پاکستان جنت

2018 ,مارچ 19



”آپ کا او کے ٹو بورڈ نہیں ہوا۔ آپ جہاز پر سوار نہیں ہو سکتے۔ یہ کہہ کرکاﺅنٹر پر بیٹھے ائیر لائنز کے اہلکار نے پاسپورٹ اور ویزا کاپی اپنی کارروائی ادھوری چھوڑتے ہوئے واپس کی تو دبئی جانے کی خوشی میں چہرے کی شادمانی پریشانی میں بدل گئی۔ ”اب کیا کریں؟ ہمارے پوچھنے پر اہلکار نے کہا جس ایجنٹ نے ویزا دلایا ہے اسے کہیں او کے ٹو بورڈ سٹیٹس اپ ڈیٹ کرے“۔ اس سے بات کی، بلکہ بار بار بات کی، اس کا کہنا تھا کہ یہ ٹکٹ جاری کرنیوالی ائیرلائنز نے اپ ڈیٹ کرنی ہوتی ہے۔ اس نے یہ مشورہ بھی دیا کہ ان لوگوں کو کچھ دے دلا کر مک مکا کر لیں۔ ائیر لائنز کے ٹکٹ آفس سے رابطہ کیا تو فون بند تھے۔ ای میل کی تو فوری طور پر جواب آیا کہ ”آپ کا سٹیٹس جلد اپ ڈیٹ کر رہے ہیں اس میں 24 سے اڑتالیس گھنٹے لگیں گے۔ ایئرپورٹ پر ائیرلائنز کے اہلکاروں اور افسروں سے بار بار بات کی۔ انہوں نے یہ اعتراف تو کر لیا کہ سٹیٹس ائیر لائنز نے ٹکٹ جاری کرتے ہوئے اپ ڈیٹ کرنا ہوتا ہے مگر اس پر وہ ”پرعزم“ رہے کہ سٹیٹس اپ ہو گا تو آپ جا سکیں گے،جو ٹکٹ جاری کرنےوالے آفس سے ہی ہوگا۔ امارات ائیر لائنز میں آن لائن ب±ک کرائی تھی۔ ٹکٹ کا اب 72 گھنٹے بعد بھی ”او کے ٹو بورڈ“ نہیں ہوا۔ میں اکیلا ہوتا تو مایوس ہو کر چلا آتا۔ میرے ساتھ بیٹا طاہر فضل بھی تھا۔ اس نے فوری طور پر لیپ ٹاپ سے اور موبائل سے جو ممکن تھا کیا اور پھر بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔ ایک ایک سیکنڈ بوجھل ، بھاری اور تکلیف دہ تھا۔ ٹکٹ ادھار نہیں لیا تھا۔ ادائیگی آن لائن ہو چکی تھی‘ اپنی طرف سے بہتر ائیر لائن کا انتخاب کیا۔ ڈور سائیڈ کی سیٹ کے اضافی 18 سو روپے بھی ادا کئے تھے۔ سوا بارہ بجے علامہ اقبال ائیر پورٹ کے اندر داخل ہوئے اڑھائی بجے تک او کے ٹو بورڈ کا انتظار کرتے رہے۔ طاہر پریشانی کیساتھ ساتھ غصے میں بھی تھا۔ میں نے سمجھایا کہ او کے نہیں ہوتا گھر چلے جائینگے، کل یا پرسوں سہی۔ مسافر اپنا سامان اٹھا کر چل دئیے، عملے نے قلم نیچے کر لئے اور ہم سارے منظر نامے پر آخری نظر ڈالتے ہوئے واپسی کی راہ اختیار کرنے لگے۔ میں نے اپنی طرح ایک زخم خوردہ جنٹل مین کی طرف مصافحے کیلئے ہاتھ بڑھایا، وہ صاحب ہم سے پہلے وہاں موجود اور عملے سے توتکار کر رہے تھے‘ ان سے بات کی، وہ لاہور میں امریکی قونصلیٹ میں تعینات تھے محمد عباد منگی کو بغداد سے اگلی فلائٹ میں اردن جانا تھا۔ انکے ڈاکومنٹس مکمل تھے۔ عملہ ان سے اردن کا ویزا طلب کر رہا تھا‘ ان کا کہنا تھا کہ امریکی قونصلیٹ کے حکام کو اردن کے ویزے کی ضرورت نہیں۔ ائیرلائنز کے عملے کے علم میں یہ بات نہیں تھی جس کا خمیازہ ایک شریف آدمی کو خواری کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ آپ مجھے جو زبانی کہہ رہے ہیں لکھ کر دیں اور مجھے واپس جانے دیں‘ سٹاف اس پر تیار نہیں تھا۔ انکی بات سنی اور خدا حافظ کہہ کر واپسی کی راہ لی۔ اسی دوران کاﺅنٹر جو مسافروں سے تہی تھا ایک آفیسر نے طاہر کو بلایا اپنی جیب سے دو بورڈنگ نکالے اور حوالے کر تے ہوئے کہا آپ بھی جا سکتے ہیں۔ لاہور ائیر پورٹ پر سارا عملہ مقامی یعنی پاکستانی ہے۔یہ ہمارے لئے مزید اذیت ناک تھا، اگر یہی کچھ کرنا تھا تو اڑھائی گھنٹے خوار کرنے کا مطلب؟ اہلکاران کرام شاید دنیاکی نمبر ون ایئرلائنز کو پی آئی کی سطح پر لانا چاہتے ہیں۔
