لاہور کا عجائب گھر، پاکستان کا سب سے پرانا اور منفرد اہمیت کا حامل عجائب گھر ہے یہ اس زمانے کی بات ہے جب انگریز برصغیر پر قابض تھے پنجاب میں پہلی بار آرٹ و صنعت کی نمائش 20جنوری 1864ءکو ٹولٹن مارکیٹ میں منعقد ہوئی جو اپریل 1864ءمیں ختم ہوگئی اس نمائش پر حکومت نے کافی روپیہ خرچ کیا لاہور، ملتان، خوشاب، بھیرہ اور ملک کے دوسرے علاقوں کے سرداروں اور امیروں نے نہایت قمیتی ملبوسات، قالین، صندوقچیاں، حقہ و ظروف نادر اور قیمتی پتھر، نیزے، تیرکمانیں، اور مرصح قبضوں والی تلواریں حنوط شدہ جانور اور پرندے، نوادرات اور مصوروں کے شاہکار نمونے وغیرہ نمائش میں بھیجے اس کے ساتھ ساتھ اس دور کے اور اس سے پہلے زمانے کے خوش نویسوں کے ہاتھ سے لکھی گئی کتب اور قطعات بھی نمائش میں شامل کیے گئے اس وقت حکومت نے ان نادر اشیاءکو محفوظ کرنے سے متعلق سوچا چنانچہ اسی سال یعنی 1864کو ”انڈسٹریل آرٹ میوزیم آف دی پنجاب“ کے نام سے اس عمارت میں عجائب گھر قائم کیا جو آج کل ٹولٹن مارکیٹ کے قریب واقع ہے عجائب گھر کی موجودہ عمارت بالکل اس کے پاس ہی واقع ہے نمائش میں رکھے جانے والے صنعت و حرفت کے شہ پارے تقریباً تیس سال تک اس عمارت میں رکھے رہے۔
عجائب گھر کی موجودہ عمارت ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی تقریبات کے سلسلے میں عوام کے تعاون سے تعمیر کی گئی اس عمارت کا سنگ بنیاد ملکہ وکٹوریہ کے پوتے اور ایڈورڈ ہفتم کے بیٹے شہزادہ البرٹ ڈیوک آف کلارنس نے 3فروری 1890ءکو رکھا۔ عمارت 1893کو مکمل ہوئی اور 1894ءکو نوادرات کا ذخیرہ ٹولنٹن مارکیٹ نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ ابتداءمیںعجائب گھر قدیمی اشیاءاور اعلیٰ دستکاری کے نمونوں کا ذخیرہ تھا پھر یہ نمونے رفتہ رفتہ دیگر اداروں میں منتقل کر دیئے گئے اور لاہور کے اس عجاب گھر کو بھر پور شہرت اور پسندیدگی کی سند ملی مگر برصغیر کی تقسیم سے نوادارت بھی دونوں ملکوں میں تقسیم کرنا پڑے جس سے اس بہترین عجائب گھر میں مسائل کے ساتھ ساتھ خلاءبھی پیدا ہوگیا کیونکہ فقید المثال نوادارت کا ایک بڑا حصہ بھارت کو منتقل کر دیا گیا یہی وجہ تھی کہ اس کی شہرت میں بھی بہت فرق آیا فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم نے 1966ءمیں اس کی تنظیم نو اور بہتری کے احکامات صادر کیے چنانچہ ان کی ذاتی دلچسپی ماہرین آثا ر قدیمہ اور دیگر ماہرین نے بھر پور تعاون اور محنت سے بڑی حد تک اس میں نکھار لایا گیا 28نومبر 1967ءکو نئی ترتیب اور تجدید شدہ عجائب گھر کا افتتاح بھی ایوب خان نے کیا اور اسے دوبارہ عوام کے لیے کھولا گیا۔
اس وقت عجائب گھر میں 19سے زائد گیلریاں ہیں۔ عجائب گھر میں داخل ہوں تو خوش نویس محمد امین خان کا لکھا ہوا فریم شدہ بورڈ رکھا ہے جس میں عجائب گھر کی تاریخ پرروشنی ڈالی گئی ہے یہیں بائیں جانب جودھپور بھارت کی سنگ مر مر کی بنی دوسری اشیاءرکھی گئی ہیں اس کے بعد لاہور کی مختلف عمارتوں کے 17ویں صدی کے دروازے رکھے گئے۔ ہیںجن میںسے اکثر کا تعلق اکبری دور سے ہے ان میں ایک سکھ عہد کا شالا مار باغ کا ایک چوکٹھہ بھی شامل ہے اگلے حصے میں پندرھویں صدی کے بعد کی برصغیر کی فن مصوری کی ارتقائی تاریخ نظر آتی ہے دوسری گیلری میں ”گندھارا آرٹ“ کے نمونے ہیں یہیں مہاتما بدھ کے وہ مجسمے بھی ہیں جوان کی زندگی کے مختلف گوشوں اور ادوار کو اجاگر کرتے ہیں اس طرح باقی گیلریاں بھی کسی خاصی دور یا خاصی نام سے منسوب ہیں جس میں ان سے متعلق اشیاءرکھی گئی ہیں۔
