ہمفروں اور لارنس آف عریبیاﺅں کو پہچانیں

سلطنتِ عثمانیہ یا خلافتِ عثمانیہ 1229ء کا سورج 1299ء میں طلوع ہو کر 1922ء کو غروب ہو گیا۔ اپنے عروج کے زمانے 16 ویں اور 17 ویں صدی میں تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی۔ جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیر قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ سلطنت عثمانیہ کو اپنے دور میں سپر پاور کی حیثیت حاصل تھی۔ پہلی جنگ عظیم میں عثمانیوں کے شکست کے دو اہم اسباب ایڈمنڈ ایلنبائی کی زیر کمان برطانوی افواج کی اہم اہداف پر حملے اور عرب بغاوت تھے۔ ان میں عرب بغاوت سلطنت عثمانیہ کی شکست کا سب سے بڑا سبب سمجھی جاتی ہے۔ عرب بغاوت کی ان مہمات کا آغاز شریف مکہ حسین کی جانب سے برطانیہ کی مدد سے جون 1916ء میں جنگ مکہ سے اور اس کا اختتام دمشق میں عثمانیوں کے اسلحہ پھینک دینے کے ساتھ ہوتا ہے. مدینہ کے عثمانی کماندار فخری پاشا نے محاصرہ مدینہ میں ڈھائی سال سے زیادہ عرصے تک زبردست مزاحمت کی۔ 1922ء جنگ عظیم کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ میں تقسیم کا عمل قسطنطنیہ پر قبضہ کے 13 دن بعد 30 اکتوبر 1918ء کو معاہدہ مدروس کے ذریعے شروع ہوا۔ اور بعد ازاں معاہدہ سیورے کے ذریعے مشرق وسطٰی میں عثمانی مقبوضات کو برطانیہ اور فرانس کے حوالے کر دیا گیا جبکہ بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں کو اٹلی، ترک ایجیئن ساحلوں کو یونان، اور آبنائے باسفورس اور بحیرہ مرمرہ کو بین الاقوامی علاقے کے طور پر اتحادی قوتوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرقی اناطولیہ میں جمہوریہ آرمینیا کو توسیع دیتے ہوئے ولسونین آرمینیا کی تشکیل دی گئی جو آرمینیائی باشندوں کا قدیم وطن تھا تاہم بعد ازاں ان علاقوں میں ترک اور کرد بھی بس گئے۔ برطانیہ نے مشرق وسطٰی کی تقسیم کے لیے انتہائی چالاکی و عیاری کے ساتھ فرانس کے ساتھ
سائیکوس-پیکوٹ نامی خفیہ معاہدہ کیا یکم نومبر 1922ء کو سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا آخری سلطان محمد ششم وحید الدین 17 نومبر 1922ء کو ملک چھوڑ گئے۔ چند ماہ بعد 3 مارچ 1924ء کو خلافت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا اور سلطان اور ان کے اہل خانہ کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر جلاوطن کر دیا گیا۔ 50 سال بعد 1974ء میں ترک قومی مجلس اعلٰی نے سابق شاہی خاندان کو ترک شہریت عطا کرتے ہوئے وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے نتیجے میں جو نئے ممالک قائم ہوئے ان کی تعداد اِس وقت (بشمول متنازع شمالی ترک جمہوریہ قبرص) 40 بنتی ہے۔
ہمفرے ایک ایسا برطانوی جاسوس تھا جس نے لارنس آف عریبیا سے بھی پہلے خلافت عثمانیہ کو توڑنے کی راہ ہموار کی اور اہم کردار ادا کیا تھا۔
۔ہمفرے نے ایک مسلمان کا روپ دھارا، اپنی جاسوسیوں کی ابتدائ ترکی سے کی جس کے بعد وہ عربستان (موجودہ سعودی عرب) چلا گیا جہاں اس نے اسلام میں رخنے پیدا کرنے اور ترکی خلافت کے خلاف عربوں کو ہموار کرنے اور بغاوت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ہیمفرے نے اپنی یادداشتیں قلم بند کیں۔پہلے پہل یہ یادداشتیں قسط وار جرمنی کے مشہور اخبار شپیگل
(Spiegel)
،بعد میں یہ فرانسیسی اخبار لو موند
(Le Monde)
میں شائع ہوئیں جہاں سے لبنان کے ایک مترجم نے اس کا عربی میں ترجمہ کیا۔ کافی عرصہ بعد اس کا انگریزی ترجمہ بعنوان ایک برطانوی جاسوس کے اعترافات اور برطانیہ کی اسلام دشمنی