ہم ائیر پورٹ داخل ہوئے تو سامنے یونیفارم پہنے پہلے شخص سے واسطہ پڑا‘ اس کا نام فرید تھا، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کرتے ہیں۔ میں نے بتایا پریس میں کام کرتا ہوں۔ میں نے سوچا تھا کہ وہ سمجھے گا پریس مین ہوں ، استری کرتا ہوں یا چھاپے خانے میں کام کرتا ہوں اس نے کارڈ طلب کیا تو پریس کارڈ دکھانا پڑے۔ فرید نے بڑی عزت کی اور خاتون کو بیگ کی تلاشی سے روک دیا جو کپڑے انڈیلنے والی تھی۔ اگلے مرحلے میں منکر نکیر کھڑے تھے۔ دبئی جانے کی وجہ پوچھی، ساتھ ہی پوچھا کتنے پیسے لے جا رہے ہیں، چھ ہزار روپے، طاہر نے کہا دس ہزار تو نکیر نظر آنےوالے نے کہا دس ہزار ڈالر؟ نہیں‘ سن کر انہوں نے بھی جانے دیا۔ میں نے بیٹے سے کہا ایسی کئی ایٹیمیں نظر آئیں گی۔ عباد منگی کے ساتھ کیا بیتی کچھ پتہ نہیں۔ ہم نے اپنے ہلکے پھلکے بیگ اٹھائے اور اگلا مرحلہ طے کرنے چل پڑے یہ کوئی ایسا ثابت نہیں جیسا منیر نیازی کوایک کے بعد دوسرے دریا کا سامنا تھا۔ جوتے اتروا تلاشی کی تسلی کرنے پر کوئی پریشانی الجھن اور کوفت نہیں ہوئی۔ اسی میں ہماری سیفٹی ہے۔دبئی میں ہمارے عزیز اور دوست اکرام الحق علوی کے بیٹے عارف کی شادی تھی۔اس میں شرکت کی ٹکٹ اور ویزے کی فراہمی کی پیشکش سمیت بڑی اپنائیت سے دعوت تھی۔دعوت ہم نے قبول کی جبکہ پیشکش پر تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔
ایئر پورٹ پر تمام مراحل کے بعد جہاز پر سوار ہوئے۔ بوئنگ 777 باہر اور اندر سے لشک رہا تھا۔ بزنس کلاس کی شاہی سیٹیں بڑی دلآویز تھیں، ان کو دیکھ کر ہی آدھی تھکان اتر جاتی ہے۔ کسے بڑے گھر کے بھی ایسے صوفے کیا ہونگے مگر ہم نے سفر اکانوی میں کرنا تھا۔ تین تین سیٹیں سائیڈز اور درمیان میں 4 تھیں۔ امارات ائیر لائنز کی سروس واقعی باکمال ہے مگر سیٹیں تنگ نظری سے بھی زیادہ تنگ ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ کہنی سے کہنی چھلتی ہے۔ کھانے کی آپشن ہے۔ اس وقت ناشتہ بھی قبل از ضرورت تھا مگر کھانا آزمائش سے کم نہیں جگہ کی تنگی کے باعث ناشتہ لنچ یا ڈنر تناول، ماحضر کرنا کسی پزل گیم کو حل کرنے سے کم نہیں تھا۔ ہوائی میزبانوں میں لڑکیاں ہی لڑکیاں‘ کوئی کسی ملک کوئی کسی خطے کی۔ چست لباس میں چستیاں اور پھرتیاں مگر جونہی جہاز سٹارٹ ہوا ‘میزبانوں نے لباس مزید مختصر کر لیا، یہ شاید ورکنگ ڈریس تھا۔ 
طاہر کیلئے جہاز کا پہلا سفر تھا۔ میں اسے بتاتا رہا کیا کیا ہو سکتا ہے۔ چلتے چلتے جہاز میں خوفناک آوازیں آتی اور بس کی طرح کبھی جھٹکے بھی لگتے ہیں۔ یہ سب ہوا کے دباﺅ اور نمی میں کمی بیشی کے باعث ہوتا ہے۔ سفر بخیر گزرا جہاز لینڈ کرگیا تو چار سو مسافروں کوآف لوڈ ہونے میں دس منٹ لگے۔ ہم لوگوں نے رش کم ہونے کا انتظار کیا۔ متوازی رو ایک خاتون جس کے بال اسکی رنگت کی طرح گدرے تھے۔ اسے دیکھ کر یہ مصرع لبوں پر نہ جانے کیوں آگیا۔
