مجید نظامی کی کھری کھری باتیں

آج ہم جناب مجید نظامی کی نوے ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی ایک تقریب کے دوران کسی مقرر نے نظامی صاحب کو اقبال اور قائداعظم کا جاں نشیں کہہ دیا۔ نظامی صاحب نے اسی وقت ٹوکتے ہوئے کہا: ’’میں قائد اور اقبال کا جاں نشیں نہیں، ان ہستیوں کا پیروکار ہوں اور یہی میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔‘‘ شاہد رشید بتا رہے تھے کہ نظامی صاحب نے اپنی سالگرہ منانے سے منع کردیا تھا۔ انکو قائداعظم کی خود سالگرہ منانے کی تصویریں دکھائی گئیں اور بتایا گیا کہ علامہ اقبال نے تو اقبال ڈے اپنی زندگی ہی میں منایا تھا۔ اس پر نظامی صاحب نے کہا کہ میں نہ قائداعظم ہوں نہ علامہ اقبال میں ان کا ورکر ہوں۔ایک ’’صاحب کردار‘‘ شاعر انڈیا گئے، وہاں اْن کو کسی نے غالب سے بڑا شاعر کہہ دیا۔ اسی طرح ایران میں ہمارے ایک شاعر کو شیرازی کے برابر کا شاعر کہہ دیا گیا تھا۔ اب تک دونوں شاعر ان اقوال پر یقین کامل کئے ہوئے ہیں۔ ایک بہت بڑے صحافی نے میاں نواز شریف کے بارے میں کہا کہ ’’میاں نواز شریف اب صرف پاکستانی سیاستدان نہیں رہے، عالمی مدبر بن چکے ہیں۔‘‘ بادی النظر میں میاں صاحب کو اس قول پر اتنا ہی یقین ہے جتنا ان کو قائداعظم ثانی ہونے کا زعم ہے۔ ایک تقریب میں ’’نواز شریف قائداعظم ثانی‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے، میاں صاحب اس پر مسرور ومسحور تھے، سر دھن رہے تھے، نظامی صاحب ان کے ساتھ ہی بیٹھے تھے، وہ کھڑے ہوگئے اور کہا: ’’خبردار! کوئی بھی قائداعظم ثانی نہیں ہوسکتا۔‘‘ نظامی صاحب یہ کہہ کر بیٹھ گئے تو میاں صاحب نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’تسیں تے میری پت لاہ دتی اے۔‘‘
قائداعظم نے بڑی جائیداد بنائی، لندن میں ویسٹ ہیتھ روڈ پر تین منزلہ آٹھ ایکڑ کا گھر ہے، اس کی خریداری کے لئے پیسہ وہیں سے کمایا اور وہیں لگایا، منی لانڈرنگ نہیں کی۔ ممبئی میں اڑھائی ایکڑ کا گھر جناح ہائوس 25 ہزار میں ایک انگریز سر وکٹر سے خریدا تھا۔ کراچی اور لاہور سمیت کئی شہروں میں ان کی جائیدادیں ہیں جو وہ اپنی زندگی میں قانونی وارثوں کے لئے ایک حصے کی وصیت کرکے باقی وقف کرگئے تھے۔ قائداعظم کے ترکے میں ایک ایسا بنڈل بھی موجود ہے جس میں ان کی پوری زندگی کی خریداری کا ریکارڈ ہے۔ ایک ایک چیز کی رسید ہے۔ جرابوں، گھڑی، شرٹ، سوٹ نیز گھر گاڑیوں کی خریداری کی تمام دستاویزات اور رسیدیں اس بنڈل میں آج بھی موجود ہیں
مجید نظامی مرحوم معمولی خریداری کی بھی رسید حاصل کرتے تھے۔ اپنے پی اے کے ذریعے جو منگواتے، اس چیز اور رسید کو بیک وقت دیکھتے۔ خوش خوراکی سے گریزاں رہے، خوش لباسی کی عادت تھی، ایک مرتبہ پی اے کی شرٹ اچھی لگی، پوچھا کہاں سے لی ہے اور کہا اس سے ایک اور منگوا دو۔ شرٹ آگئی، قیمت پوچھنے پر بتایا کہ کزن نے آپ کے لئے گفٹ کی ہے۔ اس پر کرنٹ لگنے کی سی کیفیت تھی۔ شرٹ کو پرے کرتے ہوئے کہا: ’’ہمیں نہیں چاہئے، گفٹ انہیں واپس کردو۔‘‘ اگلے روز رسید کے ساتھ شرٹ پیش کی تو قبول کر لی۔
بھارت کے ساتھ تجارت، تعلقات اور دوستی کے وہ سخت خلاف تھے۔ بھارت سے نفرت کبھی چھپائی نہیں جبکہ حکمران ایلیٹ بھارت سے محبت نہیں چھپاتے۔ ہمارے ہاں نیشنلزم کا فقدان ہی نہیں، ایک بحران بھی ہے۔ بھارت میں الیکشن میں کامیابی پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ جو پارٹی پاکستان سے نفرت، مخالفت اور دشمنی میں سب سے آگے ہو، ہندو اس کو ووٹ دے کر اقتدار میں لے آتے ہیں مگر ہمارے ہاں بھارت سے محبت کے اظہار کا عوامی سطح پر کوئی خاص نوٹس نہیں لیا جاتا۔