ایک گیلری میں جین مت، ہند مت، اور بدھ مت کے علاوہ نیپال، تبت، برما اور بھارت کی بہت سی اشیاءہی ان میں مندروں کے جھنڈے، ان مذاہب کی مورتیاں اور مجسّمے اور دیگر ایسی بہت سی چیزیں رکھی ہیں جو ان کے مذاہب، نفسیات تہذیب عقائد اور اخلاق پر روشنی ڈالتی ہیں اسلامی گیلری ہی برصغیر اسلام کے فروغ کے دور کے نوادرات آرٹ کے نمونے، خوبصورت ترین قالین ہاتھی دانت پر بنی ہوئی دلکش تصاویر، روایتی چغے ٹوپیاں شیشے سے مرصح ٹائلیں اور کاغذ کے گودے پر لاکھ کی نقاش کے کام ایک گیلری میں رکھی گئی ہیں۔
عجائب گھر، کے نوادرات ہی مغلوں کی یادگاروں، نایاب مخطوطات، قرآن پاک کے نادر نسخہ جات، مختلف ممالک کے سربراہان کی طرف سے دیئے جانے والے تحائف، افریقی قبائلی کی بنی اشیاءکے علاوہ ایک گیلری میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے ملبوسات اور ان کے گھر کے ماحول، رہن سہن اور استعمال کی عام اشیاءرکھی گئی ہیں جس سے غیر ملکی سیاحوں کو پاکستان کی ثقافت سے آگاہی حاصل ہوتی ہے یہاں کی ایک گیلری میں قدیم جنگی سازو و سامان اور ہتھیار نہایت سلیقے سے لگے ہوئے ہیں اس گیلری میں ملکہ ءوکٹوریہ کا بہت بڑا بت رکھا ہے اس مجسمے کے دونوں جانب جارج پنجم اور جارج ہفتم کے مجسمے بھی رکھے گئے ہیں۔
یہاں سے سیڑھیاں چڑھیں تو وہ گیلری ہے جہاں تاریخ، تحریک پاکستان کی دلخراش داستان تصویروں اور اخباری تراشوں کی مدد سے رقم کی گئی ہے 1756ءسے 1949ءتک مسلمانوں کی یادگار اشیاءکے علاوہ حضرت لال شہباز قلندر کے مزار کی نیلی روغنی ٹائلیں او رخانہ کعبہ کے غلاف کا ایک خوبصورت ٹکڑا بھی رکھا ہے متفرق نوادارت کی گیلری میں دھات کی بنی ہوئی اشیائ، قدیم لباس، سکے، مہریں چینی کی مصنوعات، ہاتھی دانت پر نقاشی اور جالی دار کا م، شاہی فرامین اور پرانی کتابیں وغیرہ رکھی گئی ہیں اس طرح قبل از تاریخ ہڑپہ اور موہنجوداڑو سے کھدائی میں بر آمد ہونے والی اشیاءکے نمونے بھی یہاں پر موجود ہیں جس میں تحریک کے قائدین کی تصاویر، اور خطوط بھی رکھے گئے ہیں ایک قدیم پاکستانی پرچم بھی ہے جو قائد اعظم محمد علی جناح کی باغ جناح لاہور آمد پر لہرایا گیا تھا۔
قومی ترانے کے خالق جناب حفیظ جالندھری مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہوا قومی ترانہ بھی لگا ہوا ہے یہیں تحریک پاکستان کے درمیان نکلنے والے اخبارات بھی رکھے گئے ہیں اس کے علاوہ قائد اور علامہ اقبال کی زندگیوں پر بھی تصاویر اور چارٹوں کی مدد سے روشنی ڈالی گئی ہے یہ تمام جدوجہداور پیہم کوششوں کو دیکھ کر دل میں آزادی کی نعمت اور قدر وقیمت کا صحیح احساس اور ادراک ہوتا ہے۔
ایک کمرے میں 1947ءسے اب تک کے تمام فرسٹ ڈے کورز اور ڈاک کی تاریخ کی حفاظت کے ساتھ شائقین کے لیے اہمیت رکھتا ہے غرض وہ سب کچھ یہاں موجود ہے جو تاریخ اور آثار قدیمہ کا شعور ادراک رکھنے والوں کے لیے حیران کر دینے کے لیے کافی ہے۔