زینب کیس: سوالات کا سیلاب

2018 ,جنوری 28



زینب قتل کیس ایک معمہ تھا جو حل ہو گیا، ایک الجھائو تھا جو سلجھ گیا۔ قاتل پکڑا گیا، اس نے اعتراف کر لیا۔ اسے مثالی اور عبرتناک سزا دی جائے یا روایتی سزا سے ہمکنار کیا جائے، اسکے جرائم اور اعتراف کے بعد موت ہی اس کا مقدر ہے۔ اس نے اعتراف تو کیا مگر بہت سے سوالات تشنہ طلب ہیں۔ بہت سے لوگ ماننے کو تیار نہیں کہ یہ اس اکیلے کا کام ہے۔ اس نے 8 بچیوں کے ریپ اور قتل کا اعتراف کیا۔ اس کی گرفتاری سے قبل پولیس نے بھی ایک ہی شخص کی 8 بچیوں سے زیادتی کا دعویٰ کیا تھا۔ اسے سیریل کلر قرار دیا گیا۔ اسکے آٹھ بچیوں سے ریپ کے ڈی این اے میچ ہونے کی بات کی گئی۔ بچیوں کے ڈی این اے کب کئے گئے۔ کیا جب زیادتی اور قتل کے بعد لاشیں پھینکی جاتی تھیں، اس وقت ڈی این اے کروائے گئے یا ملزم کے پکڑے جانے سے قبل سات آٹھ روز میں بچیوں کی قبر کشائی کی گئی؟ ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ ایک ڈی این اے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ کم از کم ایک ڈی این اے ٹیسٹ دو دن میں مکمل ہو سکتا ہے عموماً 3 سے دس ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ سات آٹھ روز میں ہزاروں لوگوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیسے ہوگیا۔ ان سوالوں کے جواب نہ ملیں تو بھی عمران علی کے قاتل ہونے پر کوئی دوسری رائے سامنے آنے والے شواہد کے بعد نہیں ہو سکتی۔

پولیس نے عمران علی کا ڈی این اے کرانے سے گریز کیوں کیا؟ اور پھر اسے حراست میں لینے کے بعد چھوڑ بھی دیاتھا۔ کہا جاتا ہے پولیس یا سپیشل ادارے اسے مانیٹر کر رہے تھے۔ پھر جیکٹ کے بٹنوں کی کہانی سنائی گئی۔ مانیٹرنگ اور جیکٹ کے بٹن کیس کو جیمز بانڈ کی طرز پر حل کرنے کی ڈینگ ہو سکتی ہے۔ اتنی بڑی جیمز بانڈ اور سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس پہلی بچی کے قتل کے موقع پر کدھر تھی۔ وزیر اعلیٰ، وزیراعظم آرمی چیف اور سپریم کورٹ کا پریشر بڑھا تو پولیس کی دم کو آگ لگی تھی۔ بہرحال اداروں کو ملزم تک پہنچنے کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے۔

زینب کے اغوا کے چوتھے روز اسکی نعش ملی۔ اتنے دن بچی زندہ تھی یا نہیں، سوال یہ بھی ہے کہ وہ جس حالت میں بھی تھی، کہاں تھی؟ گھر میں؟ یا کہیں اور؟ عمران بچیوں کے ساتھ جبر کرکے ان کو مار دیتا تھا۔ اس کا کوئی حسین والا میں بچوں سے زیادتی ویڈیو کیس سے کوئی لنک ہے یا نہیں۔ اسکے وہی لوگ پشت پناہ تھے یا نہیں۔ یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ حسین والا کیس ٹھپ کیسے ہو گیا؟ میں نے قصور میں اپنے جاننے والے کچھ دوستوں اور وہاں کے حالات سے زیادہ آگاہ لوگوں سے بات کی تو حسین والا کیس میں ایک ایم پی کے ملوث ہونے کے بارے میں سب کی متفقہ رائے تھی۔ اس ایم پی اے کے ایک کزن کا عہدہ پنجاب میں صوبائی وزیر کے برابر، ان کا ایک عزیز ایم این اے اور کئی مقامی و صوبائی و قومی سطح کے بڑے عہدیدار ہیں۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات کے بعد انکی چیخیں بلند ہو رہی ہیں حالانکہ ڈاکٹر شاہد نے کسی کا نام نہیں لیا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کی 37 اکائونٹس کی سٹوری کے بعد ایک سراسیمگی تو ضرور نظر آئی مگر اس سے کیس میں کئی پہلوئوں پر تحقیقات کی ضرورت بھی محسوس ہوئی۔ اس سے کیس کیسے ڈی ٹریک ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے بات مفروضے پر کی یا ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ، اس سے قاتل کے گرد گھیرا مزید تنگ ہوا، اسے ریلیف ملنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ عمران علی کوبچیوں کے ساتھ زیادتی اور اس دوران وڈیو بنانے اور ایسا کاروبار کرنیوالے گینگ کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ یہ اس گینگ کا حصہ نہ بھی ہو، ایسے گینگ کی موجودگی کے خدشات بہرحال ہیں۔ حسین والا کیس میں ایسا سامنے آ چکا ہے۔ شاہد مسعود کے شواہد سے کچھ اور ہو نہ ہو ۔حسین والا گینگ بے نقاب ہوتا اور قابو آتا نظر آ رہا ہے۔

