جب زندگی شروع ہو گی

”جمشید اب میں اس ملک میں نہیں رہ سکتی۔ اب ہمیں کسی ویسٹرن کنٹری میں شفٹ ہوجانا چاہیے۔“
ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی ہوئی ھما نے اپنے کٹے ہوئے بالوں کو برش کرتے ہوئے کہا۔ جمشید بیڈ پر لیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
”تم نے سنا جمشید میں نے کیا کہا؟“
”یس میں نے سن لیا۔ لیکن میرا پورا خاندان یہاں ہے۔ میں انھیں چھوڑ کر کیسے جاو¿ں؟“
”بالکل ویسے ہی جیسے تم ان کا گھر چھوڑ کر میرے ساتھ الگ ہوچکے ہو۔“
”یہاں کی بات اور ہے۔ میں ہفتے میں ایک دفعہ جاکر ان سے مل تو لیتا ہوں۔ دوسرا یہ کہ فارن ٹرپ تو ہم ہر سال کر ہی لیتے ہیں۔ پھر ہمیں باہر شفٹ ہونے کی کیا ضرورت۔“
”نہیں اب بچے بڑے ہورہے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ ان کی پرورش باہر ہی ہو۔“
”لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے بچے میرے ماں باپ کی صحبت کا فائدہ اٹھائیں۔ میں تو اپنے ماں باپ کی نیکی کا کوئی حصہ نہیں پاسکا، لیکن کم از کم میری اولاد تو نیک ہو۔“
”انہی کی صحبت سے تو میں اپنی اولاد کو بچانا چاہتی ہوں۔ میرے ایک بچے کو بھی اپنے ددھیال کی ہوا لگ گئی تو اس کی زندگی خراب ہوجائے گی۔“
اس کے ساتھ ہی فون کی گھنٹی بجی۔ جمشید نے فون اٹھایا۔ دوسری طرف سے کچھ کہا گیا۔ جمشید نے اچھا کہہ کر ریسیور نیچے رکھ دیا اور ھما کو مخاطب کرکے کہا:
”تمھارے پاپا ہمیں نیچے بلارہے ہیں۔“، پھر ھما کی بات کا جواب دیتے ہوئے بولا:
”تم آخر میرے ماں باپ کے بارے میں اتنی نیگیٹو کیوں ہو؟ انہوں نے میری خوشی کی خاطر تمھیں بہو کے طور پر قبول کیا۔ حالانکہ تمھارے انداز و اطوار انھیں بالکل پسند نہ تھے۔ تم مجھے لے کر الگ ہوگئیں تب بھی انہوں نے برا نہیں مانا۔۔۔ “
”بس بس رہنے دو۔“، ھما تنک کر بولی۔
”انھیں میرے انداز و اطوار ناپسند تھے۔ مگر تم میرے عشق میں دیوانے ہورہے تھے۔ اس لیے انھوں نے مجبوراً تمھیں مجھ سے شادی کی اجازت دی۔ تم ان سے الگ ہوکر یہاں زیادہ اچھی زندگی گزار رہے ہو۔ پاپا کے بزنس میں شریک ہو۔ کروڑوں میں کھیلتے ہو۔ جمشید مجھ سے شادی کرکے تم سراسر فائدے میں رہے ہو۔ تم نے کوئی نقصان نہیں اٹھایا۔“
”پتہ نہیں کیوں تمھاری باتیں سن کر کبھی کبھی ابو کی یاد آجاتی ہے کہ نفع نقصان کا فیصلہ آخرت کے دن ہوگا۔“
”یار یہ فضول مذہبی باتیں ختم کرو۔ مجھے ان سے چڑ آتی ہے۔ کوئی قیامت وغیرہ نہیں آنی۔ لاکھوں برس سے دنیا کا سسٹم ایسے ہی چل رہا ہے:
If you are smart, powerful and wealthy you are the winner. All the others are loosers and idiots. And you know this judgment day is nothing but a rabbish
ویسے فار یور کائنڈ انفارمیشن، میرے پاپا نے اپنے پیر صاحب سے یہ گارنٹی لے رکھی ہے کہ قیامت میں وہ انہیں بخشوادیں گے۔ ان کو بہت پیسہ دیتے ہیں میرے پاپا۔“
”ہاں ہم جس طرح ناجائز منافع خوری، قانون کی خلاف ورزی اور دیگرحرام ذرائع سے پیسہ کماتے ہیں، اس کو کہیں تو پاک کرنا ہوگا۔ مجھے سب معلوم ہے۔ تمھارے پاپا اور چودھری مختار صاحب کئی بزنس میں پارٹنر ہیں اور دو نمبر کے ہتھکنڈوں سے پیسہ کماتے ہیں۔“
”اچھا۔۔۔ اتنا ہی حلال حرام کا خیال ہے تو چھوڑدو پاپا کا بزنس۔“
”بزنس تو چھوڑ دوں، مگر تمھیں کیسے چھوڑوں۔ مجھے معلوم ہے کہ اس کے بعد جاب کرنے سے نہ تمھارے خرچے پورے ہوں گے اور نہ میں تمھارا لیونگ اسٹینڈرڈ مینٹین کرسکوں گا۔ تمھارے عشق نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا۔ وگرنہ میں جس خاندان سے ہوں وہاں حلال اور حرام ہی سب کچھ ہے۔“
”اسی لیے اتنی مڈل کلاس زندگی گزار رہے ہیں وہ لوگ۔ اچھا ہوا تم میرے ساتھ آگئے وگرنہ اپنے بھائیوں کی طرح موٹر سائیکل پر گھومتے یا 800 سی سی گاڑی چلاتے اور کسی فلیٹ میں سڑی ہوئی زندگی گزار کر مرجاتے۔“
”زندگی اچھی گزاریں یا بری، مرنا تو ہمیں ہے۔ پتہ نہیں آخرت میں ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟“
”بے فکر رہو کچھ نہیں ہوگا۔ وہاں بھی ہم ٹھاٹ سے رہیں گے۔ میرے پاپا کے پیر صاحب کے سامنے تو تمھارے اللہ میاں بھی کچھ نہیں بول سکتے۔“
”کلم کفر تو مت بکو۔ اور اللہ میرا کہاں رہا ہے۔ جب میں اللہ کا نہیں رہا تو وہ میرا کیسے رہے گا۔“
یہ جملہ کہتے ہوئے جمشید کا لہجہ بھرّا گیا اور اس کی آنکھوں میں نمی آگئی۔ مگر ھما اس کے بہتے ہوئے آنسوو¿ں کو نہیں دیکھ سکی۔ اس کا سارا دھیان آئینے کی طرف تھا۔ اب وہ اپنے میک اپ سے فارغ ہوچکی تھی، اس لیے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے سے اٹھتے ہوئے بولی:
”اچھا چھوڑو یہ فضول باتیں! نیچے چلو، پاپا انتظار کرہے ہوں گے۔“
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