چند روز قبل پاکستان کا دورہ کرنے والے اماراتی ولی عہد شیخ محمد بن زید النیہان کا ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ایسا تعلق سامنے آگیا کہ آپ عش عش کر اٹھیں گے

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جنوری 14, 2019 | 11:46 صبح

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سیاست، احتساب، خود نمائی سب کچھ ہی بہت زوروں پر ہے۔ پچھلے دنوں ابوظہبی کے ولی عہد جنرل شیخ محمد بن زید النہیان ایک دن کے لئے پاکستان تشریف لائے اور بہت کچھ دے گئے۔ تعجب کی یہ بات ہے کہ آپ ایک طویل عرصہ کے بعد آئے، نامور پاکستانی سائنسدان اور کالم نگار ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وجہ نواز شریف کی غیر دوستانہ پالیسی تھی حالانکہ امارات سے ہمارے بہت پرانے تعلقات ہیں۔ یہ تعلقات بھٹو صاحب نے شیخ زید بن النہیان صدر امارات سے قائم کئے تھے اور صدر ن

ے ہمیشہ پاکستانیوں کے ساتھ بہت محبت کا اظہار کیا تھا۔ یہ تعلقات جنرل ضیاء الحق نے بھی قائم رکھے اور پاکستانیوں نے امارات میں بہت اچھی پوزیشن حاصل کر لی تھی، بینکوں اور لاتعداد دوسری اہم پوزیشن پر پاکستانی متعین تھے۔ آہستہ آہستہ ہماری غلط پالیسیوں اور ہندوستان کی اچھی پالیسیوں کی وجہ سے ہماری پوزیشن بہت خراب ہو گئی۔ ولی عہد جنرل شیخ محمد مجھ سے بے حد محبت کرتے تھے جب بھی ہم دبئی گئے انہوں نے ضرور ابوظہبی آنے کی دعوت دی اور اپنے تمام بھائیوں سے ملاقاتیں کرائیں۔ اپنی روایات کے مطابق اُنہوں نے بہت اچھے تحائف دینا چاہے مگر جنرل چوہان اور میں نے بہت شکریہ کے ساتھ معذرت کر لی۔ اُمید ہے کہ موجودہ حکومت امارات، قطر، عمان، کویت، سعودی عرب سے تعلقات کو بہت اہمیت دے گی تاکہ پاکستانی وہاں ملازمتیں حاصل کرسکیں۔ دراصل میں آج دو دیوہیکل صحافی و شاعر کی کتب کے بارے میں کچھ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہ رہا ہوں۔
۔
(1)پہلی شخصیت، ملک کے معروف و مشہور صحافی، ادیب جناب الطاف حسن قریشی کی ہے۔ آپ کی شخصیت پر ڈاکٹر طاہر مسعود نے ایک نہایت اعلیٰ کتاب ’’الطافِ صحافت‘‘ کے نام سے مرتب کی ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر طاہر مسعود نے جناب الطاف حسن کی شخصیت، خاندانی بیک گرائونڈ اور صحافتی و ادبی خدمات پر ترتیب دی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ الطاف حسن قریشی صاحب سے میری بھی قربت رہی ہے، آپ بات کرنے سے پہلے مسکرا دیتے ہیں یہ اعلیٰ خاندانی تربیت کی عکاسی کرتا ہے۔ صحافت میں آپ ان چند اِماموں میں سے ہیں جنھوں نے پاکستان میں اعلیٰ صحافت کی بنیاد ڈالی، ان مشعل برداروں میں جناب میر خلیل الرحمٰن، حمید نظامی مرحوم، مجید نظامی مرحوم، شورش کاشمیری صاحب، مجیب الرحمٰن صاحب، مشتاق احمد یوسفی مرحوم، سیّد ضمیر جعفری صاحب، عطاء الحق قاسمی صاحب وغیرہ شامل ہیں۔ روزمرہ کی صحافت اور حکومت سے نہ ڈرنے والوں اور غلط کاموں پر کھلے عام تنقید کرنے والوں میں الطاف حسن قریشی صاحب اور مجیب الرحمٰن شامی صاحب وغیرہ سرفہرست ہیں۔ اس اعلیٰ کتاب پر جناب مشتاق احمد یوسفی، سید ضمیر جعفری، وُسعت اللہ خان، جناب مجیب الرحمٰن شامی اور محترمہ سلمیٰ اعوان کے اعلیٰ تبصرے موجود ہیں۔ ان کے علاوہ پوری کتاب لاتعداد اعلیٰ شخصیات کے ذاتی تاثرات سے بھرپور ہے۔ جناب الطاف حسن قریشی صاحب ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں، نہ صرف اعلیٰ مصنف و ادیب ہیں بلکہ بہت اچھے شاعر بھی ہیں۔ یہ کتاب 534صفحات پر مشتمل ہے اور اس کو کراچی سے بہت عمدہ پیرایہ میں شائع کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میر تقی میرؔ کا یہ شعر الطاف حسن قریشی صاحب پر صادق آتا ہے۔پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ ۔۔ افسوس کہ تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی۔