ڈاکٹر شاہد کو ان ہی کی اینکر برادری نے ولن بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشہ وارانہ رقابت ہو سکتی ہے۔ میں نہیں تو یہ بھی کیوں:رویے کا اظہار ہوسکتا ہے، وہ بہرحال اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ ایک بار تو انہوں نے ہلچل مچا دی۔ حکومتی برج لرز گئے۔ اینکر برادری انکی حمایت نہیں کر سکتی تھی تو سخت مخالفت اور پھانسی دو جیسے مطالبات سے بہتر تھا خاموش رہتی۔ کیس پرتو کوئی فرق نہیں پڑاالبتہ خود کو ایکسپوز کر لیا۔

بہت سے سوالات کے جوابات آئیں یا نہ آئیں عمران علی سزا کا مستوجب اور سزا پر عمل ہوتا بھی نظر آ رہا ہے۔ بادی النظر میں موت کی سزا اس کا مقدر ہے۔ بشرطیکہ پولیس کی حراست میں اس نے ’’خودکشی‘‘ نہ کر لی اور اسے مقابلے میں پار نہ کر دیا گیا۔

عمران کی گرفتاری پر وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے پریس کانفرنس کی جس میں تالیاں بجانے سے بدمزگی ہوئی۔ ایسی کانفرنس زیادہ سے زیادہ آئی جی کر دیتے۔ تالیوں کو ایشو سیاسی مخالفت کی وجہ سے بنایا گیا۔ شہباز شریف نے اس موقع پر کہا تھا کہ ان کا بس چلے تو اس درندے اور بھیڑئیے کو سرعام پھانسی دوں۔ لڑکی کے والد نے بھی یہی مطالبہ کیا جبکہ زینب کی ہمشیرہ اور والدہ نے ملزم کو سنگسار کرنے کی بات کی۔ سرعام پھانسی کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے کیونکہ سپریم کورٹ سرعام پھانسی نہ دینے کے کئی سال قبل احکامات دے چکی ہے۔پاکستان کا آئین ،فوجداری قوانین اور سپریم کورٹ کا فیصلہ سرعام پھانسی کی اجازت نہیں دیتا۔1994ء میںسپریم کورٹ کے چیف جسٹس ،جسٹس نسیم حسن شاہ ،جسٹس شفیع الرحمن ، جسٹس سعد سعود جان، جسٹس عبدالقدیر چودھری اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل لارجر بنچ سرعام پھانسیوں کیخلاف ازخود نوٹس کیس میںقراردے چکا ہے کہ کسی مجرم کو سرعام پھانسی دینا آئین کے آرٹیکل 14(1) کے منافی ہے۔اسی لئے معاملہ پارلیمنٹ میں لے جایا گیا۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے عمران علی کو سرعام پھانسی دینے کی تجویز پیش کی ۔کچھ ارکان نے تجویز کی مخالفت کی۔پیپلز پارٹی کے سینٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ ضیا ء دور میں زیادتی کے ایک مجرم کو سرعام پھانسی کی سزا دی گئی تھی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑا،تاریخ بتاتی ہے کہ مجرم سزائوں سے خو فزدہ نہیں ہوتے۔ سینیٹر میر حاصل بزنجوکا کہنا تھا کہ کسی بھی مجرم کو سر عام سزائے موت دینے کی سزا کی معاشرے میں گنجائش نہیں ۔ ایسی ترمیم کے معاشرے میں انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم ارکان کی بڑی تعداد سرعام پھانسی کی سزا کی حامی تھی۔سینیٹرسعودمجیدکا کہنا تھا کہ یہ تصوردرست نہیں کہ جوسزاضیاء الحق نے دی ہم نہیں دے سکتے،ہمیں اسلامی قوانین کے مطابق سزا دینی چاہئے کیوں کہ جن ممالک میں سرعام سخت سزائیں دی جاتی ہیں وہاں جرائم کی شرح انتہائی کم ہے۔

انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بھی سرعام پھانسی اور سنگساری وحشیانہ سزا نظر آتی ہے۔ انسانی حقوق والے تو سزائے موت ہی کے مخالف ہیں۔ یہ اپنے ضمیر سے زیادہ مغرب کے فنڈز کے زیر اثر ’’اصولی‘‘ موقف کا اظہار کرتے ہیں۔بعید نہیں کل عالمی گینگ کی بات کرنیوالے خود بھی اس کا حصہ ثابت ہوں۔

متعلقہ خبریں