حادثہ یکدم نہیں ہوتا، شاید یہ خاتون حادثاتی طور پر دنیا میں آئی یا جہاز پر سوار ہوئی۔ ایک نوجوان قریب سے گزرا تویہ تھوڑا آگے آئی‘ نوجوان کا شاید اس سے کندھا لگا تو وہ بولی ”آپ کو شرم نہیں آتی“ نوجوان نے کوئی جواب نہیں دیا، یہ ساٹھ 55 سال کی عورت تھی جس کے چہرے سے نسوانیت سے زیادہ مردانیت عیاں تھی‘ بال بھی چھوٹے تھے۔ آگے جاتے نوجوان کو گھور رہی تھی ایسے لگا کہ ابھی کہہ دےگی مجھے کیوں نہیں چھیڑا۔ ائیرپورٹ کے اندر پہنچے تو کھو گئے۔ بہت بڑا ایئر پورٹ ہے‘ جہاں ہم ڈیپارچر والے حصے میں جا نکلے۔ یہاں چیکنگ پر ایک کالا موجود تھا‘ ایک بدتمیز اوپر سے کالا‘ ہر ایک کو تین، تین بار کہتا گو بیگ گو بیگ، جوتے اتارو، اب جیکٹ اتارو، گھڑی بھی اتارو، یہاں ہم غلطی سے آئے تھے اور کسی نے بھی تصحیح کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی تاہم پوچھ پوچھ کر بالآخر ائیرپورٹ سے باہر نکلے تو اکرام علوی صاحب ہمیں اور ہم ان کو تلاش کرتے رہے۔ آخر کار مل ہی گئے۔ دبئی کا موسم بڑا دلنشیں ہے،ہلکی ہلکی ٹھنڈک ہے۔ گھر آٹھ بجے پہنچ گئے۔ موبائل پر ٹائم خودبخود ایک گھنٹہ پیچھے ہو گیا۔ 
پہلے روز تھوڑا ریسٹ کیا۔ قریب مسجد میں نماز ادا کی۔ ہر مسجد میں گاڑیوں کی پارکنگ ہے۔ بڑے سائز کا پانچ بائی پانچ کا فریج پڑا ہے جس میں پانی چھوٹی پیکنگ میں تھا۔ جمعہ کے روز لوگ جوس بھی رکھ دیتے ہیں۔ یو اے ای میں تمام مساجد سرکاری ہیں۔ خطبہ لکھا ہوا پڑھا جاتا ہے۔ مسلک کی کوئی تفریق نہیں۔ صبح قریب کی مسجد میں جماعت سپیکر پر ہورہی تھی۔ مساجد بھی آرام کی جگہیں ہیں، ہر مسجد خوبصورتی کا نمونہ ہے، اردگرد لان بنے ہیں، کرسیاں اور بنچ بھی رکھے ہیں، فائیو سٹار ہوٹلز سے زیادہ خوبصورت قالین نمازیوں کیلئے بچھائے گئے ہیں۔ 
اسی روز شام کو مشرف پارک چلے گئے وہاں سائیکل ٹریک پر لڑکیاں رات کو بھی شہ سواری کر رہی تھیں۔ بہت بڑی پارک ہے‘ لاہور میں ایسی ایک بھی اتنی بڑی پارک نہیں ہے۔ بھارتیوں، پاکستانیوں اور بنگالیوں کی بھرمار کے باوجود چوری کا نام و نشان نہیں ہے۔ 
اکرام علوی اور لطیف حسین ایک کنسٹرکشن کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ شارجہ کے صحرا میں ڈیڑھ سو کلو میٹر سمندری جزیرے خرف خان تک سڑک بن رہی ہے‘ متوازی سڑک پر لوڈ زیادہ ہو گیا تھا۔ سائٹ پر لیبر سے ملاقات ہوئی زیادہ پاکستانی ہیں‘ محنت مزدوری کے آثار انکے جسم و جاں اور چہروں سے نمایاں تھے۔ ایک نوجوان نے بڑی خوبصورت بات دہرائی کہ ہم 51 ڈگری میں کام کرتے ہیں ہم میں اگر ایک اتنی مشکل میں ہے تو پیچھے 20 گھر والے تو سکھی ہیں، ہم اسی پر خوش ہیں۔ سائٹ پر چائے پی‘ شہر میں صفائی کا ایسا انتظام اور قانون کہ صحرا میں ڈسپوزایبل کپ یا ٹشو پھینکنے پر بھی قانونی گرفت ہے۔ شہر میں آپ نے سڑک کراس کرنے کےلئے پاﺅں آگے بڑھا دیا تو دونوں طرف کی ٹریفک رک جاتی ہے پیدل چلنے والوں کو بڑی گاڑیوں والے احترام سے راستہ دیتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں