تذکرہ لاہور کے اس باغی صحافی کا جو ضیاالحق کے دور حکومت میں پابندی لگنے پر دلا بھٹی ، احمد خان کھرل اور بلھے شاہ کے نام سے کالم لکھتا رہا

2018 ,فروری 17



لاہور (مہرماہ رپورٹ) نامور صحافی اور کالم نگار حامد میر اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ورکنگ جرنلسٹ میں رپورٹر، سب ایڈیٹر یا کیمرہ مین آتے ہیں۔ کیمرہ مین، جنہیں ہمارے ہاں زیادہ پذیرائی نہیں ملتی۔ لاہور کے سینئر کیمرہ مین عارف نجمی صاحب نے 1985ء میں نواز شریف کی پہلی ماڈلنگ کی۔ اظہر جعفری صاحب مرحوم ڈان کے کیمرہ مین تھے۔ لمبا قد، کسی بھی ہنگامے میں گھس جاتے اور بہت اچھی تصویریں کھینچ لاتے۔

اسی طرح لاہور میں خالد چوہدری، اسلام آباد میں اسحق چوہدری۔ جہانگیر چوہدری اچھے کیمرہ مین ہیں۔ جیو نیوز کے کیمرہ مین عمران الیگزینڈر نے دنیا کے بہت سے جنگ زدہ علاقوں میں میرے ساتھ کام کیا۔ میں یہ نام اس لیے گنوارہا ہوں کہ صرف اینکر پرسن اور کالم نگار صحافت کی پہچان نہیں۔ یہ صحافت کا حصہ ضرور ہیں، لیکن ہم نے ان لوگوں کو ہی صحافت کی پہچان بنادیا ہے۔ میں نے جن لوگوں سے بہت کچھ سیکھا، ان میں کئی نام ہیں۔ نثار عثمانی صاحب اور احمد بشیر صاحب۔ احمد بشیر صاحب ہمارے لیے مزاحمت کی علامت تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے پابندی عائد کردی تو ”دلا بھٹی“ کے نام سے لکھنا شروع کردیا۔ یہ نام بھی پابندی کی زد میں آیا تو ”احمد خان کھرل“ کے نام سے سامنے آئے۔ اس پر بھی لگی تو ”بلہے شاہ“ کے نام سے لکھنے لگ گئے۔ ہمیشہ میری بڑی حوصلہ افزائی کرتے۔ مجھے آج تک یاد ہے جب میں نے نائن الیون کے بعد اُسامہ بن لادن کا انٹرویو کیا تو صحافت کے حلقوں میں دو اہم شخصیات تھیں جنہوں نے مجھے بہت شاباش دی اور میری حوصلہ افزائی کی۔ ایک مجید نظامی صاحب، حالانکہ ان کے اخبار میں میرا انٹرویو شائع نہیں ہوا۔ دوسرے احمد بشیر صاحب، انہوں نے خصوصی طور پر مجھے لاہور بلایا اور اپنے بچوں کو ساتھ بٹھاکر ان کے سامنے شاباش دی۔

”ویلڈن! تم نے بہت اچھا کام کیا۔“ ان کے الفاظ مجھے یاد ہیں۔ حسین نقی صاحب سے بہت کچھ سیکھا۔ ضیاء شاہد صاحب سے سیکھا سرخی کیسے نکالتے ہیں؟ اسی طرح اس زمانے میں خاور نعیم ہاشمی صاحب تھے۔ جواد نذیر صاحب یاد آرہے ہیں۔ یہ نیوز روم کے لوگ تھے۔ عباس اطہر صاحب کے ساتھ کام نہیں کیا، لیکن ان کے ساتھ ایک عقیدت مندی تھی۔ ان سے قربت کی وجہ سے بہت کچھ سیکھا۔ صحافت میں بطورِ ایڈیٹر دیکھوں تو ڈان کے ایڈیٹر احمد علی خان صاحب بہت اچھے ایڈیٹر تھے۔ ڈان ہی کے نیوز ایڈیٹر سلیم عاصمی صاحب کا نام لوں گا۔ نذیر ناجی صاحب نے بڑی حوصلہ افزائی کی۔ عطاء الحق قاسمی صاحب سے ایک بار انٹرویو میں پسندیدہ کالم نگار کا پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: ”حامد میر!“ مجھے آج تک اس کی سمجھ نہیں آئی انہوں نے یہ کیسے کہہ دیا تھا۔ یہ بیس سال پہلے کی بات ہے۔ ایک نوجوان کے لیے یہ بہت بڑی بات تھی کہ ایک بہت سینئر کالم نگار اس انداز سے حوصلہ افزائی کرے۔ کالم نگاری میں جنہیں سامنے رکھ کر اس راستے پر چلنے کی کوشش کی، ان میں منو بھائی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یہ آج کے منو بھائی نہیں۔ اب ان کی صحت ٹھیک نہیں۔ بہت کم اور مختصر سا لکھتے ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ان کا کالم لوگوں کو رُلاتا یا ہنساتا تھا۔ منو بھائی ہمارے آئیڈیل تھے۔ ابھی بھی ان کے ساتھ عقیدت مندی ہے۔

متعلقہ خبریں