دنیا کا تاریخ اور جغرافیہ بدلنے والی جاسوسی کی دنیا

جاسوس بننے کےلئے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے،جاسوس بننے میں دلچسپی رکھنے والے لڑکے لڑکیوں کے خصوصی تحریر یہ اسرائیلی جاسوس کی کہانی ہے،جسے شام میں وزیر دفاع بناجارہا تھا
دنیا میں جاسوسوں نے تاریخ اور جغرافیہ بدل کر رکھ دیا ۔ان میں لارنس آف عریبیہ اورہیمفرے زیادہ جانے جاتے ہیں تاہم ہمارے سامنے اسرائیلی جاسوس کی کہانی ہے،جسے شام میں وزیر دفاع بناجارہا تھا۔ صدر اسے اپنا جانشین بھی بنانا چاہتے تھے۔جاسوس بننے کےلئے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے،جاسوس بننے میں دلچسپی رکھنے والے لڑکے لڑکیوں کے خصوصی تحریر جدون کی کتاب سے ماخوذ ہے۔
ایلی کوہن سولہ دسمبر 1924ءکو سکندریہ(مصر) کے ایک یہودی گھرانہ میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے ماں باپ شام سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے تھے۔ اس کا باپ سکندریہ کے بازاروں میں ریشمی ٹائیوں کا کاروبار کرتا تھا۔ اس کے آٹھ بچے تھے۔ ایلی کوہن اور اس کے دوسرے بہن بھائیوں کی پرورش سخت مذہبی ماحول میں ہوئی تھی۔ سکول میں وہ ایک ذہین ترین طالب علم تھا۔ ریاضی اور غیر ملکی زبانوںمیں وہ بے حد قابل تصور کیا جاتا تھا۔ اس نے فرانسیسی اور عبرانی پر کافی عبور حاصل کیا تھا۔
1946ءمیں اس نے قاہرہ کی کنگ فاروق یونیورسٹی کے شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ میں داخلہ لیا ۔چودہ مئی 1948ءکو جب ڈیوڈ بن گوریان نے تل ابیب کے میوزیم میں کھڑے ہو کر اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو اس کے کچھ ہی دنوں بعد عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی اس جنگ کے اثرات مصر کے یہودیوں پر بھی نمودار ہوئے۔ یہاں ان کی پکڑ دھکڑ کا وسیع سلسلہ شروع ہوا۔ ان کی جائیدادوں کو بحق سرکار ضبط کیا گیا اور کاروباروں پر اضافی ٹیکس لاگو ہوئے۔ ان حالات میں ایلی کوہن کو یونیورسٹی چھوڑنی پڑی۔ جنگ میں عربوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں مصری یہودیوں کو ایک بار پھر تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔ ہزاروں یہودی خاندان چوری چھپے اسرائیل فرار ہونے لگے۔ اسی دوران میں 1950ءمیں ایلی کوہن کا خاندان بھی وہاں منتقل ہو گیا۔ کوہن نے ان کے سفر کا انتظام کیا مگر خود جانے سے انکار کیا۔ وہ اگلے چھ سال تک ان سے نہ مل سکا۔ وہ یہودیوں کی ایک مقامی خفیہ تنظیم میں شامل ہوگیا۔ جو مصر سے یہودی خاندانوں کی اسرائیلی منتقلی کے لئے کام کرتی تھی کچھ عرصہ بعد اس نے اسرائیلی سیکرٹ سروس کے لئے بھی کام شروع کیا۔ وہ قاہرہ سے بذریعہ ریڈیوٹرانسمیٹر تل ابیب پیغامات بھیجتا ۔ ایک دن اس نے اپنے خفیہ پیغامات کے سلسلے میں ایک ایسی خبر تل ابیب روانہ کی جس سے اسرائیلی ایوان اقتدار میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی جیسے ایک بار پھر ہٹلر نے زندہ ہو کر حکم دیا ہوکہ تمام یہودیوں کو اکٹھا کر کے گیس چیمبرز میں دھکیل کر ختم کر دو۔ خبر یہ تھی کہ صدر جمال عبدالناصر کی حکومت میں سابقہ نازیوں کا اثر و رسوخ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ مصر میں ہٹلرکے ان ساتھیوں کی موجودگی کوئی اتنی نئی خبر تو خیر نہیں تھی۔ کیونکہ جنگ کے بعد جرمن فوج کے ہزاروں افراد جن میں اعلیٰ افسر بھی تھے۔ مصر میں پناہ لے چکے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں شاہ فاروق کی حکومت برطانیہ کے سخت خلاف تھی۔ ان نازیوں نے اپنی شناخت چھپانے کے لئے اکثر عرب نام رکھ لئے تھے اور کچھ تو بظاہر مسلمان بھی ہوگئے تھے۔ہٹلر کی سیکرٹ پولیس‘ گسٹاپو کے سابقہ افسر مصری انٹیلی جنس سروس کو ٹریننگ دے رہے تھے۔ ناصر کے سرکاری اخبار الجمہوریہ نے یہودیوں سے سخت نفرت کا اظہار کیا تھا۔اکتوبر 1956ءمیں حالات اور بھی خراب ہو گئے جب نہر سویز کے مسئلے پر اسرائیل نے برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر مصر پر حملہ کر دیا۔ اس پر مصری حکومت نے انتقاماً مقامی یہودی آبادی پر مزید سختی کا حکم دے دیا۔ انہیں بالکل جنگ عظیم دوم کی طرز پر علیحدہ شہری علاقوں (گیٹووس) میں منتقل کر دیا گیا۔ سینکڑوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ ان پر مختلف بہانوں کے تحت بھاری جرمانے عائد کئے گئے یہودی عبادت خانے ‘ سکول اور ہسپتال بند کر دئیے گئے۔ عبرانی زبان ممنوع قرار دی گئی حتیٰ کہ یہودی عبادات بھی سے بولنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہودی ڈاکٹروں اور پیشہ افراد کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ شہر کے ریسٹورانوں اور کیفے پر تختیاں آویزاں ہو گئیں جن پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔یہدیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ پکڑ دھکڑ کی اس نئی لہر میں ایک دن پولیس ایلی کوہن کوبھی پکڑ کر لے گئی۔لیکن وہ پوچھ گچھ کے دوران پولیس کواس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ یہودی تو ہے مگر کسی زیر زمین خفیہ یہودی تنظیم کے ساتھ منسلک نہیں ہے۔ چند روز بعد اسے رہا کر دیا گیا مگر ساتھ ہی اسے مصر سے نکل جانے کا حکم ملا۔ 20 دسمبر 1956ءکو کوہن نے اپنے آپ کو ریڈ کراس کے ایک بحری جہاز پر پایا۔ یہ جہاز سکندریہ کی بندرگاہ سے ہزاروں یہودی خاندانوں کو اسرائیل لے جا رہا تھا اس کے پاسپورٹ پر امیگریشن والوں نے ایک مہر لگا دی تھی
Not valid for return to egypt
جہاز مصر سے اٹلی پہنچا تو مسافروں کو ایک اطالوی جہاز میں منتقل کیا گیا جو انہیں لے کر اسرائیل روانہ ہوا۔ وہ بارہ فروری کو حیفہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ ہزاروں یہودیوںکی طرح اسے بھی جو کاغذات دئیے گئے اس میں اسے اسرائیلی شہری قرار دیا گیا تھا۔
