لاہور کی معروف شاہراہ ریس کورس پر واقع ”چلڈرن کمپلیکس“ بچوں کی دلچسپی کا ایک بہت بڑا مرکز جہاں دن بھر بچوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے یہاں بچے اپنی اپنی من پسند دلچسپیوں سے دل بہلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چلڈرن کمپلیکس 75کنال کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے اس کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز 21اکتوبر 1987ءکو ہوا اور اس کی تکمیل 10نومبر 1988ءکو ہوئی۔ تعمیر پر دو کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ ہوئی جس کا مقصد بچوں کے لیے صحت مند تفریحات کی فراہمی تھا اس کا افتتاح 16نومبر 1988ءکو اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد نواز شریف نے کیا۔ اس موقع پر انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ کمپلیکس کی تعمیر سے بچوں کو صحت مند تفریحات میسر آئیں گی کیونکہ بچے بلاشبہ ہمارے معاشرے کی بنیاد ہیں۔ جدید سہولتوں سے آراستہ اس کمپلیکس میں بچوں کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
کبھی آپ کا دل چاہے کہ آپ بھی اپنے بچوں کو لے کر اس کمپلیکس میں جائیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آپ بچوں کو کمپلیکس کاممبر بنائیں جس کی فیس بہت معمولی سی ہے یعنی صرف 100روپے سالانہ اس کے علاوہ صرف 100روپے سیکورٹی فیس ہے جو کہ قابل واپسی ہے بھلا آپ ہی بتائیں کہ اتنے کم پیسوں میں بچوں کو اتنی سہولتیں کہیں اور مل سکتی ہیں۔ چلڈرن کمپلیکس کے مین گیٹ سے اندر داخل ہوں تو عمارت کے شروع ہونے سے پہلے گھاس کے وسیع قطعے میں جہاں بچوں کی دلچسپی کے لیے بہت سے جھولے وغیرہ لگے ہوئے ہیں شاید ہی کوئی وقت ایسا ہو جب یہاں آپ کو بچے کھیلتے ہوئے نہ دکھائی دیں۔ گھاس کے ان قطعات میں خوبصورت روشیں بنی ہوئی ہیں جن سے گذر کر عمارت تک پہنچا جاسکتا ہے عمارت کے بڑے دروازے سے اندر داخل ہوں تو کسی حد تک مغلیہ طرز تعمیر سے ملتی جلتی اس خوبصورت عمارت کا اندرونی منظر سامنے دکھائی دیتا ہے یہیںبہت سے حنوط شدہ جانور رکھے گئے ہیں جو اپنی جانب متوجہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جتنے بھی بچے یہاں آتے ہیں وہ ان حنوط شدہ جانوروں اور پرندوں کے بارے میں ضرور دریافت کرتے ہیں جن سے ان پرندوں کے بارے میں ان کی معلومات میں بہت اضافہ ہوتا ہے اس کے بالکل ساتھ ہی سمعی و بصری معاونت کا شعبہ قائم ہے جس میں مختلف موضوعات پر تقریباً ایک ہزار ویڈیو کیسٹیں موجود ہیں۔ بہت سی آڈیو کیسٹیں بھی اس شعبے کی زینت ہیں اس شعبے میں بچوں کی دلچسپی دیدنی ہوتی ہے کیونکہ یہاں آکر ان کے پاس مختلف موضوعات پر فلمیں دیکھنے کے مواقع ہوتے ہیں یہاں ہر وقت بہت سے بچے مختلف دلچسپیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔
اس شعبے سے باہر نکلیں تو اس کے بالکل سامنے کمپیوٹر سیکشن ہے۔ اس شعبے کے وسیع عریض کمرے میں کمپوٹرز کا ایک جال بچھا ہوا ہے یہاں بچے بڑے انہماک سے کمپیوٹرز پر مختلف گیمز کھیلنے میں مصروف رہتے ہیں۔ سیڑھیوں کے ذریعے اوپر کی منزل پر جائیں تو یہاں ایک لابی سی بنی ہوئی ہے جہاں مختلف کلاس روم بنے ہوئے ہیں یہاں بچوں کو مجسمہ سازی اور پینٹنگز وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس شعبہ کے بالکل ساتھ کمپلیکس کی لائبریری واقع ہے جس میں مختلف موضوعات پر تقریباً بارہ ہزار کتابیں موجود ہیں بچے جس موضوع پر کتاب پڑھنا چاہتے ہیں انہیں وہ کتاب میسر کر دی جاتی ہے اوپر والے فلور پر واقع شعبے دیکھنے کے بعد نیچے کا رخ کریں تو دائیں طرف کمپلیکس کا آڈٹیوریم واقع ہے اس آڈٹیوریم میں اکثر و بیشتر تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں اس آڈٹیوریم میں ہر اتوار کو فلم شو بھی منعقد کیا جاتا ہے جس میں بچوں کو مختلف موضوعات پر مزے مزے کی فلمیں دکھائی جاتی ہیں اس شور میں شریک ہونے کے لیے بچوں کو بہت معمولی سی رقم دینی پڑتی ہے یہ آڈٹیوریم کثیر المقاصد ہے۔
