لڑکی اور ٹھرکی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 14, 2019 | 08:54 صبح

لاہور(مہرماہ رپورٹ): لڑکی اور ٹھرکی میں چولی دامن کا ساتھ ہے ، اس بارے میں تو کوئی نہیں جانتا کہ ٹھرک کا آغاز کب سے ہوا لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ اگر لڑکی نہ ہوتی تو کوئی ٹھرکی نہ ہوتا ، لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ مرد بڑا ٹھرکی ہوتا ہے اور خاص طور پر شادی کے بعد تو اس کی نظریں ٹکتی ہی نہیں ، میرے خیال میں کنوارہ بندہ تو لڑکیوں کو اس لئے دیکھتا ہے کہ شاید یہ میری ہمسفر بن جائے اور شادی شدہ شاید اس لئے دیکھتا ہے کاش یہ میری ہمسفر بن جاتی، سوچ دونوں کی ایک ہی ہے لیکن انداز اپنا اپنا ہے، سائنسد

ان کہتے ہیں کہ اب لڑکیاں بھی ٹھرکی ہوگئی ہیں اور یہ عادت ان کو مردوں کی طرف سے ملی ہے ، بعض لڑکیاں تو مردوں کو ایسے دیکھتی ہیں کہ وہ بے چارا پسینے پسینے ہوجاتاہے، شاعروں کے نزدیک ٹھرک پن ایک معصوم سا فعل ہے ، کوئی بات کرکے دل کو تسلی دیتا ہے تو کوئی آنکھیں ٹھنڈی کرکے خوش ہو جاتا ہے، بعض لوگوں کے نزدیک ٹھرک نقصان بھی پہنچاتی ہے ، شوہر بیوی کو کم اور ہمسائی کی طرف نظریں زیادہ لگائے تو پھر تعلق خراب ہوجاتا ہے ، ہمارے ہاں شادی سے پہلے چونکہ نظریں لڑانے کی خوب عادت پڑ چکی ہوتی ہے تو شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد بھی یہ نشہ ختم نہیں ہوتا، رشتوں میں دراڑ کی ایک وجہ آنکھیں بھی ہوتی ہیں اگر انسان اپنی آنکھوں کو صرف اپنی بیوی کو دیکھنے کیلئے وقف کردے تو شیطان کو رشتے توڑنے میں کافی مشکل پیش آئے گی ، منٹو نے عشق اور ٹھرک کا موازنہ کرتے ہوئے عشق کو ایک بھڑ بھڑ جلتے ہوئے لکڑی کے خشک ٹکڑے سے تشبیہ دی تھی جب کہ ٹھرک کو ایک ایسی گیلی لکڑی قرار دیا تھا جو اندر ہی اندر سلگتی رہتی ہے لیکن کبھی پوری طرح شعلہ نہیں پکڑتی۔