ہمارے ایک لیڈر کہتے ہیںاسلام میں کہا گیا ہے کہ ہمسائے کے ساتھ اچھے تعلقات رکھو‘ بھارت ہمارا ہمسایہ ہے‘ ہم خوشحال ہیں تو بھارت بھی خوشحال ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ موٹروے واہگہ سے کولکتہ تک جاتی۔ بھارت کو شاباش دینی چاہیے کہ اس نے کرگل پر کمیشن بنایا ہم کسے شاباش دیں؟ یہاں تو لوگ انکوائری میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ مذاکرات سے ہی تعلقات کی مضبوطی اور مسائل حل ہونگے جبکہ کچھ لوگ ہمیں 60 سال سے پھنسائے ہوئے ہیں اور دونوں ممالک کو قریب نہیں آنے دیا جارہا۔‘‘ گو یہ تقریر 2011ء کی ہے مگر کئی حوالوں سے تازہ ترین لگتی ہے۔ خصوصی طور پر انکوائری میں رکاوٹ بننے والی بات تو خود انہی پر منطبق ہوتی ہے۔ میاں صاحب کی اسی تقریر پر نظامی صاحب سخت نالاں تھے جس کا اظہار اگلے روز کے اداریے سے ہوتا ہے۔
’’اس تقریب میں‘ جس میں بھارتی شہر امرتسر سے بھی ایک وفد شریک تھا‘ تقریر کرتے ہوئے میاں نوازشریف نہ جانے کس کیفیت میں تھے اس لئے انہیں یقینا احساس نہیں ہوا ہوگا کہ وہ ازلی مکار دشمن بھارت کیلئے انتہائ درجے تک رطب اللسان ہو کر اپنی مستقبل کی سیاست کے حوالے سے کتنا کچھ ضائع کر بیٹھے ہیں۔ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے قائد کی حیثیت سے میاں نوازشریف نے جس وارفتگی کے ساتھ پاکستان بھارت کے مابین حائل سرحدوں کی مجبوری کا اظہار کیا اور پھر بھارتی خدائوں کو اپنے خدا قرار دیا‘ انکے بارے میں یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ وہ قیام پاکستان کے پس منظر نظریہ پاکستان اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا ادراک بھی رکھتے ہیں یا نہیں اور پھر اپنے ہی ہاتھوں پاکستان کے ایٹمی قوت بننے پر یہ کہہ کر تو انہوں نے پوری قوم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ ایٹمی دھماکوں کی نوبت نہ ہی آتی تو اچھا تھا۔ انکی تقریر کا ایک ایک لفظ پاکستانیت کے جذبات سے عاری نظر آتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کا کلچر اگر ایک ہوتا تو مکار اور جنونی ہندو بنیئے سے آزادی کیلئے بانیان پاکستان قائد و اقبال کو برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ خطہ ارضی کے حصول کی ضرورت ہی کیوں محسوس ہوتی۔بھارتی بنیئے کے بتوں اور چھ چھ سروں والے کلموہے خدائوں کو اپنے رب سے تعبیر کرنا اور یہ کہنا کہ جس رب کو بھارتی پوجتے ہیں ہم بھی اسی کو پوجتے ہیں‘ کیا توحید پر ایمان لانے کی دلیل ہے؟ اگر تو انکی زبان سے بھولپن میں یہ الفاظ ادا ہوئے ہیں تو انہیں ملت اسلامیہ سے اس پر معافی مانگنی چاہیے اور اگر انہوں نے سوچ سمجھ کر یہ الفاظ ادا کئے ہیں تو پھر یہ انکے ایمان اور عقیدے کا معاملہ ہے۔ اسلامیان پاکستان تو بھارتی خدائوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔‘‘
جنرل ضیاء الحق نے ایک مرتبہ نظامی صاحب کو بھارت ساتھ لے جانے کی دعوت دی تو نظامی صاحب نے کہا جرنیل صاحب آپ ٹینک پر بیٹھ کر جائیں گے تو میں ساتھ چلتا ہوں۔ جنرل اس جواب پر خاموش رہے۔ نظامی صاحب کی وفات سے چند روز قبل ایک بھارتی صحافی ان سے ملاقات کے لئے لاہور آفس آئے۔ اس نے کہا نظامی صاحب آپ نے ٹینک پر بھارت جانے کی شرط رکھی ہے، آپ کو لے جانے کے لئے ایک ٹینک بھجوا دیں؟۔ نظامی صاحب اس کے طنز کو سمجھ گئے مگر ادھار رکھنے والے نہیںتھے، اپنی کرسی سے اٹھے، انہیں بھی کہا ذرا اٹھئے، اِدھر تشریف لایئے۔ وہ ان کو آفس کے اندر دیوار پر لگی تصویروں کے قریب لے گئے، ایک تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’مہاراج! آپ کو ٹینک بھجوانے کی ضرورت نہیں، ہم اس پر آجائیں گے۔‘‘ یہ بھارتی ٹینک کی تصویر تھی جو بھارتی فوج 65ء کی جنگ میں چھوڑ کر بھاگ گئی تھی اس تصویر میں نظامی صاحب اس ٹینک پر کھڑے تھے۔