑیں ڈالنے، اور دسمبر 1917 میں یروشلم کو ہتھیا لینے سے قطع نظر، برطانوی فوج کی کاروائیاں اس وقت تقریباً رک گئیں جب ایلن بی کی فوجوں کو مغربی محاذوں پر منتقل کر دیا گیا۔ عربوں کے نئے صدر مقام عقبہ سے کارروائیاں کرتے ہوئے لارنس نے ریلوے کے خلاف اور بحیرہ مردار کے مغرب میں واقع پہاڑی سلسلوں میں اپنے حملے جاری رکھے، لیکن یہ کسی طور وہ عظیم مفلوج کر دینے والا دھاوا نہیں تھا جس کی لارنس نے منصوبہ بندی کی تھی۔ جنگ کی یہ ڈھلمل کیفیت 1918 کے پورے موسمِ گرما میں قائم رہی۔
لیکن اس دوران لارنس کے ساتھ ایک سانحہ ہوا۔ نومبر 1917 میں جب وہ ایک لائحہ عمل کے اعتبار سے اہم ریلوے سے منسلک قصبے درعا کی مطالعاتی مہم پر تھا، تو کچھ دنوں کے لیے ترکوں نے اسے قیدی بنا لیا، اور اذیتیں دیں۔ اور زیادہ تر شہادتیں کہتی ہیں کہ مقامی ترک گورنر کے ہاتھوں اس کے ساتھ بد کاری بھی کی گئی۔ جب کسی طرح فرار ہو کر وہ دوبارہ باغیوں کے درمیان پہنچا، تو ایک زیادہ سخت گیر، بلکہ سفّاک لارنس سامنے آنے لگا۔ 
گو لارنس کے ساتھ درعا میں پیش آنے والے سانحے کو لین کی فلم میں بہت ڈھکے چھپے انداز میں دکھایا گیا ہے، لیکن اس معاملے کا جو پہلو بڑی معقولیت سے دکھایا گیا ہے وہ لارنس کا بتدریج توازن سے ہٹنا ہے۔ کچھ معرکوں میں لارنس نے اپنے ماتحتوں کو حکم دیا کہ کسی کو قید کرنے کا تکلّف نہ کیا جائے، یا ایسے لوگوں کو جن کو ان کے زخموں کی شدّت کی وجہ سے ساتھ لے جانا ممکن نہ ہو، ان کی اذیّت سے نجات دلانے کے لیے، سہولت سمیت کے گھاٹ اتارنے کا اہتمام کیا جائے۔ بعض مواقع پر اس نے ایسے خطرات مول لیے جن کو خودکشی کے قریب کہا جا سکتا ہے۔ ترکی کے دستے کو لے جانے والی ایک ٹرین پر اس نے اتنے کم اسلحہ کے ساتھ حملہ کیا کہ اس کے کچھ ساتھیوں کے ہاتھوں میں دشمن پر پھینکنے کے لیے صرف پتھر ہی تھے۔ 
اگر اس رویّے کی جڑ درعا کا واقعہ تھا تو بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے اس مضطرب کن ایقان کے ہاتھوں میں کھیل رہا تھا کہ اگر عرب دمشق پہلے پہنچ جائیں تو اس کے عرب پہنچنے کے بعد بولے جانے والے تمام جھوٹ، اور تمام مجرمانہ راز کسی طور سے جائز قرار پا جائیں گے۔
***
اردن کے بکھرے بکھرے سے سرحدی قصبے رمثا سے نکلنے والی ہر سڑک پر ایک دلچسپ صورتحال نظر آتی ہے: تین چار منزلہ محل جیسے مکان جو چاردیواری سے گھرے باغوں کے درمیان بنائے گئے ہیں۔ “اسمگلر”؛ رمثا کی ایک مرکزی سڑک پر واقع ایک چھوٹی سی ریفرشمنٹ کی دکان کا مالک وضاحت کرتا ہے۔ وہ تقریباً نصف میل کے فاصلے پر شام کی سرحد میں داخل ہوتی سڑک کی سمت اشارہ کرتا ہے۔ “ڈیڑھ سال سے سرحد سرکاری طور پر بند ہے، تو اس طرح سے خوب دولت بنائی جارہی ہے۔ وہ لوگ ہر چیز پار لے جاتے ہیں – اسلحہ، دوائیں، خوردنی تیل، جو کچھ بھی آپ کے دھیان میں آئے۔ “
اس سرحد کے چھ میل پرے شام کا شہر درعا ہے، وہ شہر جہاں سے شام کی موجودہ خانہ جنگی کا آغاز ہوا، اور جہاں سو سال پہلے لارنس کو کچھ دن قید میں رکھا گیا تھا۔ اب ہر لحاظ سے درعا خود اپنا شکستہ خول بن چکا ہے، اسکی گلیاں کھنڈر ہو چکی ہیں اور آبادی کی بہت بڑی تعداد جا چکی ہے۔ بہت سے لوگ عمان کے شمال میں بنائے گئے الزعترةکے بے ہنگم مہاجر کیمپ تک جا پہنچے، یا پھر یہاں رمثا۔ 
“اب یہاں ساری دکانیں شامی چلا رہے ہیں”، رمثا کے دکاندار نے تجارتی راستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ “انہوں نے ہر چیز پر قبضہ کر لیا ہے”۔ نئے آنے والوں کے بارے میں اس کی شکایت ساری دنیا میں ہجرت کرنے والوں کے بارے میں شکایات کی باز گشت ہے: یہی کہ وہ مقامی افراد کی ملازمتوں پر قبضہ کر لیتے ہیں، ان کی وجہ سے مکانوں کے کرائے آسمان کو چھونے لگتے ہیں، وغیرہ۔ “میں نہیں جانتا کہ ابھی چیزیں اور کتنی خرابی کی طرف جائیں گی”، وہ ایک لمبی سسکی بھرتے ہوئے کہہ رہا ہے، “لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ جب تک وہاں جنگ ختم نہیں ہوگی، کوئی بہتری نہیں ہو گی”۔ 
رمثا کے 15 میل مغرب میں امّ القیس کے قدیم یونانی – رومی کھنڈر ایک بڑھی ہوئی چٹان پر واقع ہیں۔ جب مطلع صاف ہو تو شمال میں جولان کی پہاڑیوں اور گلیلی کے سمندر تک بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کے آخری دنوں میں امّ القیس کو ان دور دراز مقامات کو دیکھ سکنے کے سبب اہمیت حاصل نہیں ہوئی تھی، یہ جینے مرنے جیسی اسٹریٹیجک اہمیّت اسے بالکل نیچے واقع وادیِ یرموک کے سبب حاصل ہوئی تھی۔ 
جب جنرل ایلن بی نے ستمبر 1918 کے آخر میں ترکوں کو فلسطین میں ایک بھرپور جنگ میں الجھایا تو یہ الجھاو¿جلد ہی ایک بھگڈر میں منتج ہوا۔ ترکوں کے پاس فرار کا واحد راستہ اب یرموک سے ہوتے ہوئے اوپر درعا کے ریلوے اسٹیشن کا تھا۔ لیکن جب وہ وادی سے چڑھ کر وہاں پہنچتے تو لارنس اور ہزاروں عرب باغی سپاہی انہیں اپنے منتظر ملتے۔ درعا کے واقعے کے ایک سال بعد لارنس اس جگہ لوٹ آیا تھا جہاں اسے شدید اذیّتیں بھگتنی پڑی تھیں، اور اب وہ ایک دہشت ناک انتقام لینا چاہتا تھا۔ 
***

متعلقہ خبریں