(Confessions of a British spy and British enmity against Islam)
ہزمت بکس
(Hizmet Books)
نے برطانیہ سے شائع کیا۔
ہیمفرے برطانیہ کی وزارتِ نوآبادیات
(Ministry of Colonies )
کی طرف سے خلافت عثمانیہ کے زیرِ نگین علاقوں میں آیا۔ اس کا کام دو برطانوی مقاصد کو حاصل کرنا تھا۔ اول یہ کہ موجودہ نوآادیات میں برطانوی قبضہ کو مستحکم کرنا اور دوم یہ کہ نئی نوآبادیات بنانا خصوصاً اسلامی ریاستوں پر قابض ہونا۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہمفرے نے بظاہر اسلام قبول کیا اور ترکی میں رہائش رکھی۔ وہاں اس نے ترکی میں رہائش پذیر عربوں میں ترکوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام کیا۔ یہ دور اٹھارویں صدی کا ابتدائی زمانہ ہے۔ خود ہمفرے کے الفاظ میں وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اسلامی دنیا میں اس جیسے 5000 برطانوی جاسوس بھیجے گئے تھے جنہیں عربی و ترکی زبانوں کی تعلیم بھی دی گئی تھی۔ اولاً ان افراد کو 1710ء میں بھیجا گیا تھا۔ 1720ء اور 1730ء کی دہائی میں ہمفرے نے اپنا کام جاری رکھا۔ اس کے اپنے الفاظ کے مطابق اس نے ایک انقلابی مسلمان کے طور پر ابنِ محمد کے ساتھ تعلقات بڑھائے اور اسے شیشے میں اتارا۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ اس نے ابن محمد کے ساتھ مل کر قرآن کی ایک تفسیر بھی لکھی۔ اس نے عرب سرداروں اور دیگر اہم افراد کے ساتھ بھی تعلقات بڑھائے۔ بعض وقتوں میں اس نے دو لاکھ برطانوی پونڈ فی مہینہ تک عربوں میں بانٹے۔ یہ وہ رقم تھی جو برطانیہ انہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دیتا تھا۔ ہمفرے نے 11 تربیت یافتہ برطانوی افراد کو جو صحرائی جنگ کے ماہر تھے، غلاموں کے روپ میں عربوں کو پیش کیا تاکہ وہ ترکوں کے خلاف کام آ سکیں۔
آج پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہے۔ اسلامی ممالک کی امیدوں آرزوؤں اور خواہشات کا مرکز پاکستان ہے۔ ہر اسلامی ملک پاکستان کو اپنی ایٹمی قوت سمجھتا ہے۔ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کسی بھی وقت فعال ہو سکتی ہے۔ مسلمان متحد ہو سکتے ہیں۔ اسلامی ممالک کا اتحاد سلطنتِ عثمانیہ کی طرز پر نہ بھی ہو یورپی یونین کی طرز پر ہو سکتا ہے۔ ایسا ہو جائے تو اسلامی ممالک مضبوط‘ ایٹمی اور معاشی بلاک کی صورت میں دنیا پر چھا جائیں گے یہی مغرب کو سب سے بڑا خدشہ اور خطرہ ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے پیچھے یہ لوگ اسی لئے پڑے ہوئے ہیں یہی مسلمانوں کو متحد نہیں ہونے دیتے۔ عراق اور کویت کو لڑا دیتے ہیں‘ ایران اور عراق میں پنجہ آزمائی کرا دیتے ہیں۔ افغانستان کو پاکستان کے سامنے لاکھڑا کرتے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کے مسائل جان بوجھ کر کھڑے کر کے ان کے حل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔
پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے خاتمے کیلئے نہ جانے کتنے ہمفرے اور لارنس آف عریبیہ ارض پاک میں گھس آئے ہیں۔ پاکستان کو خودانحصاری کی منزل سے دور رکھنے کیلئے عالمی مالیاتی ادارے دھڑا دھڑ قرض دے رہے ہیں امریکہ کیری لوگر بل کی صورت میں خیرات دے رہا ہے۔ ہم اپنے وسائل کرائے کے فضول بجلی گھروں پر خرچ رہے ہیں۔ پاکستان واقعتاً اسلام کا قلعہ اور اسلامی ممالک کی آرزوؤں کا مرکز بن سکتا ہے اگر ہم لارنس آف عریبیاؤں اور ہمفروں کو پہچان لیں۔