کمپلیکس میں ایک جدید ترین جمنازیم بھی تعمیر کیا گیا ہے کمپلیکس کا یہ حصہ خاصا جدید ہے یہاں بچوں کی جسمانی تعلیم و تربیت کے لیے مختلف کھیلوں کا اہتمام کیا گیا ہے ٹیبل ٹینس اور لان ٹینس بھی یہاں کھیلی جاسکتی ہیں اس کے علاوہ فزیکل فٹنس برقرار رکھنے کے لیے بھی یہاں جدید آلات موجود ہیں یہاں پر بلیئرڈ او ربچوں کی دلچسپی کے دوسرے لوازمات بھی موجود ہیں جن میں بچوں کی دلچسپی دیدنی ہوتی ہے اس موقع پر بہت چھوٹی عمر کے بچوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا جن کے لیے ہلکے پھلکے کھیلوں کا شعبہ قائم کیا گیا ہے اس شعبہ میں بلاکس، مونٹیسری وغیرہ رکھی گئی ہیں۔ مائیں بچوں کو لے کر یہاں آتی ہیں بڑے بچے اپنی اپنی دلچسپی کے شعبوں کا رخ کرتے ہیں اور چھوٹے بچے ہلکے پھلکے کھیلوں کے شعبے کی طرف چلے جاتے ہیں خواتین یہاں پر سلائی، کڑھائی، ڈریس ڈیزائنگ، مجسمہ سازی، کیلی گرافی اور دوسرے بہت سے ہنر سیکھ سکتی ہے۔ خواتین فی کورس 8سو روپے دے کر ان کلاسز میں داخلہ لے سکتی ہیں یہاں جاری کورسز میں قرات، ننجا، کہانی نویسی، فن موسیقی، اور دوسرے کورسز بھی کرائے جاتے ہیں۔ کورس کا دورانیہ تین ماہ ہوتا ہے جس کے اختتام پر بچوں میں سرٹیفکیٹس تقسیم کیے جاتے ہیں کمپلیکس کے بیشتر حصے ائیر کنڈیشنز ہیں اور عنقریب ہابی سیکشن اور ٹوائے سیکشن کی ائیرکنڈیشنگ کے بعد کمپلیکس مکمل طور پر ائیر کنڈیشنڈ ہو جائے گا۔ چلڈرن کمپلیکس میں بچوں کو لانے اور لے جانے کے لیے کمپلیکس کی فری بس سروس بھی ہے اگر کسی سکول کی انتظامیہ خواہش مند ہو کہ وہ اپنے سکول کے بچوں کو کمپلیکس لے کے جائے تو اس سلسلے میں کمپلیکس کی بس سروس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
ابھی ہمارے پاس بہت سی جگہ میسر ہے جہاں کئی اور دلچسپیوں کا اہتمام کیا جاسکتا ہے آپ یوں سمجھیئئے ہمارے پاس اس وقت جتنی جگہ ہے اس کا ہم صرف 40فی استعمال کر رہے ہیں اور 60فیصد کی استعمال کی گنجائش موجود ہے ویسے ہم سب سے پہلے یہاں سوئمنگ پول تعمیر کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے منصوبہ بندی ہو رہی ہے جیسے ہی ممکن ہوا اس کی تعمیر شروع کر دی جائے گی ہم چاہتے ہیں کہ اس کمپلیکس میں بچوں کی ضرورت کی ہر چیز موجود ہو۔ یعنی یہ کمپلیکس ہر لحاظ سے بچوں کی تمام ضروریات پوری کرے۔ اس کے علاوہ یہاں سپیشل بچوں کے لیے سہولیات کی فراہمی کا بھی منصوبہ ہے بنیادی طور پر یہ پنجاب کے سابق گورنر جنرل غلام جیلانی خان کا آئیڈیا تھا اور وہ اس کے بارے میں بہت پرجوش تھے بعد ازاں آنے والی حکومتوں نے بھی اس منصوبے کو آگے بڑھایا۔ میں والدین سے کہوں گا کہ وہ اپنے بچوں کو یہاں لے کر ضرور آئیں کہ یہ ان کے لیے بہت خوبصورت جگہ ہے۔
چلڈرن کمپلیکس لاہور میں واحد ایسی جگہ ہے جہاں بچوں کو پرسکون اور پراعتماد ماحول مہیا کیا جاتا ہے اس حوالے سے عبد اللہ محمود صاحب نے ذکر کرتے ہوئے کہا یہاں بچوں کی حفاظت و نگہداشت کا بھی مکمل طور پر خیال رکھا جاتا ہے اس لیے والدین کو قطعاً گھبرانا نہیں چاہیے۔ الغرض یہ پاکستان کا واحد ادارہ ہے جو بہترین سائنسی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے۔خصوصاً بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کے لیے تعلیمی مواقع مہیا کرنا بہت خوش آئندہ بات ہے این جی او، ڈونر ایجنسیز اور خصوصاً حکومت کو چاہیے کہ وہ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ ڈویژن اور ضلعی سطح پر چلڈرن کمپلیکس جیسے ادارے وجود میں لائے جہاں بچوں کو جدید سائنسی اصولوں کے ساتھ بہترین کھیلوں و دیگر مشاغل کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آسکیں۔ حکومت نے اس پروجیکٹ کی کامیابی کے بعد پنجاب کے 7بڑے اضلاع میں چلڈرن کمپلیکس بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سرگودھا میں چلڈرن کمپلیکس 3ماہ میں شروع ہو جائے گا۔ اس کے بعد راولپنڈی، ملتان، بہاولپور، رحیم یار خان، فیصل آباد، میں بھی چلڈرن کمپلیکس تعمیر ہوں گے۔