ایک دو دن وہ اپنے ماں باپ کو تلاش کرتا رہا کیونکہ چھ سال سے ان کے ساتھ اس کا کوئی رابطہ نہیں رہا تھا۔ تھوڑی تگ و دو کے بعد آخر وہ ان سے جا ملا۔ وہ مسسل کئی ماہ بے روزگار رہا۔ 1975ءکے آخر میں اسرائیلی وزارت دفاع میں اُسے ایک نوکری مل گئی۔ اچانک نوکری کاملنا محض اتفاق نہیں تھا۔ اسرائیلی خفیہ ادارے اس کے قیام مصرکے دوران اس کی تمام زیرزمین سرگرمیوں سے واقف تھے۔ اسے شعبہ انسداد جاسوسی
(couner-intelligence)
میں رکھا گیا۔ جہاں وہ عربی اخبارات کا مطالعہ کر کے ان میں سے کام کی خبروں کو عبرانی میں ترجمہ کرتا۔ لیکن جلد ہی وہ کام کی یکسانیت سے اُکتا گیا ایک دن اس نے اپنے افسر سے کہا کہ وہ ایک بار پھر ایکشن کی زندگی دیکھنا چاہتا ہے لیکن حکام بالا کاجواب نفی میں ملا۔ اگرچہ ایلی کوہن میں ایک فرسٹ کلاس جاسوس کی تمام تر صلاحیتیں موجود تھیں۔ لیکن موساد کی پالیسی تھی کہ وہ رضاکار (ولینٹیئرس) ہر گز قبول نہیں کرتی تھی کوہن کو صاف جواب ملا۔ کوہن کو اس رویہ سے سخت مایوسی ہوئی آخر دل برداشتہ ہو کر اس نے یہ نوکری چھوڑ دی وہ کچھ عرصہ بعد ایک فوڈ سٹور میں کا کرنے لگا۔ جہاں اس نے خوب محنت کی اسے انسپکٹر بنا دیا گیا وہ ملک کے مختلف شہروں میں واقع سٹورز کی چیکنگ کے لئے دورے پر جاتا۔ 1950ءکے شروع میں تل ابیب کے ایک کلب میں اس کی ایک عراقی لڑکی نادیہ سے ماقات ہوئی۔ وہ ایک مقامی ہسپتال میں نرس تھی۔ دراز قد گہری نیلی آنکھوںوالی‘ چند دنوں کی یہ ملاقاتیں بالآخر ایک دن شادی پر منتج ہو گئیں۔ انہوں نے بحیرہ احمر کے کنارے ہنی مون منایا۔ اب کوہن ایک نئی اور کامیاب زندگی گزار رہا تھا۔ اسے کمپنی اچھے خاصے پیسے ادا کرتی تھی۔
1960ءمیں وہ ایک دن تل ابیب میں اپنے گھر کے قریب ایک گلی سے گزر رہا تھا کہ اچانک اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جسے وہ وزارت دفاع کی نوکری کے زمانے سے جانتا تھا۔ وہ دونوں گپ شپ میں ٹہلتے ٹہلتے ساحل سمندر کی طرف نکل گئے۔ اس شخص نے اپنا نام اسحاق زلمان بتایا اور اپنی صحیح شناخت کرائی کہ وہ موساد میںاسی دن سے اس کی ہر حرکت کو بغور نوٹ کرتا رہا ہے۔ ہمیں سب کچھ پتہ ہے کہ تم مصر میں کیا کرتے رہے ہو لیکن ہم نے تمہاری درخواست ایک خاص مصلحت کے تحت مسترد کی تھی جس سے تم ناراض بھی ہو گئے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اگر ہمارے لئے کام کرنا چاہتے ہو تو تمہاری درخواست پر غور کیاجا سکتا ہے۔ ایلی کوہن نے کہا کہ وہ بالکل تیار ہے۔ وہ اسرائیلی کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ موساد مسلسل کئی مہینوں سے کوہن کو دوستوں اور فیملی کے متعلق معلومات اکٹھی کر رہی تھی وہ اس کی خوش و خرم گھریلو زندگی سے بھی واقف تھے۔ اس کے علاوہ انہیں یہ بھی پتہ تھا کہ اس کے ہاں بہت جلد بچے کی پیدائش متوقع ہے۔ موساد کے ہیڈکوارٹر میں ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے اس کے طبی اور نفسیاتی معائنے کے لئے ٹیسٹ کئے تاکہ اگر اس کی شخصیت میں معمولی سا بھی فرق ہو تو اسے مسترد کر دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ موساد کسی ایسے شخص کو فیلڈ میں بھیج کر خطرہ مول لینا نہیں چاہتی تھی۔ جس کی دُہری شخصیت ہو یا وہ بآسانی کسی لالچ میں آ کر سب کچھ اگل دیتا ہو۔ کوہن نے امتحان کے تمام مراحل میں بہترین نمبر لئے۔ ایک آفیسر نے اسے ملازمت کی شرائط اور ضوابط سمجھاتے ہوئے کہا۔ ٹریننگ کی تکمیل کے بعد تمہیں اختیار حاصل ہو گا چاہے ہمارے ساتھ کام جاری رکھو یا واپس چلے جاﺅ بلکہ ملازمت کے دوران بھی اگر کسی وقت جانا چاہو تو ہماری طرف سے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ہمارا تمہارا تعلق رومن کیتھولک میرج کی طرح نہیں ہو گا۔ طلاق کی گنجائش ہمیشہ برقرار رہے گی لیکن صرف ایک شرط ہو گی تمہیں کسی ذی روح کو یہ نہیں بتانا ہوگا کہ تم موساد کے لئے کام کرتے تھے۔ ایلی کوہن نے نادیہ کو اپنی نئی جاب کے متعلق اتنا بتایا کہ اسے سول سروس کے کمرشل برانچ میں ایک اکاﺅنٹنٹ کی پوسٹ مل گئی ہے لیکن نادیہ کو پھر بھی شک تھا کہ کوہن اس سے کچھ چھپا رہا ہے۔ پھر جب اس نے کہا کہ وہ کچھ مہینوں کے لئے کسی سیکرٹ سروس میں ملازم ہو چکا ہے مگر اس نے دوبارہ کوئی سوال نہیں کیا۔ وہ بس خاموش ہو گئی۔ نئی ملازمت کے اسرار و رموز سکھانے کے لئے انسٹیٹیوٹ نے اسے چھ مہینے کے سخت کورس کے لئے بلایا۔ تربیت کے اس عرصے میں اسے موساد کے ہیڈ کوارٹر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی۔ اسے موساد کا تمام نصاب حرف بہ حرف پڑھایا گیا۔ تجربہ کار دہشت گردوںنے اسے انتہائی عام اور سادہ اجزاءسے دھماکہ خیز مواد اور بم بنانے کے طریقے سکھائے اسے آرمی کے مختلف کیمپوں میں لے جا کر دھماکہ خیز آلات کی مدد سے پلوں اور مختلف تنصیبات تباہ کرنے کے گر بتائے گئے۔ اس نے کسی ملک کی فوجی طاقت کے متعلق اعداد و شمار جمع کرنا‘ مغربی اور روسی ہتھیاروں‘ جہازوں اور بحری جہازوں کو دیکھتے ہی فوراً پہنچاننا سیکھا۔ اس کے علاوہ خفیہ پیغامات بھیجنے کے لئے اس کو مختلف کوڈ سکھائے گئے۔ تالے توڑ کر کسی عمارت یا مکان میں نقب لگانا بغیر ہتھیار کے کسی سے لڑنا وغیرہ بھی تربیت میں شامل تھا۔ ٹریننگ کے دوران اس نے اپنی زبردست صلاحیتوں سے اپنے انسٹرکٹروں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ وہ اس کی بلا کی ذہانت سے بے حد متاثر ہو چکے تھے۔
1960ءمیں اسے اسلام کے بارے میں تفصیلی کورس کے لئے یروشلم یونیورسٹی بھیجا گیا۔ اس نے قرآن کریم کی بیشتر سورتیں زبانی یاد کیں‘ پانچ وقت نماز پڑھنے کا طریقہ سیکھا وہ اسرائیل میں موجود مختلف مساجد میں جمعہ کی نمازوں میںشریک ہوتا۔ ایک دن ایلی کوہن کا انسٹرکٹر اسے اچانک شام کی سرحد پر لے گیا۔ وہاں اسے گولان کی پہاڑیوں پر شامی فوجی چوکیاں دور سے دکھائی گئی گولان کی ان اونچائیوں سے اسرائیل کا بیشتر سرحدی علاقہ شامی توپ خانے کی زد میں تھا۔ انسٹرکٹر نے کہا کہ شام کے ساتھ اس پر ہماری کئی جھڑپیں ہو چکی ہیں اور مستقبل میں بھی ہونگی۔ ہماری کامیابی کا انحصار اب تمہاری انٹیلی جنس رپورٹ پر ہو گا۔ تم دمشق میں ہمارے لئے کام کرو گے یہ کہتے ہی انسٹرکٹر نے ایلی کوہن کی طرف دیکھا جو شام کی سرحد کی طرف ٹکٹکی بندھے کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